پیر, جنوری 14, 2013

" فطرت اور جِبلّت "

 فطرت اور جِبلّت "
" رام کہانی "
عورت ایک ری سائیکلڈ کاغذ کی طرح ہے۔
لیکن اُسے ٹشو پیپر بھی نہیں بلکہ رول ٹشو کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔زندگی اِسی طرح گُزرتی جاتی ہے۔۔۔ مرد ٹشو پیپر استعمال کرتا ہےاورعورت اپنا وجود۔ٹشو پیپر بدلتے جاتے ہیں۔۔۔مقصدِ حیات حاصل نہیں ہوتا۔ کبھی پانی بہتا جاتا ہے اور تشنگی رگوں میں اُترتی جاتی ہے۔
مرد خواہش اوڑھ کر اس میں فنا ہونےکا متمنی ہے اورعورت خواہش اپنے اندر اُتار کر بقا کی متلاشی ہے۔
خواہشات کبھی ہم پر حاوی ہو جاتی ہیں اور کبھی ہم خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔
یہ فطرت ہے اس سے فرار نہیں۔۔۔ یہ جِبلّت ہےاس سےاغماض نہیں۔ اِن سے دوستی کر لو تو ان کو رام کیا جا سکتا ہے۔ ڈر کر بھاگو تو آسیب بن کرچمٹ جاتی ہیں۔ یہ ہمارا نصیب ہیں ہمارامقدر۔ اورتقدیرسے لڑنا بہادری ہرگز نہیں۔۔۔ہمیں اِسی دائرے میں نہ صرف اپنی شناخت برقرار رکھنی ہے۔۔۔ بلکہ اپنی چمک بھی قائم رکھنا ہے۔ یہی زندگی کا راز ہے اوریہی حُسن بھی۔
یاد رکھو !
فنا کے بعد بقا کی منزل کبھی نہیں آتی۔
بقا کا راز جان جاؤ تو فنا میں بھی بقا ہے۔۔۔اوربقا میں بھی فنا کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

2 تبصرے:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...