٭محبت فاضل پہیہ نہیں کہ جب ٹائر پنکچر ہوا استعمال کر لیا۔۔۔محبت گاڑی کے پہئیوں پر لگا وہ وہیل کپ ہے جو نہ بھی ہو تو گاڑی کی رفتارپرکوئی فرق نہیں پڑتالیکن گاڑی مکمل ہو کر بھی ادھوری دکھائی دیتی ہے۔
٭محبت کمبخت نہیں ہوتی۔۔۔"کمبخت"وہ ہوتا ہے جس کا بخت اسے محبت کے اسرارورموز سے آشنا نہ کرے۔
٭محبت کوئی اختیار نہ رکھتے ہوئے اپنا اختیار چھوڑ دینے کا نام نہیں۔ بلکہ اختیار کی طاقت مل جانے کے بعد اپنی رضا سے سب کچھ بانٹ دینے کا نام ہے۔محبت بانٹنا بغیر کسی غرض کےہرایک کا ظرف نہیں۔
٭محبت ساتھ نہیں حوصلہ دیتی ہے۔ ہرانسان اکیلا آتا ہےاور اکیلا ہی چلا جاتا ہے۔
"محبت صرف دینے کا نام ہے۔۔۔ہم نہیں جانتے پانا کیا ہے"
وصال ِیاروہ لمحہ ہے جس کا صدیوں سے انتظارہوتا ہے پرجب آ جائےتوگرفت کا ایک پل صدیوں کا قرض چکا دیتا ہے۔
٭محبت زندگی کے پلیٹ فارم پر آنے والی وہ گاڑی ہے جس کے آنے کا ذرا برابر پتہ نہیں چلتا۔ یہ خوشبو کی طرح دھیرے دھیرے مشام ِجاں پر اترتی ہے۔۔۔ذہن وجسم پر برسوں سے جمی دھند صاف کر کے 'طوفان میل' کی طرح زن سے گزر جاتی ہے۔
٭محبت زندگی کے ساحل پر بنایا جانے والا وہ ریت کا گھروندا ہے کہ قدم جس کی نرماہٹ اور ٹھنڈک میں دھنسے جاتے ہیں۔۔۔ روح میں سکون اترتا چلا جاتا ہے۔۔۔ کہ یکدم کسی بھی لمحے آگہی کے سورج کی تپش بڑھ جاتی ہے یا وقت کی ظالم لہر ایک پل میں سب تہس نہس کر دیتی ہے۔ لیکن طمانیت اور لذت کا احساس ہر خلش ہر کسک پر ہمیشہ کے لیے حاوی رہتا ہے۔
٭محبت چاہے روح کی ہو یا جسم کی ہمیشہ سے لمس کی طلب گار رہی ہے۔جسم کی محبت جسم کا لمس چاہتی ہے اور روح کی محبت آنکھ کے لمس کا یقین۔ آنکھ جسم انسانی کا وہ خاص جزو ہے جو ہر احساس کو لمحوں میں جذب کر کے رہتی عمر تک یاد کی صورت آنکھ کے پردے پرمحفوظ کر لیتا ہے۔
٭ محبت وہ ہے جو محبوب کو چھونے سے زیادہ محسوس کرنے سے محبوب کو اپنی نگاہ میں معتبر بنا دیتی ہے۔چھونے کی خواہش سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی فطرت اور جبلت میں شامل ہے اور خانہ کعبہ رب کی طرف سے اس کی کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے۔اب سوال یہ کہ اہم کیا ہے"چھونا یا دیکھنا تو آنکھ کا لمس اہم ہے یقین کے لیے اور "چھونے کی خواہش پھر ہمیشہ کے لیے ساتھ رکھنے ساتھ رہنے کی ہوس میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
جسم کی بھوک مٹانے والے شانت تو کردیتے ہیں لیکن طلب بڑھا بھی دیتے ہیں ۔ ساتھ دے نہیں سکتےاورساتھ رہتے بھی نہیں ۔ سارا رس نچوڑ لیتے ہیں اورسیری کی کیفیت بھی پیدا نہیں ہونے دیتے۔جسم کی پیاس رُک جائے تو جان لو قرارآگیا لیکن اگر بھٹکتی رہے تو ہوس بن جاتی ہے۔ خیال کی بھوک اس جسم کی روح کی طرح ہوتی ہے جو ٹھہر جائے تو انسان اس روح کےجسم کا بھی تمنائی ہو جاتا ہے۔ اگر جسم مل بھی جائے تو روح کبھی نہیں ملتی ۔ روح کی زندگی بےقراری میں ہے، سفر میں ہے۔ جو اپنے مالک سے مل کر ہی قرار پاتی ہے۔
بھوک اور محبت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔بھوک محبت کو کھا جاتی ہے بظاہر انسان بھوک مٹا کر بڑا شانت دکھتا ہے درحقیقت اُس کی ہوس اور پیاس مزید بڑھ چُکی ہوتی ہے۔بھوک محبوب کو پا لینے کے بعد اُس کو اپنی ملکیت اپنی بڑائی سمجھنے کا نام ہےجبکہ محبت بھوک کو برداشت سکھاتی ہے۔۔۔ محبت اپنی پیاس بُجھانے سے پہلے دوسرے کی پیاس بُجھاتی ہے۔
محبت خود بھوکا رہنے اور دوسرے کو سَیر کر دینے کا نام ہے۔
٭محبت ایک عمل ہے جو وصال سے شروع ہو کروصال پرختم ہوتاہے۔۔۔"روح کا جسم سے ملاپ پھر جسم کا روح سے اور پھر روح کا روح سے"لیکن ہم وصال کے بعد فراق چاہتے ہیں تو پھر محبت کی تکمیل کیونکرہو سکتی ہے۔" محبت کی تکمیل صرف لمس کی گواہی چاہتی ہے"۔خیال کی بھوک خوشبو کی طرح سفر میں رہتی ہے پر یہ وہ سفر ہے جو لاحاصل کبھی نہیں ہوتا اس سفر میں لذتیں ہی لذتیں ہیں۔ہر گاہ پرہمسفر ذرا دیر کو ملتے ہیں،ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تازہ دم کرتے ہیں اور پھر نئی منزلوں کو روانہ کر دیتےہیں۔ ۔خیال کی بھوک لمس کی چاہ میں بےقرار رہتی ہے۔اس کو ذرا سی بھی جھری مل جائےتو اپنا راستہ آپ تلاش کر لیتی ہے۔یہ نہ لینے والے پر بوجھ بنتی ہے اورنہ دینے والا بےسروسامان رہ جاتا ہے۔
زندگی میں کچھ لوگ بنا کسی ارادے کسی چاہ کے بس اچانک بڑی خاموشی سے ہماری روح میں جذب ہوجاتے ہیں، سائے کی ٭طرح ہمارے ساتھ تو رہتے ہیں لیکن جہاں ہمارے جسمانی رشتوں سے ذرا دور رہتے ہیں۔ وہیں ہم بھی اپنی ذات کے دائرے میں ان کی موجودگی کا جواز ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔کیوں نہ ہم سب اگر مگر چھوڑ دیں اور بس یہ کہیں کہ "وہ ہمارے ہیں اور ہم ان کے" درمیان میں کچھ نہیں نہ صلہ ،نہ جفا ،نہ وفا۔ صرف احساس ہے ساتھ کا اور خیال ہے چاہ کا۔
٭بھوک مٹتی جائے تو طلب بڑھ جاتی ہے۔خواہش چاہ بن جائے تو خواہش پوری بھی ہو جاتی ہے لیکن چاہ کبھی نہیں ملتی۔
٭چاہ،محبت اورعشق جب تک قول سے نکل کرعمل کی بھٹی میں نہ پکے کبھی کندن نہیں بنتا۔
٭محبت کمبخت نہیں ہوتی۔۔۔"کمبخت"وہ ہوتا ہے جس کا بخت اسے محبت کے اسرارورموز سے آشنا نہ کرے۔
٭محبت کوئی اختیار نہ رکھتے ہوئے اپنا اختیار چھوڑ دینے کا نام نہیں۔ بلکہ اختیار کی طاقت مل جانے کے بعد اپنی رضا سے سب کچھ بانٹ دینے کا نام ہے۔محبت بانٹنا بغیر کسی غرض کےہرایک کا ظرف نہیں۔
٭محبت ساتھ نہیں حوصلہ دیتی ہے۔ ہرانسان اکیلا آتا ہےاور اکیلا ہی چلا جاتا ہے۔
"محبت صرف دینے کا نام ہے۔۔۔ہم نہیں جانتے پانا کیا ہے"
وصال ِیاروہ لمحہ ہے جس کا صدیوں سے انتظارہوتا ہے پرجب آ جائےتوگرفت کا ایک پل صدیوں کا قرض چکا دیتا ہے۔
٭محبت زندگی کے پلیٹ فارم پر آنے والی وہ گاڑی ہے جس کے آنے کا ذرا برابر پتہ نہیں چلتا۔ یہ خوشبو کی طرح دھیرے دھیرے مشام ِجاں پر اترتی ہے۔۔۔ذہن وجسم پر برسوں سے جمی دھند صاف کر کے 'طوفان میل' کی طرح زن سے گزر جاتی ہے۔
٭محبت زندگی کے ساحل پر بنایا جانے والا وہ ریت کا گھروندا ہے کہ قدم جس کی نرماہٹ اور ٹھنڈک میں دھنسے جاتے ہیں۔۔۔ روح میں سکون اترتا چلا جاتا ہے۔۔۔ کہ یکدم کسی بھی لمحے آگہی کے سورج کی تپش بڑھ جاتی ہے یا وقت کی ظالم لہر ایک پل میں سب تہس نہس کر دیتی ہے۔ لیکن طمانیت اور لذت کا احساس ہر خلش ہر کسک پر ہمیشہ کے لیے حاوی رہتا ہے۔
٭محبت چاہے روح کی ہو یا جسم کی ہمیشہ سے لمس کی طلب گار رہی ہے۔جسم کی محبت جسم کا لمس چاہتی ہے اور روح کی محبت آنکھ کے لمس کا یقین۔ آنکھ جسم انسانی کا وہ خاص جزو ہے جو ہر احساس کو لمحوں میں جذب کر کے رہتی عمر تک یاد کی صورت آنکھ کے پردے پرمحفوظ کر لیتا ہے۔
٭ محبت وہ ہے جو محبوب کو چھونے سے زیادہ محسوس کرنے سے محبوب کو اپنی نگاہ میں معتبر بنا دیتی ہے۔چھونے کی خواہش سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی فطرت اور جبلت میں شامل ہے اور خانہ کعبہ رب کی طرف سے اس کی کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے۔اب سوال یہ کہ اہم کیا ہے"چھونا یا دیکھنا تو آنکھ کا لمس اہم ہے یقین کے لیے اور "چھونے کی خواہش پھر ہمیشہ کے لیے ساتھ رکھنے ساتھ رہنے کی ہوس میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
٭محبت کوئی اختیار نہ رکھتے ہوئے اپنا اختیار چھوڑ دینے کا نام نہیں۔ بلکہ اختیار کی طاقت مل جانے کے بعد اپنی رضا سے سب کچھ بانٹ دینے کا نام ہے۔محبت بانٹنا بغیر کسی غرض کےہرایک کا ظرف نہیں۔
٭محبت ساتھ نہیں حوصلہ دیتی ہے۔ ہرانسان اکیلا آتا ہےاور اکیلا ہی چلا جاتا ہے۔
"محبت صرف دینے کا نام ہے۔۔۔ہم نہیں جانتے پانا کیا ہے"
وصال ِیاروہ لمحہ ہے جس کا صدیوں سے انتظارہوتا ہے پرجب آ جائےتوگرفت کا ایک پل صدیوں کا قرض چکا دیتا ہے۔
٭محبت زندگی کے پلیٹ فارم پر آنے والی وہ گاڑی ہے جس کے آنے کا ذرا برابر پتہ نہیں چلتا۔ یہ خوشبو کی طرح دھیرے دھیرے مشام ِجاں پر اترتی ہے۔۔۔ذہن وجسم پر برسوں سے جمی دھند صاف کر کے 'طوفان میل' کی طرح زن سے گزر جاتی ہے۔
٭محبت زندگی کے ساحل پر بنایا جانے والا وہ ریت کا گھروندا ہے کہ قدم جس کی نرماہٹ اور ٹھنڈک میں دھنسے جاتے ہیں۔۔۔ روح میں سکون اترتا چلا جاتا ہے۔۔۔ کہ یکدم کسی بھی لمحے آگہی کے سورج کی تپش بڑھ جاتی ہے یا وقت کی ظالم لہر ایک پل میں سب تہس نہس کر دیتی ہے۔ لیکن طمانیت اور لذت کا احساس ہر خلش ہر کسک پر ہمیشہ کے لیے حاوی رہتا ہے۔
٭محبت چاہے روح کی ہو یا جسم کی ہمیشہ سے لمس کی طلب گار رہی ہے۔جسم کی محبت جسم کا لمس چاہتی ہے اور روح کی محبت آنکھ کے لمس کا یقین۔ آنکھ جسم انسانی کا وہ خاص جزو ہے جو ہر احساس کو لمحوں میں جذب کر کے رہتی عمر تک یاد کی صورت آنکھ کے پردے پرمحفوظ کر لیتا ہے۔
٭ محبت وہ ہے جو محبوب کو چھونے سے زیادہ محسوس کرنے سے محبوب کو اپنی نگاہ میں معتبر بنا دیتی ہے۔چھونے کی خواہش سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی فطرت اور جبلت میں شامل ہے اور خانہ کعبہ رب کی طرف سے اس کی کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے۔اب سوال یہ کہ اہم کیا ہے"چھونا یا دیکھنا تو آنکھ کا لمس اہم ہے یقین کے لیے اور "چھونے کی خواہش پھر ہمیشہ کے لیے ساتھ رکھنے ساتھ رہنے کی ہوس میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
جسم کی بھوک مٹانے والے شانت تو کردیتے ہیں لیکن طلب بڑھا بھی دیتے ہیں ۔ ساتھ دے نہیں سکتےاورساتھ رہتے بھی نہیں ۔ سارا رس نچوڑ لیتے ہیں اورسیری کی کیفیت بھی پیدا نہیں ہونے دیتے۔جسم کی پیاس رُک جائے تو جان لو قرارآگیا لیکن اگر بھٹکتی رہے تو ہوس بن جاتی ہے۔ خیال کی بھوک اس جسم کی روح کی طرح ہوتی ہے جو ٹھہر جائے تو انسان اس روح کےجسم کا بھی تمنائی ہو جاتا ہے۔ اگر جسم مل بھی جائے تو روح کبھی نہیں ملتی ۔ روح کی زندگی بےقراری میں ہے، سفر میں ہے۔ جو اپنے مالک سے مل کر ہی قرار پاتی ہے۔
بھوک اور محبت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔بھوک محبت کو کھا جاتی ہے بظاہر انسان بھوک مٹا کر بڑا شانت دکھتا ہے درحقیقت اُس کی ہوس اور پیاس مزید بڑھ چُکی ہوتی ہے۔بھوک محبوب کو پا لینے کے بعد اُس کو اپنی ملکیت اپنی بڑائی سمجھنے کا نام ہےجبکہ محبت بھوک کو برداشت سکھاتی ہے۔۔۔ محبت اپنی پیاس بُجھانے سے پہلے دوسرے کی پیاس بُجھاتی ہے۔
محبت خود بھوکا رہنے اور دوسرے کو سَیر کر دینے کا نام ہے۔
٭محبت ایک عمل ہے جو وصال سے شروع ہو کروصال پرختم ہوتاہے۔۔۔"روح کا جسم سے ملاپ پھر جسم کا روح سے اور پھر روح کا روح سے"لیکن ہم وصال کے بعد فراق چاہتے ہیں تو پھر محبت کی تکمیل کیونکرہو سکتی ہے۔" محبت کی تکمیل صرف لمس کی گواہی چاہتی ہے"۔خیال کی بھوک خوشبو کی طرح سفر میں رہتی ہے پر یہ وہ سفر ہے جو لاحاصل کبھی نہیں ہوتا اس سفر میں لذتیں ہی لذتیں ہیں۔ہر گاہ پرہمسفر ذرا دیر کو ملتے ہیں،ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تازہ دم کرتے ہیں اور پھر نئی منزلوں کو روانہ کر دیتےہیں۔ ۔خیال کی بھوک لمس کی چاہ میں بےقرار رہتی ہے۔اس کو ذرا سی بھی جھری مل جائےتو اپنا راستہ آپ تلاش کر لیتی ہے۔یہ نہ لینے والے پر بوجھ بنتی ہے اورنہ دینے والا بےسروسامان رہ جاتا ہے۔محبت خود بھوکا رہنے اور دوسرے کو سَیر کر دینے کا نام ہے۔
زندگی میں کچھ لوگ بنا کسی ارادے کسی چاہ کے بس اچانک بڑی خاموشی سے ہماری روح میں جذب ہوجاتے ہیں، سائے کی ٭طرح ہمارے ساتھ تو رہتے ہیں لیکن جہاں ہمارے جسمانی رشتوں سے ذرا دور رہتے ہیں۔ وہیں ہم بھی اپنی ذات کے دائرے میں ان کی موجودگی کا جواز ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔کیوں نہ ہم سب اگر مگر چھوڑ دیں اور بس یہ کہیں کہ "وہ ہمارے ہیں اور ہم ان کے" درمیان میں کچھ نہیں نہ صلہ ،نہ جفا ،نہ وفا۔ صرف احساس ہے ساتھ کا اور خیال ہے چاہ کا۔
٭بھوک مٹتی جائے تو طلب بڑھ جاتی ہے۔خواہش چاہ بن جائے تو خواہش پوری بھی ہو جاتی ہے لیکن چاہ کبھی نہیں ملتی۔
٭چاہ،محبت اورعشق جب تک قول سے نکل کرعمل کی بھٹی میں نہ پکے کبھی کندن نہیں بنتا۔
BOHAT KHOOB
جواب دیںحذف کریںخیالات کی روانی تسلسل اور پھر ان کو ایک لڑی میں پرو کر دنیا کے سامنے پیش کرنا آپ پہ ختم ہے جناب۔ بظاہر ایک دقیق فلسفہ لگتا ہے مگر ذرا سا رک کے جذب کرنے سے یمجھ آتی ہے کہ لفظ کیا کہہ رہے ہیں
جواب دیںحذف کریں