ہفتہ, جون 29, 2013

"فرنٹ سیٹ "

مرد اورعورت کا  باہمی رشتہ جسے زندگی بھر کا ساتھ کہا جاتا ہے درحقیقت ڈرائیور اورسواری کا ہے۔ عام معاشرتی رویے میں ڈرائیور گاڑی کا مالک ومختار ہوتا ہے۔۔۔ وہ اپنی مرضی کے سٹاپ پر گاڑی روکتا ہے۔۔۔ سواری اُس کی رضا پر رہتے ہوئے کہیں جانےیا نہ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ لوگ گاڑی اورڈرائیور دیکھ کر سواری کی خوش نصیبی کا تعیّن کرتے ہیں۔ اس بات سے بےخبر کہ ڈرائیور کتنے غیرمحتاط طریقے سے گاڑی چلا رہا ہے؟ ڈرائیور اتنے لمبے سفر کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں ؟ گاڑی چلانے کا لائسنس مل جاناکسی کے بہترین ڈرائیور ہونے کی ضمانت نہیں۔ ایک چیز روڈ سنس ہے۔ سپیڈ بریکر یا کسی گڑھے کے عین سامنے پہنچ کر گاڑی رُکتی ہےتوسواری کسی اذیت سےگزرتی ہے وہ نہیں جانتا۔وہ اپنی پسند کا میوزک اونچی آواز میں سنتا ہے۔۔۔کسی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے فہم کے مطابق راستہ اختیار کرتا ہے۔۔۔ خواہ آگے جا کر وہ ایک بند گلی ہی کیوں نہ ہو۔ ڈرائیور سواری بٹھانے کے زعم میں مبتلا ہوتا ہے۔اُس کے خیال میں وہ دُنیا کا عقل مند ترین شخص اور سواری احساسات سے عاری کسی شے کا نام ہے۔وہ چاہتا ہے کہ یہ شے اُس کی ہر بات پر بغیر کسی منفی تاثر کے ہاں میں ہاں ملاتی چلی جائے۔
ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہےاور اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اللہ کی رضا سے اگر ڈرائیور اور سواری کا ساتھ چھوٹ جائے۔۔۔ یا سواری اپنے آپ کو اس قدر مضبوط بنانے کی کوشش کرے کہ وہ اپنی گاڑی آپ چلا سکے تو پھر کہانی کا نیا موڑ یوں آتا ہے کہ سواری جس ڈرائیور کا انتخاب کرتی ہے وہ اُس کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ وہ جہاں چاہے، جب چاہے، جس جگہ چاہے جا سکتی ہے۔ یہ مقام بڑی جدوجُہد اورقربانی کے بعد ملتا ہے۔۔۔بادی النظر میں تو یہ محض فرنٹ سیٹ سے بیک سیٹ کا سفر ہے۔۔۔ اورفرنٹ سیٹ بھی وہ جس کی بناوٹ میں پیوست نادیدہ سوئیاں اُسے کسی پل چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھیں۔۔۔ ذرا سی ہلچل بھی ڈرائیورکی طبعءنازک پر ناگوار گزرتی تھی۔پچھلی سیٹ بظاہر تو بڑی آرام دہ اور پُرسکون دکھائی دیتی ہے۔۔۔ لیکن اتنی نازک ہے کہ اُس کی دیکھ بھال اور حفاظت کی کّلی ذمہ داری زندگی کی آخری سانس تک سر اُٹھا کر کرنا ہے ستم یہ کہ شکوے کی گنجائش بندوں کو تو چھوڑیں رب سے بھی نہیں ہے۔
قصہ مختصر فرنٹ سیٹ کے شیشے  اگرسختی سے بند تھے تو اے سی تو کام کر رہا تھا جبکہ پچھلی سیٹ پر اےسی (معاشرہ ) کی کولنگ مناسب نہیں ہے۔ شیشے نیچے کرنا چاہیں تو گرم لّو کے تھپیڑے نڈھال کر دیتے ہیں۔
! آخری بات
مرد عورت گاڑی کے دو پہیے ضرورہیں لیکن مرد کی مردانگی اُسے دوسرے پہیے کی اہمیت تسلیم کرنے سے روکتی ہی رہتی ہے۔اب یہ دوسرے پہیے کے ظرف کا کھیل ہے کہ وہ اپنی اہمیت جان کربھی کس طرح فاضل پہیے کی صورت اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
اکتوبرر2011،11

5 تبصرے:

  1. اے سی کا علاج عرب معاشروں میں نکاح مسیار کی شکل میں دستیاب ھے۔
    بیک سیٹ پر بیٹھے رھیں، اور اے سی سے بھی لظف اندوز ھوں۔

    جواب دیںحذف کریں

  2. ہر معاشرے کے اپنے ضابطے ہیں آپ چاہیں تو مغرب کے طور طریقے کی بھی مثال دے سکتے ہیں ـ ہمیں اپنے معاشرے میں ہی رہ کر یہاں کی ٹھنڈی چھاؤں تلاش کرنا ہے اور بس - چاہے وہ کسی چھتنار درخت کی مانند ہو یا ـ گلیشئیر کی سی سرد آغوش

    جواب دیںحذف کریں
  3. فریقین نے امداد باہمی کے اصول پر چلنا ہوتا ہے۔ اسی لئے گاڑی کے دو پہیوں والی مثال دی جاتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بی بی ۔ آپ نے دریا کے دو کناروں کی بات کی ہے ۔ بیچ میں بہتے پانی کا کوئی ذکر ہی نہیں جس کے بغیر دریا بنتا ہی نہیں ۔ اللہ کا فرمان اول و آخر ہے ۔ اللہ نے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا لباس قرار دیا ہے ۔ لباس کیا کیا کام کرتا ہے اس پر غور کر لیجئے ۔ دوسرے اللہ نے مرد کے ذمہ عورت کی پرورش اور دیکھ بھال لگائی ہے ۔ اس لحاظ سے آپ مرد کو ڈرائیور کہہ سکتی ہیں لیکن اللہ نے مرد کو شُترِ بے مہار قسم کا ڈرائیور بننے کی اجازت نہیں دی ۔ مانی فانی صاحب نے درست مثال دی ہے ۔ گاڑی تبھی چلے گی جب دونوں پہیئے ساتھ ساتھ چلیں ۔

    جواب دیںحذف کریں

  5. آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن یہ اجازت بھی خوب لفظ ہے اسے ہم اپنی مرضی کے خانوں میں فٹ کرتے ہیں اور میں نے فی الحال زندگی کی گاڑی میں ساتھ سفر کرنے والے دو مسافروں کی رام کہانی کہی ہے
    انشاء اللہ جلد ہی گاڑی کی بناوٹ پہئیوں اور لباس پر بھی اپنی تحریر کے حوالے سے آپ کی رائے کی منتظر رہوں گی ـ
    دریا کے کنارے اور بہتے پانی کا ابھی اس میں ذکر کہاں
    یہ تو سفر آگے بڑھے گا تو بات ہو گی ـ

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...