"اللہ ہی ہے جو مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ کونکالتا ہے"۔
"زندگی صرف ملنا اور بچھڑنا ہے"۔ملنا اوربچھڑنا ایک دوسرے سے مشروط جُڑے ہوئے ہیں۔۔۔جو چیز ہمیں مل رہی ہے وہ کہیں سے دور بھی ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر زندگی کے پہلے سانس سے ہی آخری سانس کی طرف گنتی(کاؤنٹ ڈاؤن) شروع ہو جاتی ہے ۔ہم بے خبر لوگ عارضی دور سے گزر رہے ہیں۔زندگی صرف پانے کا نہیں کھونے کا نام بھی ہے۔ہمیں پانے کے لیے ہی نہیں بلکہ کھونے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔اہل علم وعقل اسی لیے سالگرہ منانے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ عمر گھٹ رہی ہے اور ہم خوشی منا رہے ہیں۔
ہمیں اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔دیکھا جائے تو پھرکوئی خوشی نہیں۔۔۔کوئی راحت نہیں۔۔۔بس افرتفری ہے۔قطار بندھی ہےکوئی آگے کوئی پیچھے پھرخوشی کہاں سے ہو۔یہ حقیقت سر پرسوار ہو توجینا محال ہوجائے۔ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو تلاشنا ہے۔۔۔اُن کو تتلیوں کی طرح پکڑنے کی سعی کرنا ہے۔۔۔اپنے آج میں رہنا ہے لیکن کل کو بھی نظر میں رکھنا ہے۔
کل کی خاطر آج کو قربان نہیں کرنا اور آج کی خاطر کل کا سودا نہیں کرنا ورنہ ہم ہر جگہ گھاٹے میں رہیں گے۔۔۔آج بھی اور کل بھی۔کرنے کا کام یہ ہےکہ جو جس راستے پر جا رہا ہے اسے جانے دیں۔ جو راستہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے اس پر چُپ چاپ چلتے جائیں۔دوسروں کو اپنی نظر کی عینک سے دیکھنے پرمجبور نہ کریں۔ ہمارا راستہ درست ہو گا تولوگ کبھی نہ کبھی خود پیچھے آئیں گے۔یہ نہ ہودوسروں کو اپنے راستے پر لانے کی جدوجہد میں اپنا راستہ کھوٹا کر لیں۔
اہم یہ ہے کہ اس روز اپنے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے،اپنے آپ کو وقت دیا جائے۔اور ہم اس کے برعکس اپنے آپ کو فراموش کر کے اپنی خوشیاں دوسروں کی آنکھوں میں تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے پیاروں کے احساس میں وہ ہمیں ضرور ملتی ہیں لیکن جتنی خوشی ہم اپنے آپ کو دے سکتے ہیں اتنی شاید کسی کا بڑے سے بڑا تحفہ بھی نہیں دے سکتا۔ " سکون" وہ نعمت وہ تحفہ ہے جو اپنے جنم دن کی صبح بستر سے صحت اور سلامتی کے ساتھ اٹھنے کے بعد ملتا ہے۔اگر ہم اس پل اس خوشگوار احساس کو محسوس کر سکیں۔
جنم دن سالگرہ کا دن بھی کہلاتا ہے۔ گزرتے سال جو کھویا جو پایا اُس کو گرہ کی صورت ذہن نشیں کر لینا آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ماضی کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنے والے نہ صرف حال سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مستقبل کے وسوسے اوراندیشے بھی کسی پل چین نہیں لینے دیتے۔ سالگرہ کے بعد آنے والا اگلا دن ہمارا ایک نیا جنم دن ہوتا ہے جس میں آنے والے سال کے خواب ہمارے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں ۔ خواب اور حقیقت کے مابین فاصلہ رکھنا ہی اصل کمائی اوراہلیت ہے۔ جن کے خواب زندہ رہتے ہیں حقیقت کی دُنیا میں بھی پوری تابندگی کےساتھ جگمگانا اُن کا مقدر ہے۔ ورنہ محض خواب دیکھنے والی آنکھیں عمل سے دور اپنی ذات کی اسیر ہوجاتی ہیں۔
جیسے دعا دی جاتی ہے کہ ہر روز روزِعید ہو تو ہر رات شبِ برات۔اسی طرح دیکھا جائے تو ہر روز کی رات شبِ محشر ہے اور ہر رات کا بستر قبر کی منجمد تنہائی اورتاریکی کا استعارہ بھی ہے۔ ہم ایسا نہیں سوچتے اور سوچنا بھی نہیں چاہیے۔اگر اس سوچ کا آسیب ذہن ودل پرمسلط ہو جائے تو ہم نہ اس دُنیا کے رہیں گےاور اپنی ذات سے وفا بھی نہ کرپائیں گے۔ ہماری بےخبری آکسیجن کی صورت غیر محسوس طریقے سے راہ ِحیات پر گامزن رکھتی ہے۔ لیکن اس بےخبری کو غفلت اور بے حسی کی چادر میں نہیں لپٹنا چاہیے ورنہ انسان فرعون بن جاتا ہے اورہرنسل میں جبروقہر کی علامت بن کر زندہ رہتا ہے یہاں تک کہ تاریخ کے اوراق میں باعثِ عبرت بن کر رقم ہو جاتا ہے۔ اگر ہراُترتی شب ہم اپنا محاسبہ نہ بھی کر سکیں تو سال کا آخری روز پورے سال کے اعمال کا جائزہ لینے کو کافی ہوتا ہے لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں کم از کم ایک دن تو ایسا آتا ہے جب اتنی بڑی کائنات میں وہ دن صرف ہمارا ہوتا ہے۔
ہمارا جنم دن ۔۔۔۔۔
اگر اس روز ہمارا احساس نہ جاگے ایک پل کو بھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کیوں اس دُنیا میں آئے؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ تو اس سے بڑی زیارتی اپنے آپ کے ساتھ اورکوئی نہیں ۔ بے شک اس سوال کا جواب ہمیں کبھی نہیں ملتا اور نہ ہی ہم اس کو جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ پر کسی سوال کا جواب نہ ملنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ سوال لایعنی ہے۔" سوال ہمارے وجود کے شجر سے پھوٹتی وہ نرم ونازک کونپلیں ہیں جو خیال کی بارش کے بعد نمودار ہوتی ہیں اور اِسے سرسبز بناتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو ٹنڈ منڈ درخت نہ سایہ دیتے ہیں اورنہ ہی بارآور ہوتے ہیں"۔
بچے کا جنم دن ماں کی نظر میں۔۔۔
ماں کا احساس بچے کے جنم دن پر بہت خاص ہوتا ہے کہ یہ دن اس کی زندگی میں ایک بالکل انوکھے احساسِِ، کبھی نا بھولنے والے تجربے اور ایک نئے روپ نئے کردار کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک ماں کے لیے اولاد کا ہر آنے والاجنم دن بہت اہم ہوتا ہے۔وہ خاص دن اس کی یادوں کی البم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔سال بہ سال یہ البم کُھلتی ہے تو ماں کا اپنے وجود پر یقین بڑھ جاتا ہے۔کبھی یہ ہوتا ہے کہ البم وہیں رہتی ہے،تصویر غائب ہو جاتی ہے ، کوئی تتلی کوئی فرشتہ اپنی چھب دکھلا کر غائب ہو جا تا ہے۔گردشِ زمانہ میں ذہن سے محو بھی ہو جاتا ہے اور پھرماں کی ذات تک ہی محدود رہتا ہے کہ اللہ درد دیتا ہے تو دوا بھی اسی کا ذمہ ہے۔کبھی یہ دن زندگی میں ایک اذیت ناک احساس کی صورت ساری زندگی پر محیط ہو جاتا ہے۔ یوں ہوتا ہے کہ وہ تصویر نہ جانے کس وجہ سے،اللہ کی کون سی آزمائش کے سبب مکمل نہیں ہو پاتی۔ ایک ادھوری تحریر کی صورت کہ نہ آغاز پر نظر اور نہ انجام کی خبر، پھر ساری عمر ان بکھرے حرفوں کو سمیٹنے میں ہی گُزر جاتی ہے،اپنے لمس سے جتنا بھی نکھار لو ،وہ تحریر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔عمر بیت جاتی ہے وقت گزر جاتا ہے، زندگی نہیں گزرتی۔ یہ صرف ایک ماں کا ہی حوصلہ ہے جو اسے زندگی کے اس پل صراط پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے-
بہت ہی عمدہ .... آج پہلی بار اتفاق ہوا ہے آپکا بلاگ پڑھنے کا ... اچھا ہے
جواب دیںحذف کریںhttp://daleel.pk/2016/10/19/11590
جواب دیںحذف کریں