کسی مکان کا کرایہ اُس کے محل ِوقوع ،اُس کی خوبصورتی اور اُس کی افادیت کے مطابق ہوتا ہے۔ سب سے پہلے محل ِوقوع آتا ہے۔ جو مکان جتنا شہر کے درمیان ہو گا، جتنے خوبصورت ماحول میں ہو گا۔۔۔اُتنی ہی اس کی قدروقیمت بڑھتی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر خوبصورتی آتی ہے کہ عمدہ طریقے سے بنا ہو گا توآنکھوں کو بھلا لگے گا۔پھر افادیت کہ اُس میں رہنے والوں کے آرام وسکون کے لیے کیا مہیا کیا گیا ہے۔
کچھ مکان بظاہر ان تمام خصوصیات سے لیس ہوتے ہیں لیکن اُن میں غیرمحسوس انداز میں ایسا ہوتا ہے کہ رہنے والے پل پل بےچین رہتے ہیں،کہنے کو کچھ نہیں کہہ سکتے مثال کے طور پر بعض مکانوں میں نہ جانے کہاں سے سیم آ جاتی ہے یا پھر کہیں نہ کہیں دیمک لگی ہوتی ہے۔۔۔کبھی فرش اتنے چکنے ہوتے ہیں کہ ہر وقت سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔۔۔کبھی اتنے نازک شیشے ہوتے ہیں کہ اُن کو برتتے برتتے انسان خود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔یہ سب بادی النظر میں نہیں دکھتا جیسے کہیں قیمتی اور بھاری پردے ڈال دئیے جاتے ہیں۔۔۔کہیں گرنے کے خوف سے انسان چلنا ہی بھول جاتا ہے۔۔۔کہیں ٹوٹنے کے ڈر سے چیزوں کا استعمال متروک ہو جاتا ہے۔ جو بھی ہو کرایہ دار کو اِن تمام خصوصیات اور سہولیات کے مطابق ہی کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ مکان محل ِوقوع کے اعتبار سے تو خاص نہیں ہوتےپراُن کی بناوٹ اورخوبصورتی لاجواب ہوتی ہے۔انسان اس کی کشش میں افادیت کے بارے میں بھی سمجھوتہ کر لیتا ہے۔۔۔ جیسے شہر سے باہر بنا کوئی مکان جس میں گیس بجلی کی فراہمی بھی مستقل نہ ہو کرایہ اس کا بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔
کچھ مکان اپنی افادیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔وہ اگرچہ شہر سے باہر ہوتے ہیں،شہر کےاندر بھی ہو سکتے ہیں یا پھرعالیشان محلوں کے بیچ ۔یہ اپنی دُنیا آپ ہوتے ہیں اِن میں وہ سب کچھ ہوتا ہے کہ باہر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ وہ کسی اُونچی پہاڑی پر بنا کسی کا ایک کمرے کا گھر بھی ہو سکتا ہے جس میں درمیان میں چولہا رکھ کر گھر گرم کیا جاسکتا ہے۔ یہ دریا کنارے بنی ایک کُٹیا بھی ہو سکتی ہے جو چراغ روشن کر کے مسافروں کی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ کسی لق دق صحرا میں نخلستان کا وہ گوشہ بھی ہو سکتا ہے جو بھٹکے ہوؤں کو سیراب کرتا ہے۔کرایہ دار کو کرایہ یہاں بھی ادا کرنا پڑتا ہےجو کہ باہمی اعتماد ومشاورت سے طے کرلیا جاتا ہے۔
کرایہ دار وقت کے ایک خاص فریم کا حصہ ہوتا ہے۔اُس کی اصلیت اُس کے جانے کے بعد کھلتی ہے۔۔اُس کے سامنے کسی کو اُس کے گھر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی مالک مکان اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔ کبھی کرائے دار گھر تباہ وبرباد کر کے چلے جاتے ہیں۔۔ بس چلے تو بہت کچھ اُکھاڑ کر بھی لے جاتے ہیں۔ بعد میں جابجا اُدھڑے پلاسٹر۔۔۔ٹوٹے شیشے اور کائی زدہ بدبو دار کمرے جانے والوں کے اندر کا حال سناتے ہیں۔ کبھی کوئی مکین اتنا محتاط بھی ہوتا ہے کہ اپنی موجودگی کا ذرا سا بھی نام ونشان نہیں چھوڑتا ۔وہ امانت دار کے طور پر ایک سرائے جان کر قیام کرتا ہے۔۔۔ نہ کچھ لیتا ہےاور دینے کے وقت بھی کنجوسی کی حد تک احتیاط برتتا ہے۔
یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ دُنیا اگر ایک سرائے ہے تو یہ چلتی رہتی ہے۔۔۔میلہ لگا رہتا ہے۔ ہمارے بعد آنے والوں نے یہاں اسی جگہ قیام کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہمارے قدموں کے نشان سے اس سرائے کے اسرارورموز جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ہمارا رویہ قیام کے دوران اچھا یا برا محض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم نے یہاں کیسا ماحول پایا؟ اور ہمیں یہاں سے کتنا فیض حاصل ہوا۔ ہم میں سے بہت کم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے کہاں تک اپنی آمد اور قیام کا حق ادا کیا۔
یہ ساری تمہید آدم وحواکی وہ ازلی کہانی ہے جو آج تک اپنی تلخ سچائی کے ساتھ جاری وساری ہےـ
مرکزی کردار مکان یعنی مرد کا ہے اورعورت اپنی تقدیر کے مطابق الاٹ شدہ مکان کی ادائیگی کرتی رہتی ہے۔
محل ِوقوع سے مراد مرد کا وہ مقام ہے جو معاشرہ اُس کی محنت قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اُسے عطا کرتا ہے۔ خوبصورتی سے مراد مرد کا معاشی طور پر مُستحکم ہونا ہے۔ زندگی کی گاڑی کے پہیےکو رواں رکھنے کے لیے پیسہ بہرحال گریس کا کام دیتا ہے۔افادیت محبت کے ہم پلہ ہے جس کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔کسی بھی چیز میں کمی بیشی اُس کی افادیت کو ملحوظ ِخاطر رکھ کر برداشت کی جاسکتی ہےلیکن اگر صرف افادیت یکھی جائے اور باقی چیزوں کو پس ِپُشت ڈال دیا جائے تو پھر افادیت بچتی ہے اور نہ سائباں صرف چاردیواری ہی رہ جاتی ہے۔
قیمت!یہ چارحرفی لفظ ہماری زندگی کا نیوکلیس ہی توہے۔ہماری کامیابیاں۔۔۔ہماری ناکامیاں اس کے مدار میں گھوم رہی ہیں۔
جان کی قیمت مال ہوسکتی ہے اورمال کی جان۔ایمان کی قیمت عقل ہےاورآخرت کی محنت۔سکون کی قیمت برداشت ہے۔۔۔ درگزر ہے توعذاب کی قیمت ناشکری ہے۔ صبح کی قیمت ایک اندھیری رات ہے تو پُرسکون رات کی قیمت ایک تھکا دینے والا دن بھی ہے۔
" رشتوں کی قیمت سمجھوتہ ہے تو دوستی کی بے نیازی"
کچھ مکان بظاہر ان تمام خصوصیات سے لیس ہوتے ہیں لیکن اُن میں غیرمحسوس انداز میں ایسا ہوتا ہے کہ رہنے والے پل پل بےچین رہتے ہیں،کہنے کو کچھ نہیں کہہ سکتے مثال کے طور پر بعض مکانوں میں نہ جانے کہاں سے سیم آ جاتی ہے یا پھر کہیں نہ کہیں دیمک لگی ہوتی ہے۔۔۔کبھی فرش اتنے چکنے ہوتے ہیں کہ ہر وقت سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔۔۔کبھی اتنے نازک شیشے ہوتے ہیں کہ اُن کو برتتے برتتے انسان خود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔یہ سب بادی النظر میں نہیں دکھتا جیسے کہیں قیمتی اور بھاری پردے ڈال دئیے جاتے ہیں۔۔۔کہیں گرنے کے خوف سے انسان چلنا ہی بھول جاتا ہے۔۔۔کہیں ٹوٹنے کے ڈر سے چیزوں کا استعمال متروک ہو جاتا ہے۔ جو بھی ہو کرایہ دار کو اِن تمام خصوصیات اور سہولیات کے مطابق ہی کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ مکان محل ِوقوع کے اعتبار سے تو خاص نہیں ہوتےپراُن کی بناوٹ اورخوبصورتی لاجواب ہوتی ہے۔انسان اس کی کشش میں افادیت کے بارے میں بھی سمجھوتہ کر لیتا ہے۔۔۔ جیسے شہر سے باہر بنا کوئی مکان جس میں گیس بجلی کی فراہمی بھی مستقل نہ ہو کرایہ اس کا بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔
کچھ مکان اپنی افادیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔وہ اگرچہ شہر سے باہر ہوتے ہیں،شہر کےاندر بھی ہو سکتے ہیں یا پھرعالیشان محلوں کے بیچ ۔یہ اپنی دُنیا آپ ہوتے ہیں اِن میں وہ سب کچھ ہوتا ہے کہ باہر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ وہ کسی اُونچی پہاڑی پر بنا کسی کا ایک کمرے کا گھر بھی ہو سکتا ہے جس میں درمیان میں چولہا رکھ کر گھر گرم کیا جاسکتا ہے۔ یہ دریا کنارے بنی ایک کُٹیا بھی ہو سکتی ہے جو چراغ روشن کر کے مسافروں کی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ کسی لق دق صحرا میں نخلستان کا وہ گوشہ بھی ہو سکتا ہے جو بھٹکے ہوؤں کو سیراب کرتا ہے۔کرایہ دار کو کرایہ یہاں بھی ادا کرنا پڑتا ہےجو کہ باہمی اعتماد ومشاورت سے طے کرلیا جاتا ہے۔
کرایہ دار وقت کے ایک خاص فریم کا حصہ ہوتا ہے۔اُس کی اصلیت اُس کے جانے کے بعد کھلتی ہے۔۔اُس کے سامنے کسی کو اُس کے گھر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی مالک مکان اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔ کبھی کرائے دار گھر تباہ وبرباد کر کے چلے جاتے ہیں۔۔ بس چلے تو بہت کچھ اُکھاڑ کر بھی لے جاتے ہیں۔ بعد میں جابجا اُدھڑے پلاسٹر۔۔۔ٹوٹے شیشے اور کائی زدہ بدبو دار کمرے جانے والوں کے اندر کا حال سناتے ہیں۔ کبھی کوئی مکین اتنا محتاط بھی ہوتا ہے کہ اپنی موجودگی کا ذرا سا بھی نام ونشان نہیں چھوڑتا ۔وہ امانت دار کے طور پر ایک سرائے جان کر قیام کرتا ہے۔۔۔ نہ کچھ لیتا ہےاور دینے کے وقت بھی کنجوسی کی حد تک احتیاط برتتا ہے۔
یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ دُنیا اگر ایک سرائے ہے تو یہ چلتی رہتی ہے۔۔۔میلہ لگا رہتا ہے۔ ہمارے بعد آنے والوں نے یہاں اسی جگہ قیام کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہمارے قدموں کے نشان سے اس سرائے کے اسرارورموز جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ہمارا رویہ قیام کے دوران اچھا یا برا محض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم نے یہاں کیسا ماحول پایا؟ اور ہمیں یہاں سے کتنا فیض حاصل ہوا۔ ہم میں سے بہت کم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے کہاں تک اپنی آمد اور قیام کا حق ادا کیا۔
یہ ساری تمہید آدم وحواکی وہ ازلی کہانی ہے جو آج تک اپنی تلخ سچائی کے ساتھ جاری وساری ہےـ
مرکزی کردار مکان یعنی مرد کا ہے اورعورت اپنی تقدیر کے مطابق الاٹ شدہ مکان کی ادائیگی کرتی رہتی ہے۔
محل ِوقوع سے مراد مرد کا وہ مقام ہے جو معاشرہ اُس کی محنت قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اُسے عطا کرتا ہے۔ خوبصورتی سے مراد مرد کا معاشی طور پر مُستحکم ہونا ہے۔ زندگی کی گاڑی کے پہیےکو رواں رکھنے کے لیے پیسہ بہرحال گریس کا کام دیتا ہے۔افادیت محبت کے ہم پلہ ہے جس کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔کسی بھی چیز میں کمی بیشی اُس کی افادیت کو ملحوظ ِخاطر رکھ کر برداشت کی جاسکتی ہےلیکن اگر صرف افادیت یکھی جائے اور باقی چیزوں کو پس ِپُشت ڈال دیا جائے تو پھر افادیت بچتی ہے اور نہ سائباں صرف چاردیواری ہی رہ جاتی ہے۔
ہمارے معاشرتی نظام سے منسلک گھر میں مرد اور عورت یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
۔۔عورت گھر کی سب سے قیمتی "شے" ہے تو مرد گھر کے لیے سب سے ضروری "عنصر"۔۔
۔(بادی النظر میں بیان کیے گئے گئے جملے سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ مرد اور عورت احساسات و جذبات میں گندھے جیتے جاگتے انسان ہیں جبکہ "شے اور عنصر" جیسے الفاظ مادی اور بےجان اشیا چیزوں کے ضمن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ زندگی الفاظ کے اُلٹ پھیر سے سمجھ نہیں آتی لیکن زندگی برتنے کا قرینہ سیکھنے میں ذہن کے پردے پر جھلملانے والے ہر نقش،ہر عکس اور ہر لفظ کا اپنا کردار ضرور ہوا کرتا ہے)۔
جس گھر میں قیمتی اشیا کی قدر نہ ہو اور ضروری کی اہمیت کا احساس نہ ہو وہ گھر نہیں محض سرائے ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں جیب میں کھنکتے سکوں کی موجودگی سب کچھ قابلِ حصول اور گرفت میں ہونے کا یقین دلاتی ہے۔ایسے گھر میں معاشرتی اور مذہبی اقدار کی گرہیں اپنے اپنے مدار میں رواں تو رکھتی ہیں لیکن فرار کی بےسود خواہش کبھی سرد نہیں ہوتی۔
!حرف ِآخرقیمت!یہ چارحرفی لفظ ہماری زندگی کا نیوکلیس ہی توہے۔ہماری کامیابیاں۔۔۔ہماری ناکامیاں اس کے مدار میں گھوم رہی ہیں۔
جان کی قیمت مال ہوسکتی ہے اورمال کی جان۔ایمان کی قیمت عقل ہےاورآخرت کی محنت۔سکون کی قیمت برداشت ہے۔۔۔ درگزر ہے توعذاب کی قیمت ناشکری ہے۔ صبح کی قیمت ایک اندھیری رات ہے تو پُرسکون رات کی قیمت ایک تھکا دینے والا دن بھی ہے۔
" رشتوں کی قیمت سمجھوتہ ہے تو دوستی کی بے نیازی"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں