جمعرات, دسمبر 25, 2014

" رتی گلی سے ہیلوہالینڈ تک"

رتی گلی ۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
سفرکیا۔۔۔1956۔1963۔2003
اشاعت۔۔۔2005
۔"رتی گلی"جناب تارڑ کی تمام کتابوں میں اُن کے "ذہنی" سفر کے حوالے سےایک اہم کتاب ہے۔1956 میں ایک سترہ سالہ لڑکے کا زندگی کے پہلے سفر۔۔۔پہلی کوہ نوردی کا احوال،احساس اوراس کی جزئیات ہیں تواس کے بعد1963 میں اپنے جگری دوستوں کے ساتھ کیےگئے وادی کاغان کےایک یادگارسفر کی جھلکیاں ہیں۔اس کتاب کی ایک اور عجیب بات۔۔۔اس کے آخری صفحات میں اس خاص سفر کی کتاب کا نام (منہ ول کعبہ شریف) بھی ہے۔ وہ سفر۔۔۔جو آپ نے 2004 میں کرنا تھا اور کتاب تو بعد کی بات تھی۔
رتی گلی سے منتحب چند اقتباسات۔۔۔
صفحہ۔۔23۔24۔۔
کہیں میری کسی بوسیدہ البم میں۔۔ جسے باندھنے والے دھاگے بھی بھربھرے ہوکر اس کے اوراق کو بکھر جانے کی اجازت دینے کو ہیں۔۔۔ سینتالیس برس بیشتر کے زمانوں کی ایک تصویر ہے۔۔۔ بلیک اینڈ وائٹ۔۔ جس کا وائٹ بھی بھورا ہونے لگا ہے۔۔۔ میرے پہلے کیمرے ، ایک کوڈک بےبی براؤنی کمیرے سے کھنچی ہوئی۔۔۔۔جس میں ایک سترہ برس کا ، کچی اور کومل عمر کا چھریرے بدن کا۔۔۔ مجھے شاید دس بارہ دنوں کے بعد شیو بنانے کی حاجت ہوتی تھی۔۔۔
ایک لڑکا کھڑا ہے جھیل سیف الملوک کے کنارے ۔۔ پس منظر میں دور تک پانیوں پر کروٹیں ساکت ہیں۔۔
فوجی بوٹوں میں ، آرمی سویٹر میں ڈھیلی براؤن پتلون میں ، ایک گورکھا ہیٹ لاپرواہی سے کاندھوں پر لٹکائے ، چوڑے ماتھے پر مروجہ فیشن کی پیروی میں گھنگھریالے بالوں کی لٹ ڈالے ۔۔۔ کہیں دور افق کے پار تکتا ہوا۔۔۔ کہ یہ بھی مروجہ فیشن تھا کہ تصویر اتراتے ہوے کھو سے جاؤ اور اداسی سے افق کے پار تکتے جاؤ۔۔۔

 
اور اس لمحے اس لڑکے کو کیا علم کہ مستقبل میں کیا پوشیدہ ہے۔۔۔ کہ وہ بقیہ لڑکوں کی مانند کبھی بھی ایک کامیاب زندگی نہیں گزارے گا۔۔۔ کسی بڑے عہدے پر نہیں پہنچے گا۔۔۔ ایک بے مقصد آوارگی اور کوہ نوردی اس کا مقدر ہوگی۔۔۔ افق کے پار جو کچھ کاتب تقدیر نے لکھا تھا وہ اسے پڑھ نہ سکتا تھا۔۔ اگر پڑھ سکتا تو وہیں توبہ تائب ہو کر ذی ہوش اور نارمل ہوجاتا ۔۔۔۔ پر نہ ہوا۔۔۔
صفحہ۔۔۔124
کوہ نوردی نام ہی اگلی سویر کوچ کر جانے کا ہے۔۔۔ نئے منظروں کے چاؤ میں خیمے سمیٹ لینے کا ہے۔۔۔ یہ پہلی نظر میں شدید محبت میں مبتلا ہوجانے کا پھر اپنی ہوس پوری کرکے اگلی سویر بےوفائی کر جانے کا نام ہے۔
صفحہ۔165
نصیب کی تختی کو کوئی نہیں پڑھ سکتا۔
اس کی لکھائی تو تبھی سامنے آتی ہے جب جو لکھا ہوتا ہے وہ پورا ہونے کو ہوتا ہے۔
صفحہ۔۔۔248
اور اگلے برس کے آنے کی کوئی گارنٹی تو نہ تھی۔
کسی بھی اشٹام پیپر پر یہ تو درج نہ تھا کہ اگلے برس تک یہ جو تارڑ ہے موجود رہے گا۔اگر رہے گا تو اس میں سکت رہے گی۔اور اگر سکت رہتی ہے تو حالات میں بھی سکت رہتی ہے یا نہیں۔
میں اپنے خیمے کے باہر بیٹھا تھا۔
اور جیسے ہرنماز کے لیے"منہ ول کعبےشریف"کی نیت کی جاتی ہے ایسے میں بھی منہ ول رتی گلی کیے بیٹھا تھا۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالینڈ کی سفرِداستان۔۔۔ ستمبر1956۔1969۔نومبر2010
اشاعت2011
مستنصرحسین تارڑصاحب کی " ہیلو ہالینڈ" پڑھتے ہوئے میرا احساس ۔
برس ہا برس سے جناب تارڑ صاحب کے لفظوں سےان کے سفرزندگی کوجانا۔۔۔ ان کے خیالات اورتجربات کومحسوس کیا۔ لیکن اس طرح تو ہم اپنے بہت سے پسندیدہ لکھاریوں کے لفظ اور شاعروں کے کلام کو بھی دل سے قبول کرتے ہیں۔ جناب تارڑ کےلفظ کے لمس کی خاص بات جو دوسرے لکھاریوں سے ممتاز کرتی ہے وہ لفظ کےحوالے سے "پہلا پیار"کی اثرانگیزی اور شدت ہے جو وقت کی گرد پڑنے پر بھی ماند نہیں ہوتی۔ چاہے ہم اسے کہیں رکھ کر بھول جائیں۔۔۔جان بوجھ کر۔۔۔ نادانی سمجھ کر فراموش کر دیں اوربھلانا چاہیں۔ لیکن جب بھی سامنا ہو تو پھر اتنا ہی تازہ اتنا قریب لگے جیسے برسوں پہلے اور اب میں کوئی فاصلہ ہی نہیں ۔ یہ تاثیر صرف جناب تارڑ کے لفظ میں ملی۔ ان کی ہر نئی کتاب پہلے سے بھی زیادہ رگ جاں کو چھو گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ جناب تارڑ کے لفظ محض ادب برائے لذت ہی نہیں۔۔۔اِن میں نہ صرف ماضی کے تاریخی حوالے ملتے ہیں بلکہ حال میں زندگی کے رنگ اپنے اندرجذب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور دنیا میں جہاں جہاں آپ سفر کرتے ہیں پڑھنے والا اسی طور اس منظر اس جگہ کو محسوس کرتا چلا جاتا ہے۔
لفظ کے سفر میں دوسرے پسندیدہ لکھنے والوں کی تاثیر بھی ادھوری نہیں کہ جب بھی پڑھو یہی لگتا ہے کہ وہ لفظ ہمارے لیے ابھی اترے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ لکھنے والے جا چکے ہوتے ہیں اپنے حصے کا کام کر کے۔ اب ان کے لفظ ہمیں ایک انجانی کسک بھی دے جاتے ہیں اور جناب تارڑ کا ہمارے ساتھ ہونا ایسی ہی خوشی دیتا ہے جیسے محبوب سامنے ہو۔۔۔۔اور۔۔۔ " تجھ کو دیکھیں کہ تجھ سے بات کریں"۔ستم یہ ہے کہ یہ محبوب ہر پل نئے انگ نئی چھب سے ملتا ہے۔ یوں "توبہ" باربار ٹوٹتی ہے بس ایک جام اور فقط ایک آخری جام کی معصوم سی خواہش پر۔
ہیلو ہالینڈ جناب تارڑ کے  سفرِسیاحت کے حوالے سے بہت اہم کتاب ہےکہ اس میں سیاحت کے رنگ میں زندگی کا پہلا سفر 17 سال کی عمر میں پھر 30 سال اور پھر 70 برس کا اور ہر عمر کے سفر کے الگ محسوسات اور جذبات ملتے ہیں ۔ہیلو ہالینڈ  کی ایک بہت خاص بات یہ بھی  ہے کہ  اس میں "نکلے تری تلاش میں" کے برسلزکے قیام کی کچھ حذف شدہ یادیں بھی شامل کی گئی ہیں۔
ہیلو ہالینڈ سے انتخاب۔۔۔
٭"پھول موسم کے نہیں محبت کے محتاج ہوتے ہیں۔۔
موسم چاہے کتنے ہی موزوں کیوں نہ ہوں اگر ان میں محبت شامل نہ ہو تو کلیاں لبِ بستہ ہی رہتی ہیں۔۔"
٭اور وہ جو شب تھی دسمبر کی، سرد اور سیاہ شب جب میری سٹڈی کے باہر دسمبر کی رت کے پالے اترتے تھے،چیڑ کے درخت کے بالوں میں ایک ہلکی دھند اترتی تھی یہاں تک کہ گارڈن لائٹس کی روشنیاں بھی ٹھٹھرتی مدھم ہوتی تھیں تب میں نےاس سفرنامے کا آغاز کیا تھا، یہ اتنا ہنگامہ خیز، مہمات سے بھرپور اور جنوں انگیز تو نہیں ہے جتنے میرے ماضی کے سفرنامے ہوا کرتے تھے، اس لیے کہ عمرکے پلوں تلے برسوں کے بہت پانی سے بہہ چکے ...تھےاور ان کے ساتھ میری نوخیزی، بے دریغی کے ساتھ وحشتیں اور محبت کی حدتیں بھی بہہ چکی تھیں۔ میں وہ نہ رہا تھا جو کہ کبھی تھا تو یورپ کا میرا یہ سفرنامہ کیسے ایک ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ ، ’’اندلس میں اجنبی‘‘ یا ’’خانہ بدوش‘‘ ہوسکتا تھا۔ میں نے اسے اس لیے تحریر کردیا کہ مجھے اس مختصر سفر یورپ کے دوران ایسے محبت بھرے اور مہربان لوگ ملے جن کا میں مقروض ہوگیا۔اگر چہ یہ قرض بے جا محبتوں اور چاہتوں کا چکائے نہیں چکتا۔ اور کیا جانئے  کہ عمر کا یہ رخش گھوڑا کہ نہ پاؤں رکاب میں ہے اور نہ ہاتھ میں لگام ہے تو اب کبھی نہ رکے مجھے فنا کی وادیوں میں لے جائے تو اس سفر کو قلمبند کردوں اس سے پیشتر کہ دل کے ساتھ قلم بھی بند ہوجائے اور ہم رہیں، نہ رہیں بقول امیر مینائی
قیام روح پہ قالب میں اعتماد نہ کر
کچھ اعتبار نہیں مہماں رہے نہ رہے
شب وصال غنیمت ہے پھر خدا جانے
کہ صبح کو وہ قمر مہرباں رہے نہ رہے
۔145۔۔۔
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اُس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
تو میں نے آشفتہ سری،دیوانگی،آوارگی اورخانہ بدوشی کے جتنے بھی خواب دیکھے۔۔۔انہیں اپنے سفرناموں اور ناولوں میں دکھانے کی سعی لاحاصل کرتا ہی رہا۔اور وہ پھول جووحشت اورسفر کا مذہب،قومیت اور رواجوں سے ماورا۔۔کبھی کسی دشتِ مرگ میں،کبھی بلیک فارسٹ،ایک فئیری میڈو میں،الحمرا کے ایوانوں یا الاسکا کے برف زاروں میں کِھلا اُسے دکھانے کی تخلیقی اذیت میں مبتلا رہا پھر دکھا نہ سکا کہ وہ ایک آئینے میں کھلا تھا۔۔
تو نصف صدی کے کل اور آج میں کچھ فرق نہ تھا۔۔وہ جنوں اور تحیر جو تب تھا،اب بھی ہے۔۔
سوائے آئینے میں دِکھتی شکل کے۔۔۔جس میں کبھی یونانی دیوتاؤں کے مجسمے دکھائی دیتے تھے اور اب موہنجوڈارو کے کھنڈروں کی اینٹیں نظرآتی ہیں ۔۔بس یہی فرق ہے تب میں اور اب میں ۔۔
۔2003 میں جناب مستنصرحسین تارڑ کے رتی گلی کی جانب سفر کی تصویری جھلک۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...