ایک خط ۔۔۔۔
میرے پیارے بیٹے
!السلام علیکم
تُم پہلی بار گھرسے دُور،وطن سے دُور اور اپنے رشتوں سے دُور گئے ہو۔ ویسےتوانسان اس دُنیا میں ہمیشہ سے تنہا ہے۔وہ اکیلا آتا ہےاوراکیلا ہی چلا جاتا ہےلیکن اپنے آس پاس پیاروں کی موجودگی اُس کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اپنے وطن کی مِٹّی اُسے گرنے کے بعد اُٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔اپنے دیس کی مانوس خوشبو اُسے بےکراں آزادی کا احساس دلاتی ہے۔ زندگی کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے بنے بنائے دائرے سے باہرنکلنا پڑتا ہے۔ نِت نئے زاویے انسان کو وُسعتِ نظرعطا کرتے ہیں۔
تُم جس خطے(کمبوڈیا)میں ہو وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔جانتے ہو نا کہ پانی اگر رُک جائے، کھڑا رہے تو بیماریاں پھیلاتا ہے اور یہی پانی اگرزمین میں جذب ہوجائے تو اُس کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ بہتا جائےتو راستے میں آنے والی ہر شے کو سیراب کرتا چلا جاتا ہےیہاں تک کہ اپنی ذات کی نفی کر کے سمندر میں گُم ہو جاتا ہے۔لیکن پانی کا ایک مخصوص راستہ ،ایک گزرگاہ ہونا ضروری ہے،اپنی حدوں سے تجاوز کرے تباہی وبربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔یوں نہ صرف اپنی شفافیت کو مسخ کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سرسے چھت اور پاؤں سے زمین بھی چھین لیتا ہے۔انسان کو بہتےپانی کی طرح ہونا چاہیےلیکن اپنی اقدار اپنے شرف کو ساتھ لے کر یہ سفر طے کرنا ہو گا۔
تُم وہاں کھانا بھی بناتے ہو۔ جانتے ہو کہ کھانا بنانے کے لیے بُہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں مصالحوں کا تناسب ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ایک شے سب پر حاوی ہے۔ اس کے بغیر آپ لذیذ کھانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ بظاہر دیکھنےمیں خوش نظر کھانا اس کے بغیر بےکار ہے۔ میرے پیارے بیٹے اپنے سارے چاہنے والوں کو چھوڑ کر بھی ایک ایسا سہارا ہے جو ہر قدم تُمہارے ساتھ ہے۔ بات صرف اُسے پہچاننے کی ہے۔ اگرچہ وہ روزِاوّل سے ہمارے ساتھ ہے لیکن عارضی سہاروں کے جُھرمٹ میں ہمیں حقیقی روشنی کی قُربت محسوس نہیں ہوتی۔اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ یہ وہ کریڈٹ کارڈ ہے جو دُنیا کے ہربنک میں چلتا ہے۔ ہانڈی کانمک ہے جو سامنے موجود ہے لیکن ہم بھاگ بھاگ کر دوسرے مصالحے جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ حیرت سے دیکھتا ہے لیکن ساتھ پھربھی نہیں چھوڑتا۔جب ہم اُسے"جان" کراپنے ہرکام میں شریک کرتے ہیں تو اپنےعمل کی ذمہ داری اُس پرہی ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں کامیابی ملتی ہے تو رب کا شُکرادا کرتے ہیں۔ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں جب' تو'ہمارے ساتھ ہےتو یہ تیری ہی منشاء ہوگی۔ اگر ہمیں ٹھوکر لگی ہے تو ہماری ہی بہتری ہوگی۔
یقین کرو! اللہ کے ساتھ کے احساس سے بڑا سہارا کوئی بھی نہیں ہے۔ تُم ابھی صرف 22 برس کے ہو۔تُمہیں یہ باتیں شاید زیادہ سمجھ نہ آرہی ہوں۔جوان بچّے بُہت تیزرفتار ہوتے ہیں وہ دواوردوچار اور'ٹو دی پوائنٹ' بات کرتے ہیں۔ اُن کے پاس وقت بھی بُہت کم ہوتا ہے۔ چلو یہ سوچنے سمجھنے کا کام آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں۔عملی طورپرکرنے کا کام صرف یہ ہے تُم روزسفر پرنکلتے ہوتو وضو کرکےباہرنکلواورگاڑی میں بیٹھنےکے بعد "بِسمِ اللہ الرحمٰن الٰرحیم پڑھ کرایک بار نماز والا"درود شریف" پڑھ لیا کرو یقین جانواس کی برکت سے تمہارے سب کام آسان ہو جائیں گے۔
یہ بُنیاد کی وہ پہلی اینٹ ہے جس پرآہستہ آہستہ عمارت خود ہی استوار ہوتی جائے گی۔ ہمارا کام بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے۔آتشِ نمرود(دُنیا) میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ اللہ خود ہی راہِ ہدایت کی پہچان عطا کرے گا۔ فرائض کی طرف جانے میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا تُمہارےاندر نمازاورقُرآن کی طرف رغبت پیدا ہو جائے گی۔ہمارے دین میں جبرنہیں۔جب ہم خود کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے راستے کھول دیتا ہے۔ جُدائی بھی اللہ کی نعمت ہے۔ اپنوں سے دُور ہو کرہم بہتر طور پراُن کی قدر وقیمت جان سکتے ہیں۔ اللہ تُمہارا حامی وناصر ہو۔ جس طرح خیریت سے گئے ہواُسی طرح خیریت سے اپنا کام مُکمل کر کے واپس آؤ۔
اللہ پاک ہم سب کو ناگہانی حالات اور آزمائشوں سے دُور رکھے۔ اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جس کواُٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
والسّلام
تُمہاری "ممی "
2011 ، 11 ستمبر
Phnom Penh - Cambodia
Independence Monument
میرے پیارے بیٹے
!السلام علیکم
تُم پہلی بار گھرسے دُور،وطن سے دُور اور اپنے رشتوں سے دُور گئے ہو۔ ویسےتوانسان اس دُنیا میں ہمیشہ سے تنہا ہے۔وہ اکیلا آتا ہےاوراکیلا ہی چلا جاتا ہےلیکن اپنے آس پاس پیاروں کی موجودگی اُس کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اپنے وطن کی مِٹّی اُسے گرنے کے بعد اُٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔اپنے دیس کی مانوس خوشبو اُسے بےکراں آزادی کا احساس دلاتی ہے۔ زندگی کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے بنے بنائے دائرے سے باہرنکلنا پڑتا ہے۔ نِت نئے زاویے انسان کو وُسعتِ نظرعطا کرتے ہیں۔
تُم جس خطے(کمبوڈیا)میں ہو وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔جانتے ہو نا کہ پانی اگر رُک جائے، کھڑا رہے تو بیماریاں پھیلاتا ہے اور یہی پانی اگرزمین میں جذب ہوجائے تو اُس کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ بہتا جائےتو راستے میں آنے والی ہر شے کو سیراب کرتا چلا جاتا ہےیہاں تک کہ اپنی ذات کی نفی کر کے سمندر میں گُم ہو جاتا ہے۔لیکن پانی کا ایک مخصوص راستہ ،ایک گزرگاہ ہونا ضروری ہے،اپنی حدوں سے تجاوز کرے تباہی وبربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔یوں نہ صرف اپنی شفافیت کو مسخ کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سرسے چھت اور پاؤں سے زمین بھی چھین لیتا ہے۔انسان کو بہتےپانی کی طرح ہونا چاہیےلیکن اپنی اقدار اپنے شرف کو ساتھ لے کر یہ سفر طے کرنا ہو گا۔
تُم وہاں کھانا بھی بناتے ہو۔ جانتے ہو کہ کھانا بنانے کے لیے بُہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں مصالحوں کا تناسب ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ایک شے سب پر حاوی ہے۔ اس کے بغیر آپ لذیذ کھانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ بظاہر دیکھنےمیں خوش نظر کھانا اس کے بغیر بےکار ہے۔ میرے پیارے بیٹے اپنے سارے چاہنے والوں کو چھوڑ کر بھی ایک ایسا سہارا ہے جو ہر قدم تُمہارے ساتھ ہے۔ بات صرف اُسے پہچاننے کی ہے۔ اگرچہ وہ روزِاوّل سے ہمارے ساتھ ہے لیکن عارضی سہاروں کے جُھرمٹ میں ہمیں حقیقی روشنی کی قُربت محسوس نہیں ہوتی۔اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ یہ وہ کریڈٹ کارڈ ہے جو دُنیا کے ہربنک میں چلتا ہے۔ ہانڈی کانمک ہے جو سامنے موجود ہے لیکن ہم بھاگ بھاگ کر دوسرے مصالحے جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ حیرت سے دیکھتا ہے لیکن ساتھ پھربھی نہیں چھوڑتا۔جب ہم اُسے"جان" کراپنے ہرکام میں شریک کرتے ہیں تو اپنےعمل کی ذمہ داری اُس پرہی ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں کامیابی ملتی ہے تو رب کا شُکرادا کرتے ہیں۔ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں جب' تو'ہمارے ساتھ ہےتو یہ تیری ہی منشاء ہوگی۔ اگر ہمیں ٹھوکر لگی ہے تو ہماری ہی بہتری ہوگی۔
یقین کرو! اللہ کے ساتھ کے احساس سے بڑا سہارا کوئی بھی نہیں ہے۔ تُم ابھی صرف 22 برس کے ہو۔تُمہیں یہ باتیں شاید زیادہ سمجھ نہ آرہی ہوں۔جوان بچّے بُہت تیزرفتار ہوتے ہیں وہ دواوردوچار اور'ٹو دی پوائنٹ' بات کرتے ہیں۔ اُن کے پاس وقت بھی بُہت کم ہوتا ہے۔ چلو یہ سوچنے سمجھنے کا کام آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں۔عملی طورپرکرنے کا کام صرف یہ ہے تُم روزسفر پرنکلتے ہوتو وضو کرکےباہرنکلواورگاڑی میں بیٹھنےکے بعد "بِسمِ اللہ الرحمٰن الٰرحیم پڑھ کرایک بار نماز والا"درود شریف" پڑھ لیا کرو یقین جانواس کی برکت سے تمہارے سب کام آسان ہو جائیں گے۔
یہ بُنیاد کی وہ پہلی اینٹ ہے جس پرآہستہ آہستہ عمارت خود ہی استوار ہوتی جائے گی۔ ہمارا کام بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے۔آتشِ نمرود(دُنیا) میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ اللہ خود ہی راہِ ہدایت کی پہچان عطا کرے گا۔ فرائض کی طرف جانے میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا تُمہارےاندر نمازاورقُرآن کی طرف رغبت پیدا ہو جائے گی۔ہمارے دین میں جبرنہیں۔جب ہم خود کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے راستے کھول دیتا ہے۔ جُدائی بھی اللہ کی نعمت ہے۔ اپنوں سے دُور ہو کرہم بہتر طور پراُن کی قدر وقیمت جان سکتے ہیں۔ اللہ تُمہارا حامی وناصر ہو۔ جس طرح خیریت سے گئے ہواُسی طرح خیریت سے اپنا کام مُکمل کر کے واپس آؤ۔
اللہ پاک ہم سب کو ناگہانی حالات اور آزمائشوں سے دُور رکھے۔ اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جس کواُٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
والسّلام
تُمہاری "ممی "
2011 ، 11 ستمبر
Phnom Penh - Cambodia
Independence Monument
Ravenala madagascariensis. A beautiful plant.
Siem Reap -Angkor
اللہ پاک ہم سب کو ناگہانی حالات اور آزمائشوں سے دُور رکھے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جس کواُٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
جواب دیںحذف کریں...........
بہت خوبصورت تحریر ہے۔
bohattttt acha letter hay,
جواب دیںحذف کریںinsan mahsoos karay ya na karay,, mohsoos karny k baad dil aur zuban se iqraar karay ya na karay,, laikin ye haqeeqat hy ,, k insaan ki taqat ,, us k zinda rehnay ka sab se mazboot sahara yahi hy,, ALLAH PAK ki mohabbat ka ehsaas,, us k shah ragg se qareeb honay ka ehsaas ik bohat bari taqat hy,
jab poori dunya mai insaan akyla hota hy,, asmaan bhi ajnabi aur zameen bhi ajnabi lagti hy,, tab ALLAH PAK ka saath nazar ata hy,, jissay ham aam dino mai pahchaan nahi paatay,
jab insaan powerless ho jata hy,, tab ussay ALLAH PAK ki taqat k karishmay nazar atay hain....
ایک ماں اپنے بیٹے سے کتنی محبت کرتی ہے۔ تحریر پرھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرے بیٹے میرے بیٹے اس طرح مضاطب کرنے کا انداز دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمیں بھی اس وقت اپنے گھر سے دور پردیس کی زندگی گذار رہا ہوں اسلئے اس کا احساس مجھے بخوبی ہوتا۔
جزاک اللہ۔ ایسی تمام باتوں کو تحریر میں جمع کر دیا جو مختلف اوقات میں ذہن میں آتی ہیں اور نکل جاتی ہیں ۔ ماں کے جذبات اور دعاؤں کا مجموعہ ایک مکمل ضابطہ اخلاق و کردار واضح کر دیا بہترین کاوش۔
جواب دیںحذف کریں