معصومیت قدرت کا نام ہے۔
یہ مالک کے کرم میں ہے۔ موسم کے بدلنے میں ہے۔ پھول کے بے پروا کھلنے میں ہے۔ تتلی کے اُڑنے میں ہے۔ نرم ہوا کے لمس میں ہے ،ایک پل کی دھوپ چھاؤں میں ہے۔ بارش کی رم جھم میں ہے۔ کوئل کی کوک میں ہے۔
بچے کی ہنسی میں ہے ۔ لڑکی کی دوشیزگی میں ہے۔ لڑکے کی حیرت میں ہے۔عورت کےبھروسے میں ہے۔ مرد کی آزادی میں ہے۔ محبت کی ردا میں ہے۔ وعدے کی وفا میں ہے۔
معصومیت کوبچپن سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔جو ہرگذرتے پل ہم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔درحقیقت بچپن کبھی کہیں نہیں جاتا، وہ گردشِ زمانہ سے ڈر کر چُھپ کر ضرور بیٹھ جاتا ہے ہمارے اندر ،لیکن اس سے ملنا چاہو تو کبھی اپنے آپ کو بچوں سے باتیں کرتے دیکھ لو ، ان کی معصومیت پر ہنستے دیکھ لو ، ایک پل کے لیے ہمارا بچپن لوٹ آتا ہے- اگلے ہی پل ہمارے زخم ہماری انّا ہمیں بڑا ہونے کا احساس دلا دیتی ہے- یہ مدہم سا عکس جُگنو کی روشنی کی طرح ہوتا ہے جو کزرے زمانے کی ایک جھلک بھی دکھلا دیتا ہے - کرچیوں کو سمٹینا چاہو تو یادوں کے لوح چون سے اکٹھا کر کے ایک نئی شناخت بھی دی جا سکتی ہے۔
معصومیت کیا ہے ؟ نادانی کا دوسرا نام - بےوقوفی کا رنگین لباس - اگر کوئی معصوم کہہ دے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں
سماتے اور بےوقوف کہہ دیا تو مرنے مارنے پرتُل جاتے ہیں یا احساسِ ندامت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ہمارے نزدیک عقل مندی معاملہ فہمی اور چالاکی وہ طاقتور ہتھیار ہیں جن کو آراستہ کر کے زندگی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
کبھی ہماری سادگی چالاکی سمجھی جاتی ہے تو کبھی ہم اپنی چالاکی کو سادگی کے پردے میں چھپا لیتے ہیں -بے شک دُنیا ایک دلدل ہے۔، جابجا گہری کھائیاں ہیں اور آنکھیں کھول کر سفر طے کرنا سفر بخیر کی نوید ہے لیکن زندگی کا ہر فیصلہ چالاکی اور دانش مندی سے کاسۂ لیس ہو کر نہیں ہوتا اور نہ کرنا چاہیے ہمیں آنے والے پل کی کچھ خبر نہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے کس عمل کا کس قول کا کیا نتیجہ نکلے -اسی طرح بعض اوقات بےخبری اور نادانی کے فیصلے بھی مالامال کر دیتے ہیں-زندگی کے فیصلوں کے نتائج اگر ہمارے حق میں نہ نکلیں توسوچ کا فرق پھر واضح ہوتا ہے۔
حساب کتاب کا سبق دھوکا دے جائے تو اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ تخمینہ لگانے میں ہماری غلطی تھی لیکن اگر معصومیت سے خطا ہو جائے تو طبیعت پر بار نہیں پڑتا کہ یہ تو ہماری عادت ہے ـ
یہ مالک کے کرم میں ہے۔ موسم کے بدلنے میں ہے۔ پھول کے بے پروا کھلنے میں ہے۔ تتلی کے اُڑنے میں ہے۔ نرم ہوا کے لمس میں ہے ،ایک پل کی دھوپ چھاؤں میں ہے۔ بارش کی رم جھم میں ہے۔ کوئل کی کوک میں ہے۔
بچے کی ہنسی میں ہے ۔ لڑکی کی دوشیزگی میں ہے۔ لڑکے کی حیرت میں ہے۔عورت کےبھروسے میں ہے۔ مرد کی آزادی میں ہے۔ محبت کی ردا میں ہے۔ وعدے کی وفا میں ہے۔
معصومیت کوبچپن سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔جو ہرگذرتے پل ہم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔درحقیقت بچپن کبھی کہیں نہیں جاتا، وہ گردشِ زمانہ سے ڈر کر چُھپ کر ضرور بیٹھ جاتا ہے ہمارے اندر ،لیکن اس سے ملنا چاہو تو کبھی اپنے آپ کو بچوں سے باتیں کرتے دیکھ لو ، ان کی معصومیت پر ہنستے دیکھ لو ، ایک پل کے لیے ہمارا بچپن لوٹ آتا ہے- اگلے ہی پل ہمارے زخم ہماری انّا ہمیں بڑا ہونے کا احساس دلا دیتی ہے- یہ مدہم سا عکس جُگنو کی روشنی کی طرح ہوتا ہے جو کزرے زمانے کی ایک جھلک بھی دکھلا دیتا ہے - کرچیوں کو سمٹینا چاہو تو یادوں کے لوح چون سے اکٹھا کر کے ایک نئی شناخت بھی دی جا سکتی ہے۔
معصومیت کیا ہے ؟ نادانی کا دوسرا نام - بےوقوفی کا رنگین لباس - اگر کوئی معصوم کہہ دے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں
سماتے اور بےوقوف کہہ دیا تو مرنے مارنے پرتُل جاتے ہیں یا احساسِ ندامت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ہمارے نزدیک عقل مندی معاملہ فہمی اور چالاکی وہ طاقتور ہتھیار ہیں جن کو آراستہ کر کے زندگی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
کبھی ہماری سادگی چالاکی سمجھی جاتی ہے تو کبھی ہم اپنی چالاکی کو سادگی کے پردے میں چھپا لیتے ہیں -بے شک دُنیا ایک دلدل ہے۔، جابجا گہری کھائیاں ہیں اور آنکھیں کھول کر سفر طے کرنا سفر بخیر کی نوید ہے لیکن زندگی کا ہر فیصلہ چالاکی اور دانش مندی سے کاسۂ لیس ہو کر نہیں ہوتا اور نہ کرنا چاہیے ہمیں آنے والے پل کی کچھ خبر نہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے کس عمل کا کس قول کا کیا نتیجہ نکلے -اسی طرح بعض اوقات بےخبری اور نادانی کے فیصلے بھی مالامال کر دیتے ہیں-زندگی کے فیصلوں کے نتائج اگر ہمارے حق میں نہ نکلیں توسوچ کا فرق پھر واضح ہوتا ہے۔
حساب کتاب کا سبق دھوکا دے جائے تو اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ تخمینہ لگانے میں ہماری غلطی تھی لیکن اگر معصومیت سے خطا ہو جائے تو طبیعت پر بار نہیں پڑتا کہ یہ تو ہماری عادت ہے ـ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں