۔لکھ...اُس کے اذن سے...جو کہی اور ان کہی خوب جانتا ہے۔ رہنمائی...صرف اللہ سے اور اپنے دل سے۔۔۔انسان صرف دھوکا اور رکاوٹ ہیں۔
اتوار, جولائی 31, 2022
"آدم ،اولادِ آدم اورجنت کہانی"
پیر, جنوری 24, 2022
"بچپن سےپچپن تک"
"بچپن سے پچپن تک"
"جانا توبس یہ جانا کہ کچھ نہیں جانا"
بچپن اور پچپن کے بیچ لفظی طور پر دو "نقطوں" کا یہ فرق بچپن کی نادانی اور پچپن کی دانائی کا اُلٹ پھیر ہے یا پھر ہماری زندگی کے ادوار کو تین لفظوں میں سموتی ۔۔۔ بچہ،بڑا اور بوڑھا کی مثلث۔
بچپن کی نادانی سُنی سنائی بات ہی کہی جا سکتی ہے لیکن پچپن تک آتے آتے اور زندگی کے بےشمار اسباق ملتے ملتے یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح ذہن پر ثبت ہو جاتی ہے کہ بچپن کی نادانی بڑوں کی محبتوں اور شفقتوں کے سائے تلے بادِصبا کے جھونکے کی طرح چھو کر گزر گئی لیکن پچپن کی دانائی صرف اور صرف اپنی ذات کے حوالے سے ہی سمجھی جائے تو بہتر ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد دنیاوی رشتوں کی نظر میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑوں میں عقل کی کمی ہونے لگتی ہے۔
بچپن میں بڑے ہاتھ تھام کر چلنا سکھاتے ہیں ۔زندگی کے ابتدائی اسباق ذہن کی کوری سلیٹ پرنقش کرتے ہیں تو پچپن میں چھوٹے ہاتھ جھٹک کر ہمارا اپنے آپ پر یقین بھی ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔اس سمے طویل سفرِزندگی کے ان منٹ اسباق ریت پر لکھی تحریر دِکھتے ہیں۔ عمرِرائیگاں کے احساس کی اذیت کو کم کرنے میں اصل کردار ذہنی برداشت کا ہے جو زندگی کے سکون اور بےسکونی کا تعین کرتی ہے۔ ذہنی برداشت ،اپنے آپ پر یقین ہی وہ اصل دانائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔
انسان سدا سے انسانوں کا اور انسانوں کے وسیلے سےبنے رشتوں کا محتاج رہا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد "زندہ رہنے "کے لیے اُسے کسی تعلق کسی رشتے سے بےنیاز سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔وقت گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ خود کسی کو سہارا دینے،کسی کاسہارا بننےکے قابل ہو جاتا ہے۔ ۔پھر ایک وقت ایساآتا ہے کہ کسی رشتے کسی تعلق سے ہٹ کر اُسے زندگی گزارنے کے لیے سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب یہ سہارے اُسے خود تلاش کرنا پڑتے ہیں۔اس کے اپنے خونی رشتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔جذباتی اور معاشرتی سہاروں کے بنیادی عوامل سے بڑھ کر مالی وسائل بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھنے اور اس کے مسائل سے باخبر رہنے کے باوجود زندگی کے سفر میں عمر کے ہندسے بڑھنے کے ساتھ ہی جسمانی مشینری میں کمزوریاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی صحت مند ،مال دار او ر سمجھ دار کیوں نہ ہو ، اُسے عمر میں پچاس سال کا سنگِ میل چھونے کے بعد جسم میں کہیں نہ کہیں دردوں،ساٹھ برس کے بعدبیماری کی علامات ، ستر برس کے بعد بیماری اور اُس کے اثرات اور اسی برس کے بعد کبھی بھی کسی بھی حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ۔
بات بچپن سے شروع ہو یا پچپن تک آ کر ختم کی جائے،یہ اہم نہیں ۔اہم یہ ہے کہ بچپن ہو یا پچپن ہم نے ذاتی طور پر زندگی سے کیا سیکھا۔ یہاں یہ بھی اہم نہیں کہ زندگی نے کیا سبق دیئےکہ زندگی تو ہر گھڑی ہر آن ہماری آخری سانس تک ایک نیا سبق سامنے رکھتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس میں سے کتنا ذہن نشیں کرتے ہیں ؟ کتنا ازبر ہوتا ہے ؟ اور اس پر کس حد تک عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔
اتوار, جنوری 23, 2022
" لاہور آوارگی"
"لاہور آوارگی"
اشاعت جنوری 2017
کسان اینڈ کمپنی پر بیٹھ کر میں نے کاروبار تو کیا کرنا تھا آوارگی کتابیں فلمیں خواب اور سراب میرا عشق تھے۔۔۔۔میں لکھنے میں مگن ہو گیا میں نے اپنے مقبول ترین کتابیں اسی دکان کے کاؤنٹر پر بیٹھ کر لکھیں۔۔۔گوالمنڈی کے شور خوانچہ فروشوں کی پکاروں اور شدید گرمیوں برستی برسات اور موسم سرما کی ٹھٹھرتی شاموں میں ۔۔۔"نکلے تیری تلاش میں" " اندلس میں اجنبی " "خانہ بدوش" "فاختہ" "پکھیرو " "پیار کا پہلا شہر " کے ابتدائی باب۔؎
۔۔۔۔
صفحہ 188۔189
لاہور میں ہمارا پہلا گھر ریلوے سٹیشن اور گڑھی شاہو کی قربت میں ،،بوڑھ والا چوک ،،یعنی برگد والے چوک کے پہلو میں تھا۔وہ ایک محلہ تھا جس میں داخل ہونے کا ایک بوسیدہ دروازہ تھا جو سر شام بند ہو جاتا تھا،دو کولونیل طرز کے پرانے کمرے اور ایک صحن۔۔۔۔۔اس گھر کی یادیں کہاں ہو گی کہ میں ایک رینگتا ہوا گول مٹول سیاہ رنگت کا موٹی موٹی آنکھوں والا ایک فضول اور بدھو سا بچہ تھا۔
"مستنصرحسین تارڑ۔۔۔۔ میرے بلاگز کے آئینے میں"
مستنصر حسین تارڑ
تاریخ پیدائش. یکم مارچ 1939ء لاہور.پہلی تحریر." لنڈن سے ماسکو تک " ہفت روزہ " قندیل " 1959ءپہلی کتاب. " نکلے تیری تلاش میں " سفر نامہپہلا ٹیلیویژن ڈرامہ بطور اداکار. "پرانی باتیں " 1967ءپہلا ٹیلیویژن ڈرامہ بطور مصنف. "آدھی رات کا سورج " 1974ء
۔۔بحوالہ بیک ٹائٹل" کے ٹو کہانی " ایڈیشن 1994ء ۔
مستنصر حسین تارڑ
۔۔۔۔۔۔
جناب مستنصرحسین تارڑ کے حوالے سے میرے تمام تر بلاگز کے نام بمعہ اُن کے لنک درج ذیل ہیں ۔جن میں میری ذاتی تحاریر ،اُن پر لکھی گئی تحاریر،اُن کی تحاریر،اور اُن کی کُتب پڑھتے ہوئےمیرا احساس اور اُن میں سے اقتباسات شامل ہیں۔
جمعرات, جنوری 20, 2022
" بُنت "
"بچے کچے خوابوں سے نئے رنگوں کے تحفے بُننا مجھے اچھا لگتا ہے۔"
لفظ اور رنگ میرے ہاتھوں کے لمس سےجب پگھلتے ہیںمیں ان کو تصویر کرتی ہوںنئی اِک تحریر لکھتی ہوںجو کائنات میں صرف میری ہوتی ہےاپنے وجود پر میرا یقین ہوتی ہے
"ایک زرداری سب پہ بھاری"
گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمب...
-
" قرآن پاک اور اللہ تعالٰٰی کے نام " سورہ طہٰ(20) آیت 8۔ترجمہ۔۔۔" اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کے سب نام اچھے...
-
وہ مکمل طورپرمیرے رحم وکرم پرتھے۔ میرے ہاتھ اُن کی آنکھوں کو چھوتے تو کبھی اُن کی ٹھوڈی کو۔ کبھی میری انگلیوں کا لمس اُن کی انگلیوں کو سی...
-
سفردرسفر از اشفاق احمد پر میرا اظہار۔۔۔۔ دل کی آنکھ ہر ایک کے پاس ہوتی ہے بس کھلتی کسی کسی کی ہے۔ خلیل جبران،احمد فراز،پروین شاک...