" ملکیت یا امانت "
ڈر۔۔۔خوف۔۔۔پریشانی۔۔۔بے چینی اُسی کا مقدر ہے جس کے پاس ایک بھرپور زندگی گُزارنے کے تمام لوازمات موجود ہوں۔۔۔ہر شے با افراط میسّر ہو۔
دیکھیں تو ان الفاظ میں تضاد جھلکتا ہے۔۔۔ سوچیں تو یہ ہماری عمر بھر کی وہ کمائی ہے جس کی قدروقیمت راستے میں آنے والی مٹی کی گرد سے بھی زیادہ نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جس کے پاس' بہت کچھ' ہو گا اس کے پاس کھونے کے لیے بھی بہت کچھ ہو گا۔۔۔ جس کے پاس اپنا کچھ ہے ہی نہیں وہ کیا گنوائے گا۔
ہاتھ خالی ہوں گے توملے گا بھری ہوئی جھولی کیونکرپھیلائی جا سکے گی۔ دولت ہو گی تو لُٹنے کا اندیشہ ہوگا۔۔۔اولاد ہوگی تو اس کی پرورش اُس کی تربیت کی فکرہو گی۔اُس کے بگڑنے کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ یہ صرف اور صرف ملکیت کا کھیل ہے کُفران ِنعمت ہرگز نہیں۔ ہوش سنبھالتےہی ہم دولت کے حصول کے لیےکوشش کرتے ہیں۔۔۔ ہموار زندگی کےلیے خاندان کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔ بچوں کو پالتے ہیں۔۔۔ چیزیں جمع کرتے ہیں۔ ہر شے پر اپنی مُہر لگاتے چلے جاتے ہیں۔ صحت کی خاطر تردّد کرتے ہیں۔۔۔اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔ایک کے بعد ایک چیزاپنی سہولت کے لیے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ہم سب کُچھ اپنی مُٹھی میں قید کر لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس افراتفری میں سب سے قیمتی شے ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ ہے"وقت"۔ ہم آگے بڑھ جاتے ہیں اور ہماراوقت پیچھے رہ جاتا ہے۔۔۔ وہ وہیں کھڑا ہمارا انتظار کرتا ہےکہ کب پلٹ کر اُسے آواز دیں۔ ہم تیزرفتار گھوڑے پر سوار سوچتے ہیں اگر پلٹ کر دیکھا تو پتھر کے بن جائیں گے۔ یہ تو پڑاؤ پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ زادِ سفر تو شاید کہیں دُور رہ گیا تھا۔
ہمیں صرف ایک کام کرنا ہے کسی بھی شے پراپنا تصرف جمانے کی بجائے اُس کا ایک امانت کے طور پرخیال رکھیں۔ضرورت پڑنے پراستعمال کریں تومالک کوآگاہ کردیں۔۔۔ اُس میں خیانت نہ کریں۔ اپنے تئیں مزید اضافہ کر کےمالک کو خوش کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔حساب کتاب صرف اُسی کا ہو گا جو دیا گیا ہے۔کاروبارمیں گھاٹا ہو جائے تو مالک کو بتائیں یہ نہ سوچیں کہ اُس کےخزانےمیں کون ساکمی آجائے گی ۔
اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کوعلم کا بیش بہا خزانہ عطا کیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی عقل سے کام لے کر اپنے آپ کو اس بارِگراں کا اہل ثابت کریں۔امانت کا امانت دار بن کر دکھائیں۔امانت کےساتھ دیانت فرض ہے اور خیانت سے نعمت زحمت میں بدل جاتی ہے۔ اس بال برابر فرق کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
"ملکیت"
کسی گھر پر تختی یا کتاب پر نام اور یہاں تک کے قبر پر کتبہ بھی ہمیشہ کسی ایک ہی شخص کے نام کا لگتا ہے۔ اب گھر میں خواہ ہزار مہمان آ جائیں، کتاب ان گنت لوگ پڑھیں اور قبر پر بےشمار ان جان حاضری دیں لیکن ملکیت اور حق صرف ایک کے پاس ہی رہتا ہے۔
ڈر۔۔۔خوف۔۔۔پریشانی۔۔۔بے چینی اُسی کا مقدر ہے جس کے پاس ایک بھرپور زندگی گُزارنے کے تمام لوازمات موجود ہوں۔۔۔ہر شے با افراط میسّر ہو۔
دیکھیں تو ان الفاظ میں تضاد جھلکتا ہے۔۔۔ سوچیں تو یہ ہماری عمر بھر کی وہ کمائی ہے جس کی قدروقیمت راستے میں آنے والی مٹی کی گرد سے بھی زیادہ نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جس کے پاس' بہت کچھ' ہو گا اس کے پاس کھونے کے لیے بھی بہت کچھ ہو گا۔۔۔ جس کے پاس اپنا کچھ ہے ہی نہیں وہ کیا گنوائے گا۔
ہاتھ خالی ہوں گے توملے گا بھری ہوئی جھولی کیونکرپھیلائی جا سکے گی۔ دولت ہو گی تو لُٹنے کا اندیشہ ہوگا۔۔۔اولاد ہوگی تو اس کی پرورش اُس کی تربیت کی فکرہو گی۔اُس کے بگڑنے کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ یہ صرف اور صرف ملکیت کا کھیل ہے کُفران ِنعمت ہرگز نہیں۔ ہوش سنبھالتےہی ہم دولت کے حصول کے لیےکوشش کرتے ہیں۔۔۔ ہموار زندگی کےلیے خاندان کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔ بچوں کو پالتے ہیں۔۔۔ چیزیں جمع کرتے ہیں۔ ہر شے پر اپنی مُہر لگاتے چلے جاتے ہیں۔ صحت کی خاطر تردّد کرتے ہیں۔۔۔اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔ایک کے بعد ایک چیزاپنی سہولت کے لیے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ہم سب کُچھ اپنی مُٹھی میں قید کر لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس افراتفری میں سب سے قیمتی شے ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ ہے"وقت"۔ ہم آگے بڑھ جاتے ہیں اور ہماراوقت پیچھے رہ جاتا ہے۔۔۔ وہ وہیں کھڑا ہمارا انتظار کرتا ہےکہ کب پلٹ کر اُسے آواز دیں۔ ہم تیزرفتار گھوڑے پر سوار سوچتے ہیں اگر پلٹ کر دیکھا تو پتھر کے بن جائیں گے۔ یہ تو پڑاؤ پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ زادِ سفر تو شاید کہیں دُور رہ گیا تھا۔
ہمیں صرف ایک کام کرنا ہے کسی بھی شے پراپنا تصرف جمانے کی بجائے اُس کا ایک امانت کے طور پرخیال رکھیں۔ضرورت پڑنے پراستعمال کریں تومالک کوآگاہ کردیں۔۔۔ اُس میں خیانت نہ کریں۔ اپنے تئیں مزید اضافہ کر کےمالک کو خوش کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔حساب کتاب صرف اُسی کا ہو گا جو دیا گیا ہے۔کاروبارمیں گھاٹا ہو جائے تو مالک کو بتائیں یہ نہ سوچیں کہ اُس کےخزانےمیں کون ساکمی آجائے گی ۔
اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کوعلم کا بیش بہا خزانہ عطا کیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی عقل سے کام لے کر اپنے آپ کو اس بارِگراں کا اہل ثابت کریں۔امانت کا امانت دار بن کر دکھائیں۔امانت کےساتھ دیانت فرض ہے اور خیانت سے نعمت زحمت میں بدل جاتی ہے۔ اس بال برابر فرق کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
"ملکیت"
کسی گھر پر تختی یا کتاب پر نام اور یہاں تک کے قبر پر کتبہ بھی ہمیشہ کسی ایک ہی شخص کے نام کا لگتا ہے۔ اب گھر میں خواہ ہزار مہمان آ جائیں، کتاب ان گنت لوگ پڑھیں اور قبر پر بےشمار ان جان حاضری دیں لیکن ملکیت اور حق صرف ایک کے پاس ہی رہتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں