منگل, جنوری 15, 2013

" تنہا ئی "

"گوشہ نشینی "
تنہائی ایک  گوہرِ نایاب ہےاس میں جو خزانے پوشیدہ ہیں،دُنیا کا ہرانسان چاہے مومن ہو یا مشرک اس پر یکساں طورپرظاہر ہو جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مومن ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہےوہ پہچان کےساتھ اس کو حاصل کرتا ہے۔
 اللہ کو نہ ماننے والا اگرچہ جان تو جاتا ہےکہ کوئی ہے جوعطا کر رہا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ شک اور یقین کے درمیان رہتا ہے۔غوروفکراورتلاش کا یہ سفرتنہائی سے شُروع ہوتا ہے۔اپنے آپ کو جاننے کی طلب اُسے دوسرے انسانوں سےلاتعلق سا کر دیتی ہے۔وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ایک اور دنیا کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اپنی ذات کے حصار سے نکل کر وہ کائنات کے سربستہ رازوں کے کھوج میں نکل جاتا ہے۔جوں جوں اندر کا شور بڑھتا ہے وہ باہر کی دنیا سے بےخبر اور خاموش ہوتا جاتا ہے۔انسانوں کے ہجوم میں وہ اجنبی اورناپسندیدہ جانا جاتا ہے۔تنہائی اور سوچ بچار کے بعد جب اسےعطا کیا جاتاہےتو اسکی خواہش ہوتی ہےکہ عام انسانوں کو اس اکرام میں شامل کرے۔دُنیا کے سائنسدانوں،عظیم مفکّروں اور،فلسفیوں نے جیسے جیسےنامعلوم سے معلوم کے اس سفر میں انسانوں کو شامل کرنا چاہا،انہیں قدم قدم پر مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نت نئی ایجادات کرنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ شِکنی کی گئی۔انتہائی نامساعد حالات میں انہوں نے صرف اپنی لگن کے سہارے کام جاری رکھا۔ بہت کم ایسے تھے جن کے خیالات وافکار کو اُن کی زندگی میں تسلیم کر لیا گیا ہو۔بیشتر کو اپنی سوچ اپنی جدوجُہد کو سچ ثابت کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دینا پڑی ۔
 یہاں پہنچ کربُزرگانِ دین اوردُنیا کے بُلند پایہ مفکرین اورتحقیق وتجربات کرنے والوں کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے۔عرفان ِحقیقت کے بعد اولیاءاللہ کےعاجزانہ اندازسے لوگ غیر محسوس طور پرخود بخود اُن کی طرف کھنچے چلے آئے جبکہ مغربی مشاہرین نے دلیل کے زور پر لوگوں کو قائل کرنا چاہا اورلوگوں نے اپنے موروثی علم کی بدولت اسے ردّ کیا۔
یہ ظاہری علم اور باطنی علم کا معاملہ تھا مثال کے طور پر ذہین وفطین افراد نے جب یہ علم حاصل کیا کہ سورج کیسے روشنی دیتا ہے اس کا زمین سے فاصلہ کتنا ہے؟اس کی روشنی کے اثرات کیا ہیں؟ تواللہ والے اس سوچ میں محّو تھے کہ سورج کو روشن رکھنے والی ذات کتنی عظیم ہے۔۔۔اس کائنات کی تخلیق کے کیا مقاصد ہیں۔۔۔ ہم کس طرح اس کرم کا حق ادا کر سکتے ہیں۔۔۔اس روشنی کو کس طور آگے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ظاہری تلاش کا سفر اپنے آپ سے شروع ہو کرایک ادارے پر ختم ہوتا ہے۔انسان نت نئی ایجادات کرتا ہے۔۔۔ نئے نظریات پیش کرتا ہے۔۔۔ دوسرے لوگوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے۔۔۔آنے والے کام میں مزید بہتری لاتے ہیں۔ یوں کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے انسان نہ صرف انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں میں بلکہ اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے بنی نوع انسان کو تباہ کرنےکی کشمکش میں عروج تک جا پہنچتا ہے۔
'میں'سےشروع ہونےوالا سفر'میں' پرہی ختم ہوجاتا ہے۔تحقیق وجستجو کے مسافر آگے سے آگے بڑھنے اورجاننے کی خواہش میں اپنی طلب اپنی پیاس ورثے میں چھوڑ کرراہیء مُلکِ عدم ہوتے ہیں ۔
 باطنی تلاش کے لیے انسان دوسرے انسانوں سے رفتہ رفتہ دُورہونے لگتا ہے۔۔۔اگرچہ اُسے بےکلی تورہتی ہےکہ وہ ایسی زبان جاننے لگا ہے جسے دوسرے بالکل نہیں جانتے لیکن وہ کسی پرحاوی نہیں ہونا چاہتا ۔ وہ اپنی ذات میں اپنی کائنات آپ ہوتا ہے۔ اپنے رب سے رابطہ ہو یہی کافی ہے۔ چاہ ہے توفقط یہ اُسے اُس کے حال پرچھوڑدیا جائے اگرہم کسی کو کچھ دے نہ سکیں تو لینے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اللہ والے علم کے راستے پر چلنے کے بعد اتنا جان گئے وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ جو کچھ بھی ہے وہ اُن کی محدودعقل و شعورسے ماورا ہے۔ جوبنیادی احکامات ہیں ان پرعمل کرنا اور آگے پہنچانا ہی ان محدود ماہ و سال کا مقصد ہے۔ یہ ایسا سفر ہے جس میں اپنی "میں" کی نفی کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اپنے آپ کی تلاش ہے۔ موت اس سفر کا اختتام نہیں صرف ایک سنگِ میل ہے،آگے کیا ہو یہ صرف رب جانتا ہے۔
پسِ تحریر
 "تنہائی"(اکتوبر 2011)۔یہ  اس وقت کی تحریر ہے جب میرے سامنے کوئی پڑھنے والا دور دور تک نہیں تھا اور مجھے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ میں کیوں لکھتی ہوں ؟ اور پھر بجائے ضائع کرنے کے بڑے اہتمام سے چھپا کر رکھ دیتی ہوں ؟.
لیکن لکھنا اس وقت بھی میرے لیے ایک عجیب مسرت کا باعث ہوتا تھا جیسے خود سے باتیں کرنا ،اپنے آپ کو سمجھانا۔ اور لکھنے کے بعد کبھی اضافہ نہیں کیا کہ ہوتا بھی نہیں۔اس لیے اکثر تحاریر آپ کو ادھوری یا الجھی ملیں گی۔ میری تحاریر ایک طرح سے میری اپنے آپ سے بات چیت ہے جس میں سوال بھی میرے ہیں اور جواب بھی مجھی کو دینا پڑتے ہیں۔

3 تبصرے:

  1. جمعہ, فروری 27, 2015
    Khurram Baqa
    Umdaa likha Noureen Tabassum aap ne lakin canvas ko mehdood kaar diy. Kufar aur imaan phaans gai, Tafseel se jawab banta haay iss post ka jo zara waqt nikal k doun ga

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اکتوبر2011 میں "تنہائی" میری اس وقت کی تحریر ہے جب میرے سامنے کوئی پڑھنے والا دور دور تک نہیں تھا اور مجھے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ میں کیوں لکھتی ہوں ؟ اور پھر بجائے ضائع کرنے کے بڑے اہتمام سے چھپا کر رکھ دیتی ہوں ؟.
      لیکن لکھنا اس وقت بھی میرے لیے ایک عجیب مسرت کا باعث ہوتا تھا جیسے خود سے باتیں کرنا ،اپنے آپ کو سمجھانا۔ اور لکھنے کے بعد کبھی اضافہ نہیں کیا کہ ہوتا بھی نہیں۔اس لیے اکثر تحاریر آپ کو ادھوری یا الجھی ملیں گی۔ میری تحاریر ایک طرح سے میری اپنے آپ سے بات چیت ہے جس میں سوال بھی میرے ہیں اور جواب بھی مجھی کو دینا پڑتے ہیں۔

      حذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...