دنیا میں جو بھی بڑے ادارے ہیں اُن کا ایک مرکزی دفترہوتا ہے۔۔۔ اس کے ماتحت چھوٹے چھوٹے ادارے بنائے جاتے ہیں۔۔۔ ہر ذیلی ادارے کا افسرخود مختار ہوتا ہے۔۔۔ وہ صرف مرکز کو جوابدہ ہوتا ہے۔۔۔ اُس کا کام ایک عالیشان ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر کاغذات پردستخط کرنا ہے۔۔۔ شیشے کی کھڑکیوں سے دیکھ کراُس کی قسمت پررشک آتا ہے۔۔اگر قریب جائیں تو اصلیت سامنے آجاتی ہے۔۔۔اس بڑے افسر کی میز پرفائلیں اتنے تواتر سے آرہی ہوتی ہیں کہ اسے سر اٹھانے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔ جسمانی اور ذہنی تھکن سے بےحال وہ کھڑکی سے باہر کسی منظر پر اپنی نگاہ بھی نہیں ڈال سکتا۔۔۔ کمر سیدھی کرنا چاہےتو نادیدہ ہاتھ اتنی زور کا کوڑا رسید کرتے ہیں کہ روح تک کانپ اُٹھتی ہے۔۔۔ بادی النظر میں اس نے صرف دستخط ہی تو کرنا تھے۔۔۔
"دستخط" کیا ہیں ؟ ایسے حروف جن کی لکھائی میں ہر بار ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آنا چاہیے۔۔۔ ورنہ اُن کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے۔۔۔ ذرا اور قریب جائیں تو اس طلسمِ ہوش رُبا کی اصلیت کُھل جاتی ہے۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے۔۔۔جسےجتنا مرضی شکر کی گولی میں لپیٹا جائے۔۔۔ اُس کی کڑواہٹ کم نہیں ہوتی۔۔۔دستخط کے خانے میں جو لکھا جا رہا ہے۔ وہ لفظ ہے"ہاں"۔۔زندگی صرف "یس سر نو سر" کا نام ہے' یس سر' کہا تو زندگی گُزرتی جائے گی اور' نو سر' کہا تو زندگی گُزارنا پڑجائے گی۔
"دستخط" کیا ہیں ؟ ایسے حروف جن کی لکھائی میں ہر بار ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آنا چاہیے۔۔۔ ورنہ اُن کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے۔۔۔ ذرا اور قریب جائیں تو اس طلسمِ ہوش رُبا کی اصلیت کُھل جاتی ہے۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے۔۔۔جسےجتنا مرضی شکر کی گولی میں لپیٹا جائے۔۔۔ اُس کی کڑواہٹ کم نہیں ہوتی۔۔۔دستخط کے خانے میں جو لکھا جا رہا ہے۔ وہ لفظ ہے"ہاں"۔۔زندگی صرف "یس سر نو سر" کا نام ہے' یس سر' کہا تو زندگی گُزرتی جائے گی اور' نو سر' کہا تو زندگی گُزارنا پڑجائے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں