وہ پریوں جیسی لڑکی تھی
پریوں سے وہ باتیں کرتی
وہ گڑیوں جیسی لڑکی تھی
گُڑیوں سے گھر گھرکھیلتی
وہ سوچ نگر کی رانی تھی
لفظوں سے دُکھ سُکھ کہتی
کسی اور نگر کی باسی تھی
اپنی دُھن میں چلتی رہتی
اپنے ساتھ وہ تنہا رہتی
تنہائی میں رب سے ملتی
وہ چاند نگر کی باسی تھی
خواب نگر میں رہتی تھی
وہ جو خوشبُو جیسی لڑکی تھی
وہ جو جاناں جاناں دِکھتی تھی
وہ لمس کی چاہ میں جیتی تھی
اور ہجر کی آگ میں جلتی تھی
جو راستوں میں بھٹکتی تھی
تو دِلوں میں کہیں ملتی تھی
وہ جو اُجلی اُجلی لڑکی تھی
میلے میلے ہاتھوں نےاُسے یوں
جھنجھوڑ دیا کہ سچّا موتی رول دیا
وہ اپنے رب سے کہتی تھی
اور اپنے رب کی سُنتی تھی
رب کی تھی اور رب کی ہے
سچّی تھی اور سچّی ہے
Farooq Hayat
جواب دیںحذف کریںNov 26, 2013
So pure and innocent creation. One can see the innosence of heart, through the purity of words.