پیر, جون 17, 2013

" سمندر اور بہتا چشمہ "

"دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو " 
 سمندروں کو ہی سمندروں کا سراغ ملتا ہے۔عام ندی نالے کیا جانیں سمندر کی وسعت اور اُس کی آغوش جو ہر درد کا درماں بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر کا پانی میٹھا نہیں ہوتا۔اُس کے پانیوں میں ٹھہری صدیوں کی ناآسودگی اُسے کھارا بنا دیتی ہے جس سےنگاہ کی تسکین تو ہو جاتی ہے۔ وجود کی تشنگی تو سیراب ہوسکتی ہے۔لیکن پیاس کی شدّت کم نہیں ہوتی۔
 سمندر صرف ایک بات پر فوقیت رکھتا ہے کہ اُس کی پناہ ہر روگ سے جان چھڑا دیتی ہے۔جبکہ ندی نالے ہر خواہش سے بےپروا صرف بہتے چلے جاتے ہیں۔گنگناتے۔۔۔ اونچے نیچے رستوں سے گزرتے۔۔۔شور مچاتے۔۔۔ پینے والوں کو سیراب کرتے۔۔۔۔
 سمندر اُس کی محبت نہیں تھا۔۔۔عشق نہیں تھا۔۔۔جنون نہیں تھا۔وہ سمندر سے ہزاروں میل کی دوری پر تنہا بہتا ایک میٹھا مدھر چشمہ تھا۔جو ہر ملن۔۔۔ہر ملاپ کی لذت سے ناآشنا بس اپنی مستی میں جئے جاتا تھا۔سمندر کی نارسائی اُس کی روح میں تو تھی لیکن جسم میں نہیں۔اُس کی طلب بہتے جانا اور پاتے جانا تھی۔صاف شفاف بہتا پانی جو اپنے اندر عجائبات ِفطرت کی خوبصورتی کا ایک جہان آشکار کرتا ہے۔اپنی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والوں کو خوشی عطا کرتا ہے۔ ان کے لیے خاص ہے جو ایک راہ پر چلیں اور پلٹ کر نہ دیکھیں۔
 دور سانس لیتے لامحدود سمندروں کے نگر نگر پھرنے والے مسافر۔۔۔ مہینوں جن کے قدم مٹی کو چھو نہیں پاتے وہ کبھی اس لذت کے امین نہیں ہو سکتے۔ بہت سوں کو توبعد میں مٹی کی چادر بھی نصیب نہیں ہوتی۔اس میں شک نہیں کہ سمندروں کی وسعت قدم روکتی ہے۔۔۔اُس کا سحر چاندنی راتوں میں بےچین کر دیتا ہے۔۔۔مدوجزرکہانی دل ودماغ کو اتھل پتھل کر دیتی ہے۔سمندر کا کنارہ بھی تو کنارہ نہیں ہوتا۔۔۔قدموں تلے ریت قدم روکتی ضرور ہے پرقدم جمانے کی اجازت کبھی نہیں دیتی۔ وہ ریت جس پر خوابوں کے گھروندے تو تعمیر کیے جا سکتے ہیں لیکن ارمانوں کے محل ذرا سی ٹھیس لگنے سے بکھر جاتے ہیں۔
 بہتے چشموں اور سرسبز پہاڑوں کے بیچ بنے مٹی کے گھرمقدر کی لینڈ سلائیڈوں اورطوفانی بارشوں کے آسیب میں  ہمہ وقت گرفتار رہتے ہیں۔ فطرت سے قربت کا احساس اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے اور پھر اسی مٹی کی خاک میں خاک ہونے کا اطمینان ہزارخواہشوں پر بھاری ہے۔
!حرفِ آخر
 دکھ۔!!! کبھی بہتا چشمہ دیکھا ؟۔۔۔۔قریب سے؟۔۔۔اس میں بہت سے رنگ دکھتے ہیں ۔۔ایک پوری کائنات۔۔۔۔
 ہمیں اس کے رنگوں سے غرض نہیں ہونا چاہیے بس اپنی پیاس کا خیال رکھنا اہم ہے۔ناسمجھ آنکھ رنگوں کی کھوج میں آخری رنگ پیاس کا سمجھتی ہے اور خود کو چشمہ۔
 بہتا چشمہ چاہے پانی کا ہو یا محبت کا ہمارے حصے میں ہماری مٹھی کے برابر ہی آتا ہے۔اس سے زیادہ کی لاحاصل خواہش ہمیں سیراب ہو کر بھی تشنہ رکھتی ہے۔بہتے چشمے بہت نازک ہوتے ہیں ذرا سی رُکاوٹ دیکھ کر خاموشی سے رُخ تو بدل لیتے ہیں لیکن کبھی خشک نہیں ہوتے۔۔۔"
بہتے چشمے سے کوئی فیض نہ اٹھائے تو یہ چشمے کی نہیں پیاسے کی کم بختی ہے"۔۔

4 تبصرے:


  1. سمندر اُس کی محبت نہیں تھا۔۔۔عشق نہیں تھا۔۔۔جنون نہیں تھا۔وہ سمندر سے ہزاروں میل کی دوری پر تنہا بہتا ایک میٹھا مدھر چشمہ تھا۔جو ہر ملن۔۔۔ہر ملاپ کی لذت سے ناآشنا بس اپنی مستی میں جئے جاتا تھا۔سمندر کی نارسائی اُس کی روح میں تو تھی لیکن جسم میں نہیں،اُس کی طلب بہتے جانا اور پاتے جانا تھی۔صاف شفاف بہتا پانی جو اپنے اندر عجائبات ِفطرت کی خوبصورتی کا ایک جہان آشکار کرتا ہے۔۔۔اپنی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والوں کو خوشی عطا کرتا ہے۔ ان کے لیے خاص ہے جو ایک راہ پر چلیں اور پلٹ کر نہ دیکھیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    تحریر ایسی لاجواب ہے کہ صرف اتنا کہنا کافی ہے
    "دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو "

    جواب دیںحذف کریں
  2. چشمہ کا پانی کیسا ہی میٹھا کیوں نہ ہو سمندر تک پہنچ کر نمکین ہو جاتا ہے۔ پھر اس میں ٹھہرا جاتا ہے ڈوبا نہیں۔ ویسے بھی جو نمکین نہیں اس میں لذت نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. سنو عالیہ مرد کی محبت گہرے سمندر کی طرح ہے ۔ اس میں دریا آکر ملتے رہتے ہیں۔

    اسے نئے پانیوں سے بھی پیار رہتا ہے اور پرانے پانیوں سے بھی ۔

    یہی سمندر کی وسعت کی دلیل ہے ، اِسی میں اس کی بڑائی ہے ۔

    عورت جھیل ہے ۔ کھڑے پانی کی جھیل ۔۔ برا نہ ماننا ، سمندر اور جھیل میں بڑا فرق ہوتا ہے ہمیشہ۔

    اشفاق احمد، حیرت کدہ، صفحہ 106

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ہاں سمندر اور جھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سمندر کا کنارہ بھی تو نہیں ہوتا اور نا ہی اس سے پیاس بجھتی ہے۔ سمندر موت بھی ہے لیکن کچھ سمندر اتنے "کھارے" ہوتے ہیں کہ موت کے بعد بھی پناہ نہیں ملتی۔ جھیل اگر طلب پوری کرنے سے قاصر ہے تو نئی منزلوں کی جستجو کی راہ نما بھی تو ہے، سمندر تو قدم روک لیتا ہے بلکہ سمندروں کے "ساحل" تو دھوکا اور فریبِ نظر ہیں۔ جہاں پل پل سرکتی توقعات کی بھربھری ریت میں بنے گھروندے اپنی ذات کا اعتبار بھی چھین لیتے ہیں۔

      حذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...