ہفتہ, جون 29, 2013

" ہنڈ ولا "

" آخری کہانی"
 اپنی بھرپور موجودگی کے مادّی اسباب کے ساتھ فرش سے عرش پر یا پھر شاید عرش سے فرش تک کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد عورت اتنی تہی داماں ہو جاتی ہےکہ آخرکار پھونکیں مار کر اپنے ہی وجود کی بھٹی میں آگ سُُلگاتے ہوئے راکھ بنتی جاتی ہے۔اُس کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی ،پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ آکسیجن کی طرح بےرنگ، بےبُو، بےذائقہ ہوجاتی ہے۔ڈھونڈنے والے' اُس کی طلب ' سے بےنیاز اُسے اپنے رنگ میں کھوجتے ہیں۔
"اپنی نظر کی عینک سے بھی کبھی کائنات کا احاطہ ممکن ہو سکا ہے؟"
 وہ آکسیجن جو بے بول بن مانگے ملتی رہتی ہے تو اُس کی قدر وقیمت کا احساس کبھی نہیں ہوتا ۔کچھ حقیقتیں آخری سانس آخری منظر سے پہلے آشکار نہیں ہوتیں -عورت بھی اِنہی سچائیوں میں سے ایک ہے۔
31 دسمبر 2012
ََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حساب کہانی "
کچھ نہ کچھ ہوگا اللہ بہتر جانتا ہے زمین کی کروٹ سے پہلے جب چرند پرند خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو انسان کا اپنے ہی وجود میں پیوست ٹائم بم کی ٹک ٹک سُننا اچنبھے کی بات ہر گز نہیں ۔
یکم جنوری 2012۔۔۔۔
امی۔۔ 10 جنوری 1945 ۔۔۔ 67 برس 
 بیٹی۔۔ 25 جنوری 1967 ۔۔ 45برس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور کہانی ختم ہو گئی "
لیکن کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ایک نئے عنوان سے جنم لینے والی کہانی درحقیقت وہی پرانی کہانی ہے۔
مارچ 4۔ 2012 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نئی کہانی "
 بھرپور مہارت سے اپنے جسم وجاں کی ساری توانائی خرچ کر کے ڈرامے کا مرکزی کردار نظروں سے یوں اوجھل ہوا کہ ایک ثانیے کو ایسا لگا کہ میلہ ہی اُجڑ گیا ہو۔ لیکن یہ زندگی ایک کھیل۔۔۔ ایک تماشا ہی تو ہے۔ کردار آتے ہیں۔۔۔ کام کرتے ہیں۔۔۔ داد سمیٹتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔ نئے کردار نئی کہانی اتنی تیزی سے آگے بڑھاتے ہیں کہ نظر ابھی پچھلے منظر سے سَیر نہیں ہو پاتی کہ نیا موڑ آجاتا ہے۔ کیا ہیں ہم لوگ ؟ کیا ہے ہماری زندگی ۔؟ المیہ یہ ہے کہ کہانی بھی وہی ہے۔۔۔ کردار بھی وہی ہیں۔۔۔ سٹیج بھی وہی ہے۔۔۔ لیکن صرف ایک کردار کے چلے جانے سے ہر کردار اپنی ہئیت یوں تبدیل کرلیتا ہے کہ اُس کے برتاؤ میں زمین آسمان کا فرق آ جاتا ہے۔ ایکسڑا کردار بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں کہ اپنی مرضی کے سین شامل کرتے جاتے ہیں۔ بظاہر یوں دکھتا ہے کہ سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔۔۔ کہانی ایک دائرے میں آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن جو بھی ہے تماشائی اس صورت ِحال سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔۔۔اُنہیں کسی سے ہمدردی نہیں ہوتی۔ اگر ڈرامے کی مقبولیت کے دور میں وہ رشک وحسد سے تالیاں پیٹتے تھے۔۔۔ تو اب اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی خودغرض بن کر نہ صرف تالیاں پیٹتے ہیں بلکہ 'ونس مور'کی صدا بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس بات سے بےخبر کہ شاید آگے جا کر وہ بھی اس ڈرامے کا ایک کردار بن جائیں۔
وہ اس بہترین ڈرامے کا بدترین انجام  دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات قطعی فراموش کر ڈالتے ہیں کہ یہ دُنیا اگر ایک کھیل تماشا اور دھوکہ ہے تو یہ دُنیا "مکافات ِعمل" بھی ہے۔اس میلے میں ہماری زندگی اونچائی کے رُخ پر بنا وہ گول جھولا ( ہنڈولا) ہے جس میں اگر ہم بلندی پر جاتے ہیں تو ذرا دیر بعد نیچے آنا بھی ہماری قسمت ہے۔
یکم اپریل 2012
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیرت کہانی "
یہ تو پتہ تھا کہ کچھ  ہوگا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ بہت کچھ ہو گا اور کارپٹ بومبنگ کی طرح ہوتا ہی چلا جائے گا اور وہ ہو گا جو اپنے آس پاس سنتے اور دیکھتے تو تھے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس آتش فشاں کی راکھ میں اپنا گھر بھی آ جائے گا ۔ اس راکھ میں سے روشنی کی کرن تلاش کرنا اور نئے سرے سے نئی منزلوں کی تعمیر کرنا زندگی کی سب سے بڑی کمائی اور کامیابی ہے۔
دسمبر31۔۔2012
۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ برس قبل لکھے درج ذیل  لفظ آج اس لمحے بھی حسب حال ہیں۔بحیثیت قوم ہمارا حال ذرا سا بھی نہیں بدلا۔
" بمباری "
میں
 صبح سے شام کرنے والی
 ایک عام سی عورت ہوں
 لیکن
جب میں پڑھتی ہوں
'سُپر پاور ' اپنے دوستوں پر
 'غلطی" سے
  بم برسا دیتا ہے 
ایسے بم
کہ ادھوری نسلیں
 بانجھ زمینیں
 اُن کا ثمر ہیں
 میں سوچتی ہوں
سپر پاور کیا ہے  
فقط ایک چین ریکشن
 نسل ِآدم کے ہر مرد میں
 اس کے ذرات ہیں
 اور 
حوا کی بیٹی 
باغی نسلیں جنم دے رہی ہے
۔۔۔
میرا احساس ::
 " جنوری 2002 ! جب سپر پاور نے افغانستان پر پہلی بار "غلطی " سے ( carpet bombing) کی "


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...