جمعہ, جون 07, 2013

" اظہار "

کائنات اظہار کا نام ہے ہر طرف جلوہ ہی جلوہ ۔ آنکھ صرف علامت ہے بینائی کی ۔ایک نشان ہے جو چہرے پر سجا ہے لیکن یہ نشان اتنا بھرپور اتنا طاقتور ہے کہ اُس نے ہمارے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
ہماری حسّیات ہماری آنکھیں بن گئی ہیں۔ دیکھنا،سننا،چکھنا،چھونا،بولنا،محسوس کرنا سب کاتعلق بصارت سے بڑھ کربصیرت سے ہے۔ وہ بصیرت جو سب کہہ دیتی ہے سب سمجھا دیتی ہے لیکن بیان نہیں کی جاسکتی۔کسی حد تک کوشش کرسکتے ہیں کہ جو ہم نے دیکھا ہے،جانا ہے اُس کا اظہار بھی کرسکیں۔
 ذہن میں در آنے والے خیالات خوشبو کی طرح ہوتے ہیں ۔دل بےاختیار انہیں الفاظ کی ڈائری میں محفوظ کرنا چاہتا ہے ۔لیکن خوشبو بھی کبھی قید ہوسکی ہے۔کچھ عرصہ بعد ڈائری کھولیں تو سوکھے پھول ہماری فقط ایک اچھی یاد کی علامت کے طور پر ضرور موجود ہوتے ہیں۔پر صفحات پر نمودار ہونے والے دھبے کسی دوسرے کو ہمارے احساسات سے بےخبر ہی رکھتے ہیں۔
لکھنا اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔۔۔ہم دل کے کاغذ پرلکھتے ہیں اورایک ذاتی ڈائری کی طرح اس کو اپنی   بھی نظر  سے  چھپا کرمحفوظ رکھتے ہیں۔لفظ بھی اپنے ہونے کا ثبوت مانگتے ہیں،زیادہ مجبور کریں تو ہم کورے کاغذ پر لکھتے ہیں اوردوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہی رکھتے ہیں۔کبھی وقت سے ڈر جائیں تو اپنے قیمتی اثاثے نذرِآتش بھی کر دیتے ہیں یا یادوں کی البم میں سجا کر کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔وقت مہلت دے توکبھی ہمارا چھپا ہوا اثاثہ ایک مدفن شدہ خزانے کی طرح  ہمارے سامنے بازیافت ہو جاتا ہے،اس کے لیے بہت کھدائی کرنا پڑتی ہے ہاتھ شل اور قدم بوجھل ہو جاتے ہیں۔پانے کی جستجو اور مکمل ہونے کی چاہ ہمسفر ہو تو محنت اکارت نہیں جاتی۔تنہائی اور کرب کے اندھیروں سے نکل کر ہی اس کی تابناکی سامنے آتی ہے۔جتنا مرضی چھپا کر رکھیں اُس کی چمک اُس کی خوشبو پھیلتی جاتی ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو جتنا بانٹیں بڑھتا ہے نہ صرف لینے والے بلکہ دینے والے کو بھی مالامال کر دیتا ہے۔
پڑھنا اہم تو ہے لیکن لکھنا زیادہ اہم ہے۔کسی بھی کاغذ کی سند اُس وقت تک نہیں ملتی جب تک اُس پرمہر نہ ہو، اسی طرح کسی خیال کسی حرف کی سند بھی لازمی ہے ۔خیال کی سند خیال تک رسائی اور حرف کی سند حرف تک رسائی کی صورت ملتی ہے۔ حرف لکھنے کے لیےاعتماد چاہیے اپنی ذات پر۔۔۔ دوسرے کی شناخت پر۔زبان سے کسی کے بارے میں کچھ کہہ دینا،دل میں کسی کی تعریف کرنا یا دل سےاُسے اپنا لینا سب بےمعنی ہے۔ جب تک حرف کا لفظ کی صورت ثبوت نہ ہو۔
لکھنا حرف کا کاغذ پرہو یا سبق کی طرح دل پرنقش  ہرحال میں زندگی سمجھنے کا قرینہ ہے۔ کوشش یہ کرنا چاہیےکہ جس طرح دل کےسرورق پر مٹائے نہیں مٹتا اسی طرح کاغذ پر بھی جو لکھا جائےوہ یقین اور اعتماد کی سچائی کے ساتھ لکھا جائے۔ بناوٹ اور دکھاوے کی روشنائی سے لکھی جانے والی تحریر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف پڑھنے والوں کے ذہن سے محو ہو جاتی ہے بلکہ لکھنے والے کے لیے بھی ریت پر لکھی تحریر ثابت ہوتی ہے، جسے وقت کا طوفان کبھی بھی مٹا کر نیست ونابود کرسکتا ہے۔
ہر انسان سوچ سفر کے اِن مقامات سے گزرتا ہے فرق صرف یہ کوئی ذرا دیر کوٹھہر جاتا ہے تو کوئی بےخبری میں گُزر جاتا ہے۔خیال تازہ بھول کی طرح ہم میں سانس لیتا ہے،جلد محسوس کر لواور سنبھال لوتواچھا ہے ورنہ مہک رہتی ہے اور نہ تازگی بس ایک مرجھایا ہوااحساس باقی رہ جاتا ہے۔کبھی کوئی تحریر قلم کی سیاہی سے نہیں یاد کے آنسو سے لکھی جاتی ہے،وہ آنسو جو آنکھ کی روشنی بھی ہوتےہیں،کوئی اُن سے غربت کے لباس کی طرح خفا رہتا ہے تو کوئی فخر کے بناوٹی لبادے میں چھپا جاتا ہے،یوں ایک کمی ایک کسک سی رہ جاتی ہے کہ جو نہیں کہا وہی تو حاصلِ تحریر تھا۔یہی ہمارا المیہ بھی ہیں کہ جو کہتے ہیں وہ مکمل طور پر کبھی کہہ نہیں پاتے اور جو سوچتے ہیں وہی ایک مکمل زندگی کہانی ہوتی ہے۔
انسان اپنے تجرباتِ زندگی لفظ کی صورت کاغذ پر لکھتا ہے،بےجان کاغذ پر اُبھرے نقش لکھاری کی وہ آواز ہوتے ہیں جنہیں صرف اُس کے اپنے کان سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور جب آواز کا شور بڑھ جائے تو لفظ بےساختہ کاغذ پر بکھرنے لگتے ہیں۔ سوچ کا بہاؤ تندوطوفانی ریلے کی طرح انسان کی پوری شخصیت تہس نہس بھی کر سکتا ہےاگر اس پر لفظ کی صورت بند نہ باندھا جائے۔ضبط وبرداشت کے اس پلِ صراط کو بہت کم کوئی پار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ہم اپنے اندر سے اُٹھنے والی آوازوں کو سمجھنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں کبھی آس پاس کی آوازوں سے ہم آہنگ نہ ہوتے جان کر خودفراموشی کے غلافوں میں لپیٹ کر بھولنا چاہتے ہیں۔
بیان کا سلیقہ اور اظہار کا ہنر آ جائے تو انسان ہر بات کہہ سکتا ہے۔کچھ نہ کہہ سکنا ہماری کمزوری ہوتی ہے یا پھر مجبوری اور ہم اکثر اپنی کمزوری پر مجبوری کے پردے ڈال کر خود کو دھوکا دیتے ہیں۔خیال آزاد سہی لیکن یہ آزادی مادرپدر آزاد ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ بندشِ خیال سے آراستہ لفظ قاری کو سمجھ نہ بھی آئیں نفسِ مضمون کی کسی حد تک جھلک ضرور دکھلا دیتے ہیں۔حقیقت کا ایک پہلو یہ بھی ہےکہ زندگی کے بہت سے تلخ حقائق،فطری وجبلی افعال  لفظ کی چادر میں جس حد تک بھی ڈھانپ دیے جائیں پھر بھی پڑھنے والوں کی طبعءنازک پر گراں ہی گزرتے ہیں۔
دُنیا کے چوک پر بقول ممتاز مفتی 'اپنے پوتڑے دھونا' کتنا ہی بہادری اور جئرات والا اقدام کیوں نہ ہو۔۔۔پاس سے گزرنے والے شک یا ناگواری کی باس میں دامن بچا کر ہی گزرتے ہیں۔ فرقۂ ملامتیہ کے پیروکار صدیوں سے پُراسرار اور صاحبِ تشکیک ہی رہے ہیں ۔۔۔وقت چاہے اُن کے گِرد  پھیلی دھند کو کتنا ہی صاف کر کے حقیقی نقش اُجاگر کیوں نہ کر دے۔۔۔اپنے'حال' میں ہمیشہ قابلِ سنگ زنی ہی ٹھہرتے ہیں۔ ظاہری آنکھ ظاہر دیکھ کر فیصلہ سناتی ہے۔ انسان ڈولتے قدموں سہی ماضی پر تو یقین کر لیتا ہے لیکن حال پر ثابت قدمی کی حد تک بےیقین رہتا ہے۔
نظر وہی دیکھتی ہے جو اُسے دکھتا ہے۔نگاہ کی گہرائی بہت کم کسی کا نصیب ہے۔سڑک کنارے پڑے ننگ دھڑنگ مجذوب ہوں یا جسمانی وذہنی مصائب وآلام کی شدتوں میں گھرے لوگ۔۔۔ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ یہ کسی کردہ یا ناکردہ گناہ کی پکڑ ہے؟ یا پھر آزمائش کے اسباقِ مسلسل؟۔۔۔ توبہ کی طرف بڑھتے قدم ہیں؟ یا عشق کی وادیوں سے بلند ہوتی جنوں کی لافانی منزلیں ؟۔
!حرفِ آخر
اپنی زبان اپنے محسوسات کا بہترین ذریعہ ہے۔ زبان سے محبت کرو،اظہار کا ہنر جان جاؤ گے۔
اظہار چاہے لفظ کی صورت ہو یا کسی اور صلاحیت کا وصف خوشبو کی طرح ہے جسے کسی مزاج آشنا یا صاحبِ ذوق کے انتظار 
میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ اب پانے والا کا ظرف کہ وہ کس حد تک محسوس کرے اور کیا کشید کرے۔
لفظ خوشبو کی طرح ہے بےمول،بے محابا،بے غرض۔ پھولوں کے کسی گلدستے میں سے ضروری نہیں کہ ہمیں ہر پھول کی خوشبو ہی پسند آئے یا راس آئے۔بعض لوگوں کو پھول کی خوشبو سے بھی الرجی ہوتی ہے۔ جو خوشبو جہاں ملے اسے  محسوس کرنے  میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے ورنہ"وقت رہتا ہے اور نہ خوشبو"۔

1 تبصرہ:

  1. 15 جون 2015
    حسن یاسر نے کہا۔۔
    لوگوں کی طرح الفاظ کے بھی اپنے قبیلے ہوتے ہیں۔۔ ذات برادری ہوتی ہے۔ نوزائیدە بچے کی طرح الفاظ اپنی حیات کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔ جوان ہوتے ہیں۔۔۔ بڑھاپے کی منزل تک پہنچ کر فنا کے سفر پر چل نکلتے ہیں۔ پھر انہی کے قبیلے سے کچھ اور الفاظ ان کی جگہ لے لیتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بچے کی پیدائش سے پہلے ماں خوش نما منظر اور دلکش چہرے دیکھتی ہے تاکہ ویسی اجلی خوبصورت شباہت لےکر بچہ دنیا میں آئے۔ محبت سے ادا کیے گئے الفاظ بھی دل کے کسی روشن قریے میں تخلیق ہو چکے ہوتے ہیں۔ وە الفاظ منہ سے نکل کر ہوا میں تحلیل نہیں ہوجاتے بلکہ اپنی خوشبو اور رعنائی کو کسی اور لہجے میں منتقل کر دیتے ہیں۔۔۔ ان کے اندر وہی مٹھاس بھر دیتے ہیں جن سے سماعت پہلے سے آشنا ہوتی ہے۔ یوں ان الفاظ میں ڈھلی باتیں اجنبیت کے باوجود اپنائیت کا عکس لیے ہوتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...