جمعرات, جنوری 24, 2013

" رنگ باتیں کریں "



"ہر انسان رنگیلا بھی ہے رنگساز بھی۔ چاہےتو رنگوں کی پچکاریاں اِدھراُدھر پھینک کررنگ بکھیردے اور نہ کر سکےتو کوئی ایک رنگ اوڑھ کر رنگیلا بن جائے"۔
ہمارے رشتے ہمارے تعلق زندگی کے بکھرے رنگ ہی توہیں۔رنگ وجود نہیں رکھتے، لمس نہیں رکھتے بس احساس دلاتے ہیں اپنی موجودگی کا اوریہ اتنا جامع اوربھرپور ہوتا ہے کہ وجود بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ 
رشتے ہماری روح ہیں، روح کے بغیر جسم بےمعنی ہے۔اسی طرح رنگ تصویر کی جان ہیں۔رنگ کے بغیر تصویر نہیں  اور تصویر نہ ہو تو کہانی نہیں ۔تصویر ایک پلاٹ ہے  جس پر عمارت استوار ہوتی ہے،ایک فکر ہے جو نظریے کی تکمیل کرتی ہے۔رنگ نہ ہوں تولگتا ہے جیسے آسمان بنا بادل کے، اُداس،تنہا،بےکراں۔رنگ برسیں تو بادل یوں سمٹ سمٹ کر باتیں کرتے ہیں کہ دوریاں نزدیکیوں میں بدل جاتی ہیں اور کبھی جب بادل گھٹاؤں کا روپ دھارلیتے ہیں تورنگوں کی برسات یوں چھما چھم   برستی ہے کہ ہرطرف جل تھل ہوجاتا ہے۔یہ قدرت کی کاری گری ہے۔انسان بھی اپنی سعی میں اسی طور گرفتار ہے۔ایک رنگریزکی مشقّت ہے جو شب و روز جاری ہے۔آس پاس بکھرے رنگوں میں اپنے رنگ کی کھوج ہے،رنگ سے رنگ ملانے کی کوشش ہے۔
انسان نادان ہےنہیں جانتا کہ کچھ رنگ کچے ہوتے ہیں،کبھی بدل بھی جاتے ہیں۔
کچھ بھٹی میں پکنے کے بعد وہ نہیں رہتےاپنا اصل دکھا دیتے ہیں۔

کوئی اتنے کچے ہوتے ہیں کہ ایک ہی دھلائی میں پانی پربنا نقش بن کرنظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
کبھی کچے تو ہوتے ہیں لیکن اپنا اثر دوسرے رنگوں پر یوں چھوڑ جاتے ہیں کہ خود تو جان سے جاتے ہیں اور اُن کو بھی کسی قابل نہیں چھوڑتے۔
کچھ رنگ کبھی پکے ثابت نہیں ہوتے لیکن وہ اتنے پُرکشش دکھتے ہیں کہ انسان  اپنی چولی بدل کر  بےاختیارانہیں اپنانے کوتیار ہوجاتا ہے۔گرچہ اس کی قیمت چُکانا پڑتی ہے کہ وہ اپنا خراج مانگتے ہیں۔
زندگی کے کینوس پر بنتی بگڑتی تجریدی تصویر کے رنگوں کی اصلیت آزمائشوں کی بارش میں کُھل کر سامنے آتی ہے۔وقت کی گرد میں اَٹ کر جب اِن کی اصل سامنے آتی ہے تو پھرہمارے پاس حیرانی اور پشیمانی کے سِوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ 
اس لیے زندگی کے کینوس پرجورنگ دل کوبھا جائے خاموشی سے اپنا لو۔۔۔جتنی اوقات ہے اتنی قیمت ادا کرو۔ وقت خود ہی اُن کے اصلی نقلی ہونے کا تعیّن کردے گا۔
ہماری زندگی میں کبھی ایسے کچے رنگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو سالوں کی بارشوں کے بعد بھی کچے ہی رہتے ہیں لیکن اپنی پہچان،اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ اُن میں جو نا آسودگی کی خوشبو اُترتی ہے وہ جسم و جان کی تسکین کے لیے پکّے رنگوں کی بھرپور خوشبو سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔
یہ کچے رنگ ہی ہیں جو زندگی کی قوسِ قزح بناتےہیں،اگروہ آخری اورمکمل رنگ کی تکمیل کے راستے پرہو تو یہی اصل کمائی 

 ہے۔

آخری بات
زندگی اپنے سامنے جس پل جس رنگ میں اترے اسے کہہ دو۔ زندگی کی تلخی جذب ہو جائے تو ناسور بن جایا کرتی ہے۔
 زندگی پڑھتے جاؤ ہر صفحے پر نیا نقش ملتا ہے اور سب سے خاص اپنا وہ رنگ ہےجس سے ہم خود بھی واقف نہیں ہوتے۔
لفظ لکھنا بھی رنگ سے رنگ ملانا ہے،ایک رنگریز کی طرح ۔ کبھی کہیں سے کوئی رنگ ،کبھی بھولا بسرا ،کبھی بالکل انوکھا،ان 
چھوا ،کبھی خالص اپنا رنگ۔کبھی کوئی ایسا جو اپنا تو نہیں لیکن  اپنا اپنا لگے،کبھی ایسا جو ہر رنگ میں رنگ جائے۔اور سب سے بڑھ کر اُس آخری اور مکمل رنگ کی تلاش جو ہر رنگ میں جان ڈال دے۔

5 تبصرے:


  1. Nice conception.The beauty of a pensive soul like you, is to put across a gigantic idea in few handful words.
    A kind gesture for me by Farooq Hayat

    جواب دیںحذف کریں
  2. رنگوں اور رشتوں کا اس قدر خوبصورت امتزاج ۔۔۔۔ آپ نے ملائم الفاظ کی قوس قزح بکھیر ڈالی نورین ۔۔۔ بہت عمدہ

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...