جمعہ, دسمبر 12, 2014

"عشق نہ پُچھے ذات"

اُس کا اورمیرا ساتھ نہ جانے کب سے تھا۔ وہ میری محبت نہیں تھا۔۔۔ کبھی بھی نہیں تھا۔۔۔اُس نے مجھے کچھ بھی تو نہ دیا تھا۔۔۔نہ لمس۔۔۔نہ ذائقہ اورنہ ہی لذت۔ بس رنگ ہی رنگ تھا۔ہوا کی طرح اپنی مستی میں گم۔حیرت کی بات ہے کہ وہ میری دسترس میں تھا اور میں نے کبھی اُسے چھو کر محسوس نہیں کیا۔۔۔اُس کے بےرنگ ہوتے کھردرے بدن کو لبوں سے چھو کر رنگین کرنے کی بےمعنی خواہش تو دورکی بات اُس کی خوشبو اُس کی نرمی کو شاید ہی کبھی ہاتھ سے چھوا ہو۔بس وہ میرا تھا۔۔۔ میرے لیےتھا۔۔۔یہی کافی تھا۔ میرے بند کمرے کے دروازے کے باہر دیوار سے ڈھولگائےمیرا انتظار کرتا اورمیں اس سے نظر چرا کر گزر ہی نہ سکتی کہ وہ عین نظر کے سامنے منتظر ملتا۔اُس کا ہونا۔۔۔اُس کارقص کرنا۔۔۔اُس کا رنگوں سے مہک جانا پھراس کا اداس ہوجانا میرے لیے نئے موسموں کی نوید لیے ہوئے ہوتا۔یہ نہیں کہ میں اُسے جانتی نہیں تھی۔ میں بھی اکثر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتی تھی۔ کوئی ایسی یاد تھی جو مجھے یاد نہ پڑتی تھی۔
کسی شاعر نے کہا تھا۔۔۔
عمرایک ایسی بھی ہوتی ہے جس میں
اچھی لگتی ہے ہراِک بات حقیقت کےسوا
آج عمر کے ڈھلتے موسم میں اس بےنام محبت کے بارے میں سوچوں جس کی جڑیں وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی گئیں۔۔تو وہ ربط ۔۔۔ وہ بندھن "اداسی" کا تھا۔۔۔ایک منجمد آنسو۔۔۔ ایک بےآوازسسکی کی قربت کا تھا۔ جو برسوں بعد ضبط کے بندھن توڑ کر لفظ کی صورت کاغذ پرپھیل گیا۔اورٹوٹی مالا کی مانند خاموش چیخیں ہوا کے دوش پر بکھرتی چلی جا رہی ہیں۔
مٹی سے۔۔۔پودوں سے۔۔۔پھولوں سے اور درختوں سے میرا تعلق میری محبت روایتی نہیں تھی۔محبت ہو یا اُنسیت روایتوں کی محتاج نہیں ہوتی۔۔۔کب کوئی نگاہ،کوئی لمس،کوئی خوشبو،کوئی احساس روح کی گہرائی کو چھو جائے اور ہمیشہ ساتھ رہے شاید آخری سانس میں آخری یاد کی صورت۔اسی طرح ہمیں ملنے والی محرومیاں اور نفرتیں بھی کبھی ہمارے اندر سے باہر نہیں نکلتیں۔۔۔چاہے برداشت اورعفوودرگزر کے وقتی لبادوں سے ڈھانپ کر پُرسکون ہی کیوں نہ نظر آئیں۔اُن کی برہنگی ہمیشہ ایک آسیب کی طرح چپک کر احساس کو زخمی کرتی رہتی ہے۔
ایک شہری علاقے میں پلتے بڑھتے مٹی کا درد اس کا خوف یوں اندراترا کہ جاڑے کی بارشوں میں دادی کے گھر کی لپائی والی چھت کے پرنالے سے جب مٹی بہنے لگتی۔۔۔ توایک ننھی بچی اندرہی اندرسہم جاتی کہ ساری چھت "بہہ" رہی ہے۔۔۔گرنے والی ہے۔ شاید سوال بھی پوچھتی کہ چھت گرے گی تو نہیں؟۔ اس کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ سوال بہت کرتی تھی۔۔۔بےحساب کرتی تھی۔اس سے محبت کرنے والےجواب ضروردیتے۔اس مٹی کے گھر میں صرف "چھت" گرنے کا ہی عدم تحفظ تھا ورنہ محبتوں کے مضبوط حصار ایسے تھے کہ آج تک اسی طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔
 ہم بھی کیا لوگ ہیں۔۔۔ بچوں کےسوالوں کے جواب تو بڑے شوق اوردلچسبی سے دیتے ہیں۔لیکن! بڑے سوال کریں تو تمسخراُڑاتے ہیں۔ حالانکہ سوال تو سوال ہوتے ہیں۔سوال پوچھنے سے جواب دینے والے کی اہلیت کا پتہ چلتا ہے۔سوال وہی پوچھتا ہے جو سوچتا ہےاورجواب سے وہی انکار کرتا ہے جو جواب جانتا نہ ہو۔ اسی طرح زندگی میں بہت سارے سوال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا جواب سوائے ہماری ماں کے کوئی نہیں دے سکتا۔ اورہم بہت کم اپنی ماؤں سے پوچھتے ہیں۔۔۔ کبھی چھوٹے ہوتے ہیں تو جھجھک آڑے آتی ہے۔۔۔ذرا بڑے ہوتے ہیں تو بےوقوفی لگتی ہے۔۔۔ جب خود بڑے ہوجاتے ہیں تو ساری دنیا میں سب سے زیادہ بےوقوف مائیں ہی لگتی ہیں۔ جب مائیں بڑی ہوجاتی ہیں تو سوال بھول جاتے ہیں۔۔۔کھو جاتے ہیں۔ لیکن !!! جب مائیں چلی جاتی ہیں ہمیشہ کے لیے۔۔۔ تو یہ سوال پھر زندہ ہوجاتے ہیں اور کبھی زندگی کا سب سے اہم سوال بھی لگنے لگتے ہیں۔
ایسا ہی ایک سوال میرا بھی تھا جو امی کے سامنے کبھی بھی پوچھنے کی ہمت  نہ کرسکی۔ ہوا یہ کہ جب اپنی پہلی بیٹی کے لیے بہت سے رشتوں میں سے کسی ایک کے چننے کا وقت آیا توانہوں نےبچپن کی پرانی دوست کے اکلوتے آرمی آفیسر بیٹے کے مقابلے میں ایک نئی ملازمت والے دور پار کے بھرے پُرے خاندان کے بیٹے کے حق میں رائے دی۔اتنے برس گزر جانے کے بعد اس فیصلےکی اصل وجہ یا احساس کبھی معلوم نہ ہوسکا؟۔اب امی کے جانے کے دو سال بعد یہ "راز" بھی "صاحب" نے عام سے انداز میں بات کرتے ہوئے بتایا "کہ تمہاری امی کہتی تھیں کہ "جب ہم نے اپنا لان پکا کروایا تھا توبیٹی بہت اداس ہو گئی تھی"۔میرے لیے یہ بات کسی جھٹکے سے کم نہ تھی کہ میں نے تو کبھی بھی کچھ نہیں کہا؟کوئی گلہ شکوہ بھی نہیں کیا تھا؟۔ وہ کیسی ماں تھیں جنہوں نے ایک نئے گھر میں آ کر جب اس کے ہرے بھرے لان کو دیکھا تو انہیں اس میں اپنی بیٹی کی خواب آنکھیں ملیں اور شاید اسی لمحے انہوں نے فیصلہ کر لیا ہو کہ یہی وہ گھر ہے جہاں ان کی بیٹی خوش رہ سکتی ہے۔میں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے جانتی ہیں۔ ہمارے بیچ دوستی یا بےتکلفی کا رشتہ بالکل بھی نہیں تھا۔اس میں سراسر قصور میرا ہی تھا یا شاید میں اپنی ذات اوراصل کی تلاش میں اتنی محو تھی کہ کبھی باہرنکل کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملی اورانہوں نے بھی ہمیشہ ایک سیل بند نازک تحفے کی طرح سنبھال کر بہت احتیاط سےرکھا۔ہاں وہ مجھے جانتی تھیں میرے احساس کو سمجھتی تھیں۔۔۔جو چھوئی موئی کے پودے کی مانند پل میں بُجھ جاتا اوراگلے لمحےایسےکہ کچھ بھی نہ ہوا ہو۔۔۔انہیں پتہ تھا کہ ان کی بیٹی کے لیے زندگی کی آسائشوں سے زیادہ خواب اہم ہیں۔اب یاد کروں تو اپنے گھر کے لان میں جہاں میں بیٹھا کرتی تھی وہاں بھی عین اسی جگہ "باٹل برش" کا درخت تھا جیسا یہاں ہے۔ جب لان ختم ہوا تو شاید اس نے بھی میری اداسی کو محسوس کیا۔
 خیر یہ سب یاد کے اندھے کنوئیں میں دفن تھاجب تک کہ صاحب نے اپنےاس گھرمیں لگے"باٹل برش" کو کاٹنے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے کہا کہ یہ چھوٹے پودوں کی دھوپ روکتا ہے اسے نکالنا ہے تواسی پل یہ مجھے آواز دینے لگا۔
میں نے اُسے غور سے دیکھا۔ شاید سب جانے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ساری زندگی ہم ان کے وجود سے بےخبر رہتے ہیں۔۔۔ لیکن جیسے ہی کوچ کی گھنٹیاں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ ہماری سوئی ہوئی محبتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ انسان ساری زندگی توجہ کے لمس کا طلبگار رہتا ہے اور جب ہرضرورت سے بےنیاز ہونے لگتا ہے تو بےموسم کی بارش کی طرح سب اپنا اپنا حصہ ڈالنے آ جاتے ہیں۔
 نہ جانے ماں کی یاد تھی یا کیا تھا کہ وہ آنسو جن کا ایک قطرہ بھی ماں کے جانے پر نہ نکلا۔۔۔دو برس بعد جیسے ہی درخت کی ایک شاخ پر آری لگی تو کسی کی پروا کیے بنا بےقراری اور اذیت سے بہنے لگے۔ابھی تو شاخ نے کٹنا تھا سو کٹ گئی (یا میری وجہ سے صرف ایک شاخ پر ہی اکتفا کیا گیا؟ یہ نازک سوال میں نے ابھی تک نہیں پوچھاَ)۔ بعد میں میں نے سوچا کہ شجر تو ہم سے زیادہ سخت جان ہوتے ہیں۔آس پاس نظر دوڑائی تو سامنے ہی فالسے کا وہ درخت بھی تھا جس کا لگانے والا 30 برس پہلے دُنیا سے جاچکا تھا۔ اوراس کے ساتھی کی یاد میں ایک برستی طوفانی رات آج بھی تازہ تھی جب وہ ایک چھوٹے سے پودے کے لیے فکرمند تھے اوراسے بچانے کے لیے باہر نکلنا چاہ رہے تھے۔20 ستمبر 1984 کو رحلت سے پہلے انہوں نے اس کا پہلا پھل توڑا اور ذائقہ بھی چکھا تھا۔
 مجھے ایسا لگا جیسے بڑوں اور بچوں کے ساتھ یہ درخت بھی مجھ پر ہنس رہا ہے۔۔۔اور حیرانی سے کہتاہے کہ تم میرے جانے کا دُکھ کرتی ہو۔۔۔ لیکن! نہیں جانتیں کس کی قضا پہلے لکھی جاچکی ہے؟درخت کی آنکھوں سے اپنے قریب دیکھا تو پتہ چلا کہ میرےسامنے کتنے ہی پھل دار درخت اپنے حصے کی زندگی گزار کر،خوب پھل دے کر ختم ہو گئے۔۔۔ پھر نئے درخت نئے پھلوں نے اُن کی یاد بھی بھلا دی۔
میں سوچتی ہوں  کہ اگر درختوں کی زبان ہوتی تو نہ جانے اُن کے پاس زمانے کی بےثباتی کی کون کون سی کہانیاں ہوتیں۔ اور وہ مجھے ملامت کرتے شاید اسی کا نام زندگی ہے اور شاید اسی کا نام محبت ہے۔ وہ محبت جس کی پہچان جس کی پرکھ کے لیے ہم دردر پھرتے ہیں اور کہیں سے بھی سراغ نہیں ملتااور جب ملتا ہے تو بقول شاعر
"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی"
میں نے جانا کہ آنکھ کھلی ہو تو ہرمنظر کے اندر نظارے ہی نظارے ہیں۔ جب باٹل برش کو قریب سے دیکھا تو اس
کے تنے کی ندرت اوراس کے گرد لپٹی موتیے کی بیل نے مسحور کر دیا۔ محبت واقعی احساس کا نام ہے ۔اس کا لینے۔۔۔دینے۔۔۔چھونے۔۔۔پانے۔۔۔کہنے یا صرف اپنی ملکیت بنا کر کسی اورکی نظر سے بھی بچا کر قبضہ کرنے کی خواہش کا نام نہیں۔ محبت صرف یقین کا نام ہے وہ یقین جو لمحۂ موجود میں جنم لیتا ہے تو ماننے میں آخری سانس تک کا در کھلا ہے۔میرا ایمان تو تھا پراپنی آنکھ سے بھی دیکھ لیا کہ ماں اوراللہ کی محبت میں کوئی نہ کوئی ربط ضرور ہےاورمحبت کا جواب ضرورملتا ہے۔ میں نے اپنے آنسوؤں سے جانا کہ اظہار بہت ضروری ہے قرار کے لیے۔ اور جب اظہار کر دیا جائے تو محبت خود ہی تسلی دے دیتی ہے۔۔۔رہنمائی کر دیتی ہے اورصبرعطا کر دیا جاتا ہے۔انسان کسی چیز کے لیےاس وقت تک بےچین ومضطرب رہتا ہے جب تک کہ وہ اس کی دسترس میں رہ سکتی ہے۔
 مجھے اپنی نادانی سے یہ بھی پتہ چلا کہ انسان کتنابےوقوفی کی حد تک خودغرض ہے کہ جو چیز اپنی ہے ہی نہیں اس پر اپنا اختیار سمجھتا ہےاوراس کی "حساسیت"صرف اپنے مطلب کی چیزوں سے ہی وابستہ رہتی ہے۔
 میری ناسمجھی نے مجھے بتایا کہ تخیل کی انتہا پرجا کر رقص کرتے ہوئے نگاہ اپنے قدموں پرمرکوزرہے تووہ مٹی کی نمومیں پیوست اورزرخیزرہتے ہیں اُن سےنکلتی خواہشوں کی لاتعداد جڑیں جہاں جذبات کی آندھیوں اور بےمہرطوفانوں میں سہارا دیتی ہیں۔۔۔وہیں فرار کی بےسود کسک کی اصلیت سےآگاہ کرتی ہیں۔
 گھنا اورپھل داردرخت آفتِ ناگہانی اورقضا کے حکم سے تو فنا ہو سکتا ہے لیکن اسے خود سے اُکھاڑ کر کسی دوسری جگہ کبھی بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
!آخری بات
ہر رشتہ۔۔۔ہر رویے۔۔۔اور ہراحساس کو پانے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ہمیں بہرطورچکانا پڑتی ہے۔جانے ان جانے میں ہم ادا بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن شاید بہت کم سمجھ آتا ہے کہ"کس کی قیمت " پر "کیا" حاصل کر رہے ہیں۔ اسی لیے مایوسی اور خودترسی کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں تو کبھی خودفریبی کے صحرا میں برہنہ پا کسی نخلستان کی اُمید پر بس چلتے چلے جاتے ہیں۔
 ۔"عزت کی قیمت پر زندگی گزاردیتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ہمارے خوابوں کی قیمت تھی"۔
۔۔۔۔۔۔
میرے کمرے کے دروازے سے جھانکتا منظر ۔۔
 پہلے فالسے کا درخت اور دور گیٹ کے پاس  'باٹل برش 
بوٹل بُرش کا تنا اور اس سے لپٹی موتیے  کی بیل۔۔۔۔۔

باٹل برش ۔۔۔ خزاں کی اداسی لیے ۔۔
 چار دسمبر 2014
تیس برس پرانا فالسے کا درخت ۔۔۔
  خزاں  کی قربت اور پھرجون کے آغاز میں۔۔۔


اسلام آباد  کا لان جو پکا کرا دیا گیا۔۔
 

3 تبصرے:

  1. خوش رہیں. ....لکهائی میں بہت نکهار ہے..... خوبصورت لکها

    جواب دیںحذف کریں
  2. یکم اگست 2015
    حسن یاسر نے کہا۔۔۔۔
    اچھی بات یہ ہے کہ دل ابھی تک محبت کے نام سے آشنا ہے آنکھیں خوابوں سے خالی نہیں ہیں۔ زندگی کے نشیب وفراز سے گزر کر سوچ زخمی ضرور ہوئی ہے لیکن ناسور نہیں ہوئی۔ آج بھی آپ کے اندر کی دلکشی سلامت ہے۔ وقت سب کچھ بدل سکتا ہے اور بدل دیتا ہے لیکن محبت بھرا دل اس کی دسترس میں نہیں آتا۔ خیال کی رعنائی قائم رہے اور احساس کی دل پذیر خوشبو اسی طرح آفاقیت کے پیغام دیتی رہے تو بقول شاعر ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...