خالقِ ارض وسما کی پیداکردہ دو کائنات ہم اپنی عقل کے دائرے میں محسوس کر سکتے ہیں۔ایک جو ہم آنکھ سےدیکھ سکتے ہیں۔۔دماغ سےسمجھ سکتے ہیں اوردل سے جس پرایمان لاتے ہیں۔ایک وہ جس کے لیے ہمیں اندرکی آنکھ کھولنے کی ضرورت ہے۔آنکھ کُھل جائے تو ہمیں اپنے وجود کی ایک اِک شے سے واقف کراتی ہےبالکل ایسے کہ آنکھ باہر کی سمت سے دیکھے تودُنیا دکھائی دیتی ہے اور یہی اندر سے روشن ہوجائے توجسم کی ایک عظیم دُنیا ہماری مُنتظر ہوتی ہے۔۔۔جس میں شور مچاتا دل اپنے رواں دواں خون کےساتھ نظرآتا ہے۔غرض ہر نظام اپنی پوری جُزئیات کے ساتھ عیاں ہوجاتا ہے۔
آنکھ جب باہرسے دیکھتی ہے تواس کی ایک حد ہوتی ہے۔اس کو اشیاء اپنی ظاہری سج دھج کے ساتھ نظرآتی ہیں ۔ جو شے جیسی دِکھتی ہے بعینٰہہ ویسی نظرآتی ہے۔ایک خاص فاصلے کے بعد وہ نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔
انسان مصنوعی ذرائع استعمال کرکے اپنی استعداد بڑھا سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہزاروں میل کی مسافت بھی انسان کی قوتِ بصارت میں حائل نہیں۔ انسان اپنے حاصل کردہ علم کی بدولت زمین کی گہرائیوں اور سمندروں کی پنہائیوں میں دیکھنے کے قابل ہو گیا ہے۔ وہ گھر بیٹھے کہیں دُنیا کے بُلند وبالا پہاڑ پر جا پہنچتا ہے توکہیں کسی کی خواب گاہ میں جھانکنا بھی اب ناممکن نہیں رہا ۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کائنات کو مسخّر کرنے کے عمل میں انسان آگے سے آگے بڑھ رہا ہے اورہرقدم پر اپنی محنت ومشقت کے برابراُسے کامیابی بھی مل رہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کامیابی کیا ہے اور یہ تسخیرکیا ہے؟
کیا کسی عظیم الشّان عجائب گھر میں داخل ہو کراپنی طاقت وقوّت کے بَل پرایک کے بعد ایک دروازے کھولتے جانا اورنت نئے نوادرات دریافت کرنا اوراس کو ہی اپنا کمال سمجھناکامیابی ہے؟
کیا کسی شاہکار کے رنگوں کی جُزئیات پر بحث کرنا؟ مصور کے فن پارے دیکھ کراُس کی نقالی کرنا ہی قوتِ بازو ہے؟
یقیناً نہیں۔یہ بالکل وہی سوچ ہے جو دُنیا کے بُلند ترین پہاڑوں کو سر کرنے کے بعد کسی کوہ پیما کی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خالقِ کائنات کی بنائی ہوئی کائنات پر غور کرنا،اُس کوجاننا عین عبادت ہے۔ ہمیں اس کا حُکم دیا گیا ہے- لیکن صرف اپنی ظاہری آنکھ پر بھروسہ کرنا انسان کو راہ سے بھٹکا بھی دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خالق کے معیار پر دیکھنے کا آرزو مند ہو جاتا ہے کہیں کلوننگ شُروع ہو جاتی ہے توکہیں انسان مظاہرِفطرت پر قابو پانے کوسرگرم ہو جاتا ہے اور کہیں نعوذ باِللہ اپنے آپ کو ہی خدا کے برابر سمجھنے لگتا ہے۔
اس کے برعکس ظاہری آنکھ کی اگرحد ہے تواندرکی آنکھ کی کوئی حد نہیں یہ کُھل جائے تو انسان کو وہ کچھ دکھائی دیتا ہےجس کا دُنیا کے کامیاب ترین انسان تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔
اندر کی آنکھ کیا ہے؟ یہ کون سی کائنات ہے؟
اس سب سے مشکل سوال کا نہایت آسان سا جواب یہ ہے کہ اپنی آنکھ اگر اندر کی طرف کُھل جائےتوصرف اپنا آپ دکھائی دے گا ہماری اپنی ذات۔یہ وہ کائنات ہے جو صرف ہماری ہے اس کی عظمت ووُسعت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ جوں جوں ہم دروازےکھولتے ہیں یا پردہ ہٹتا جاتا ہے توایک نئی دُنیا منتظرہوتی ہے۔
اِس جُستجو اوراُس جُستجومیں فرق یہ ہےاُس میں بےقراری،بےچینی ہوتی ہے کہ اب مزید کیا دیکھا جائے یا اب کونسا محاذ فتح کرنا ہے۔انسان جوں جوں آگے بڑھتا ہے،خوب سے خوب تر کی تلاش کا سفرجاری رہتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو عقل ِ کُل جاننے لگتا ہے۔ وہ اپنے خواب ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے لیکن مکمل آسودگی حاصل نہیں کرپاتا۔
جبکہ اپنی ذات کی دریافت سے جہاں اُسے سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے وہیں اپنے آپ کو کم سے کم تربھی محسوس کرتا ہے وہ یہ جان جاتا ہے کہ بہت کچھ جان کر بھی کچھ نہیں جان پایا۔لیکن کم مائیگی کا احساس اُسے اپنی نظروں سے نہیں گراتا۔ خالق کے سامنے شُکرگُزاری کا جذبہ ہی اس کی اصل طاقت ہے۔اگربےچینی ہے تو صرف اس بات کی کہ وہ کس کس نعمت کے لیے اپنے رب کا شُکر کس طرح ادا کرے۔
ظاہری آنکھ کی رہنما ہمارے رب کی عطا کردہ عقل ہے۔اپنی پوری صلاحیت کے مطابق دیانت داری سے رہنمائی کرتی ہے آگے بڑھنےاورمزید جاننے کی خواہش کی پرورش کرتی ہے۔ جبکہ باطنی آنکھ کی گہرائی ہمارے مالک کا خاص کرم ہے جس طور آگے بڑھیں مالک کام پرمہریں لگاتا جاتا ہے،دُرست سمت کے اشارے ملتے ہیں،ذرا سی غلطی ہویا راہ سے بھٹکنے کا امکان بھی پیدا ہوجائےتومالک فوراً خبردارکرتا ہے۔
ظاہری آنکھ سے دیکھنے والا اگرایک عظیم مصورہےتوباطنی آنکھ کا حامل ایک سرجن ہوتا ہے۔ بنیادی فرق دونوں میں البتہ یہ ہے کہ مصور اپنی ذات کوفراموش کرکے شاہکارتخلیق کرتا ہے اُس کے ہاتھ رنگوں سے کھیل کھیل کربد رنگ ہو جاتے ہیں لیکن اپنے کام کی انتہا دیکھنا اس کی آرزو ہوتی ہے۔جبکہ ماہرسرجن جسم کی رگ رگ سے واقف ہوتا ہے ہر خرابی کو پہچان سکتا ہے۔ پرجس جسم پروہ کام کرتا ہے وہ اس کا اپنا جسم ہوتا ہے۔ وہ اپنےعلم کو سب سے پہلے اپنی ذات پراپلائی کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں اپنے جسم کی بیماریوں اوراس کی خرابیوں کو دور کر کے ہی دوسروں کی خرابیوں کو احسن طریقے سے جانا جا سکتا ہے۔اپنے جسم کےعلاج میں اس کا زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔۔۔جگہ جگہ ٹانکےلگانا پڑتے ہیں۔۔۔اس کا جسم خاردارجھاڑیوں پرگرکرچھلنی ہوجاتا ہے۔۔۔ کہیں کوئی کانٹا اندرجا کر کُھب جاتا ہے۔۔۔ جسے نکالنے کے لیے باقاعدہ بڑے آپریشن کرنا پڑتے ہیں۔کہیں بےہوشی تو کہیں معمولی مرہم پٹی ہوتی ہے۔۔۔ کبھی دردکُش ادویات تو کبھی وقتی درد دورکرنے والے سپرے سے بھی کام چل جاتا ہے۔کبھی اپنی پوری کوشش کر کے جسم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔
اسی طرح دوسرے جدید ذرائع سے علاج کرتے کرتے وہ کسی حد تک دوسروں کے بدن کی کیمیا گری سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ وہ ان کا علاج کرنا چاہتا ہے،ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن ان کے ہاتھوں میں چُھپے نوکیلےہتھیار اسے زخمی کردیتے ہیں تووہ پھر اپنے آپ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔
حرفِ آخر
روشنی ہمیشہ اندر سے ملتی ہے باہر کی روشنی آنکھ کو جتنا مرضی چکاچوند کر دے اپنی ذات کا اُجالا ہر کسی کا نصیب نہیں۔ روشنی کی جھلک ہی وہ انعام ہے۔۔۔ وہ پارس ہے جو چھونے والے کو سونا بنا دیتی ہے۔
اللہ کا یہ احسان ہراُس انسان کا مقدر بن سکتا ہے جو ہرحال میں راضی ہو اور اپنا آپ اللہ کے حوالے کر دے۔
آنکھ جب باہرسے دیکھتی ہے تواس کی ایک حد ہوتی ہے۔اس کو اشیاء اپنی ظاہری سج دھج کے ساتھ نظرآتی ہیں ۔ جو شے جیسی دِکھتی ہے بعینٰہہ ویسی نظرآتی ہے۔ایک خاص فاصلے کے بعد وہ نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔
انسان مصنوعی ذرائع استعمال کرکے اپنی استعداد بڑھا سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہزاروں میل کی مسافت بھی انسان کی قوتِ بصارت میں حائل نہیں۔ انسان اپنے حاصل کردہ علم کی بدولت زمین کی گہرائیوں اور سمندروں کی پنہائیوں میں دیکھنے کے قابل ہو گیا ہے۔ وہ گھر بیٹھے کہیں دُنیا کے بُلند وبالا پہاڑ پر جا پہنچتا ہے توکہیں کسی کی خواب گاہ میں جھانکنا بھی اب ناممکن نہیں رہا ۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کائنات کو مسخّر کرنے کے عمل میں انسان آگے سے آگے بڑھ رہا ہے اورہرقدم پر اپنی محنت ومشقت کے برابراُسے کامیابی بھی مل رہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کامیابی کیا ہے اور یہ تسخیرکیا ہے؟
کیا کسی عظیم الشّان عجائب گھر میں داخل ہو کراپنی طاقت وقوّت کے بَل پرایک کے بعد ایک دروازے کھولتے جانا اورنت نئے نوادرات دریافت کرنا اوراس کو ہی اپنا کمال سمجھناکامیابی ہے؟
کیا کسی شاہکار کے رنگوں کی جُزئیات پر بحث کرنا؟ مصور کے فن پارے دیکھ کراُس کی نقالی کرنا ہی قوتِ بازو ہے؟
یقیناً نہیں۔یہ بالکل وہی سوچ ہے جو دُنیا کے بُلند ترین پہاڑوں کو سر کرنے کے بعد کسی کوہ پیما کی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خالقِ کائنات کی بنائی ہوئی کائنات پر غور کرنا،اُس کوجاننا عین عبادت ہے۔ ہمیں اس کا حُکم دیا گیا ہے- لیکن صرف اپنی ظاہری آنکھ پر بھروسہ کرنا انسان کو راہ سے بھٹکا بھی دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خالق کے معیار پر دیکھنے کا آرزو مند ہو جاتا ہے کہیں کلوننگ شُروع ہو جاتی ہے توکہیں انسان مظاہرِفطرت پر قابو پانے کوسرگرم ہو جاتا ہے اور کہیں نعوذ باِللہ اپنے آپ کو ہی خدا کے برابر سمجھنے لگتا ہے۔
اس کے برعکس ظاہری آنکھ کی اگرحد ہے تواندرکی آنکھ کی کوئی حد نہیں یہ کُھل جائے تو انسان کو وہ کچھ دکھائی دیتا ہےجس کا دُنیا کے کامیاب ترین انسان تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔
اندر کی آنکھ کیا ہے؟ یہ کون سی کائنات ہے؟
اس سب سے مشکل سوال کا نہایت آسان سا جواب یہ ہے کہ اپنی آنکھ اگر اندر کی طرف کُھل جائےتوصرف اپنا آپ دکھائی دے گا ہماری اپنی ذات۔یہ وہ کائنات ہے جو صرف ہماری ہے اس کی عظمت ووُسعت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ جوں جوں ہم دروازےکھولتے ہیں یا پردہ ہٹتا جاتا ہے توایک نئی دُنیا منتظرہوتی ہے۔
اِس جُستجو اوراُس جُستجومیں فرق یہ ہےاُس میں بےقراری،بےچینی ہوتی ہے کہ اب مزید کیا دیکھا جائے یا اب کونسا محاذ فتح کرنا ہے۔انسان جوں جوں آگے بڑھتا ہے،خوب سے خوب تر کی تلاش کا سفرجاری رہتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو عقل ِ کُل جاننے لگتا ہے۔ وہ اپنے خواب ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے لیکن مکمل آسودگی حاصل نہیں کرپاتا۔
جبکہ اپنی ذات کی دریافت سے جہاں اُسے سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے وہیں اپنے آپ کو کم سے کم تربھی محسوس کرتا ہے وہ یہ جان جاتا ہے کہ بہت کچھ جان کر بھی کچھ نہیں جان پایا۔لیکن کم مائیگی کا احساس اُسے اپنی نظروں سے نہیں گراتا۔ خالق کے سامنے شُکرگُزاری کا جذبہ ہی اس کی اصل طاقت ہے۔اگربےچینی ہے تو صرف اس بات کی کہ وہ کس کس نعمت کے لیے اپنے رب کا شُکر کس طرح ادا کرے۔
ظاہری آنکھ کی رہنما ہمارے رب کی عطا کردہ عقل ہے۔اپنی پوری صلاحیت کے مطابق دیانت داری سے رہنمائی کرتی ہے آگے بڑھنےاورمزید جاننے کی خواہش کی پرورش کرتی ہے۔ جبکہ باطنی آنکھ کی گہرائی ہمارے مالک کا خاص کرم ہے جس طور آگے بڑھیں مالک کام پرمہریں لگاتا جاتا ہے،دُرست سمت کے اشارے ملتے ہیں،ذرا سی غلطی ہویا راہ سے بھٹکنے کا امکان بھی پیدا ہوجائےتومالک فوراً خبردارکرتا ہے۔
ظاہری آنکھ سے دیکھنے والا اگرایک عظیم مصورہےتوباطنی آنکھ کا حامل ایک سرجن ہوتا ہے۔ بنیادی فرق دونوں میں البتہ یہ ہے کہ مصور اپنی ذات کوفراموش کرکے شاہکارتخلیق کرتا ہے اُس کے ہاتھ رنگوں سے کھیل کھیل کربد رنگ ہو جاتے ہیں لیکن اپنے کام کی انتہا دیکھنا اس کی آرزو ہوتی ہے۔جبکہ ماہرسرجن جسم کی رگ رگ سے واقف ہوتا ہے ہر خرابی کو پہچان سکتا ہے۔ پرجس جسم پروہ کام کرتا ہے وہ اس کا اپنا جسم ہوتا ہے۔ وہ اپنےعلم کو سب سے پہلے اپنی ذات پراپلائی کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں اپنے جسم کی بیماریوں اوراس کی خرابیوں کو دور کر کے ہی دوسروں کی خرابیوں کو احسن طریقے سے جانا جا سکتا ہے۔اپنے جسم کےعلاج میں اس کا زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔۔۔جگہ جگہ ٹانکےلگانا پڑتے ہیں۔۔۔اس کا جسم خاردارجھاڑیوں پرگرکرچھلنی ہوجاتا ہے۔۔۔ کہیں کوئی کانٹا اندرجا کر کُھب جاتا ہے۔۔۔ جسے نکالنے کے لیے باقاعدہ بڑے آپریشن کرنا پڑتے ہیں۔کہیں بےہوشی تو کہیں معمولی مرہم پٹی ہوتی ہے۔۔۔ کبھی دردکُش ادویات تو کبھی وقتی درد دورکرنے والے سپرے سے بھی کام چل جاتا ہے۔کبھی اپنی پوری کوشش کر کے جسم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔
اسی طرح دوسرے جدید ذرائع سے علاج کرتے کرتے وہ کسی حد تک دوسروں کے بدن کی کیمیا گری سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ وہ ان کا علاج کرنا چاہتا ہے،ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن ان کے ہاتھوں میں چُھپے نوکیلےہتھیار اسے زخمی کردیتے ہیں تووہ پھر اپنے آپ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔
حرفِ آخر
روشنی ہمیشہ اندر سے ملتی ہے باہر کی روشنی آنکھ کو جتنا مرضی چکاچوند کر دے اپنی ذات کا اُجالا ہر کسی کا نصیب نہیں۔ روشنی کی جھلک ہی وہ انعام ہے۔۔۔ وہ پارس ہے جو چھونے والے کو سونا بنا دیتی ہے۔
اللہ کا یہ احسان ہراُس انسان کا مقدر بن سکتا ہے جو ہرحال میں راضی ہو اور اپنا آپ اللہ کے حوالے کر دے۔
جب یہ سب انسان کی فلاح کے لئے ہے تو آپ رہنمائی کیوں نہیں فرماتے.صرف منزل بتانے سے کچھ نہیں ہوگا.مجھ جیسے بھٹکے لوگوں کی مدد فرمائیں.
جواب دیںحذف کریںمیں اسے پانے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں سالوں گزر گئے کچھ ہاصل نہیں. خدا را مدد کیجیے.