اپنے ذاتی مسائل سےاُلجھتے،معاشرے کے حالات پر کڑھتے اورسیاست کے تڑکے پرطنز کرتے ہوئے پکے گھروں میں رہنے والے دوسرے پاکستانیوں کی طرح ہم سب اپنے حال میں مست رہتے ہیں۔ دہشت گردی، حادثات اور ناگہانی آفات کی خبریں صرف خبریں ہی رہتی ہیں جب تک ہم ان کا حصہ نہیں بنتے۔ بظاہر ہر فورم پر کتنی ہی بےچینی کا اظہار کریں لیکن اندر سے مطمئن ہوتے ہیں۔۔۔لاشعوری طور پر ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے رشتےناطے،محبتیں نفرتیں ہمارے اپنے حصارکے اندر ہی پھلتی پھولتی ہیں۔ ہم سب دبے لفظوں " سانوں کی" کی گردان کرتے اپنے روزوشب بِتاتے چلے جاتے ہیں۔عورت ہو یا مرد اُن کی "حساسیت" اپنے مفاد کی چھاؤں میں ہی پروان چڑھتی ہے۔اسی طرح ماؤں کے لیےاُن کے اپنے بچے۔۔۔ اُن کے دکھ ۔۔۔اُن کے سکھ ہی خاص ہوتے ہیں۔
لیکن!مامتا کا جذبہ سانجھا ہے۔ ماں کا احساس ایک ماں سےبہترکوئی نہیں جان سکتا۔ چاہے وہ تخلیق کا اولین کرب ہو یا جدائی کی گھڑی کے طویل ترہونے کا احساس۔وہ ماں جس کے بچے اس کے ساتھ۔۔۔اس کے پاس رہتے ہیں۔اس کی زندگی کا جواز۔۔۔ اوراس کے صبح وشام کا حساب بھی ہوتے ہیں۔ صبح اگر ان کے کاموں سے شروع ہوتی ہے تو رات ان کو سلا کر آنکھیں موندتی ہے۔ وقت دبے پاؤں گزرتا ہے۔۔۔بچے بڑے ہوجاتے ہیں ماؤں کے قد سے بھی بڑے لیکن ماں کا دل کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ پرندوں کی طرح اڑنا سکھانے کے بعد خوشی خوشی پرواز کی اجازت دینے تک بھی رات کے بڑھتے سائے اسے بچوں کی بخیریت گھر واپسی کا دھڑکا لگا دیتے ہیں۔ ایک ماں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا سکون آور لمحہ رات کو اس کے بچوں کا اپنے اپنے بستروں پر موجود ہونا ہے۔رات اگر رازداں ہے تو رات بہت ظالم اور بےحس بھی ہے کہ اس کی تاریکی انسان کو راہ سے بھٹکاتی ہے تو تنہائی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اوراذیتوں سے نبٹنے کا حوصلہ بھی کھو دیتی ہے۔ جس طرح ہردن کے بعد رات اوررات کے بعد دن طلوع ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح غم کے دن کے بعد آنے والی رات اس سے بڑھ کر سیاہ اورناقابل برداشت ہوتی ہے۔بےشک اللہ کسی نفس پراس کی طاقت سے بڑھ کربوجھ نہیں ڈالتا۔لیکن! آہ! وہ پہلی رات۔۔۔ وہ لمحہ اس کا تصور ہی بڑا کرب ناک ہے جب ایک ماں دن کا آغاز بچے کو اٹھانے سے کرے اور رات کواپنے بچے کا بسترہمیشہ کے لیے خالی پائے۔ اور اور اگر اس کا بےجان لاشہ گھر کے آنگن میں پل دوپل کا مہمان ہو تو یہ رات کٹ بھی جائے لیکن اس کا دل بھی اس کے ساتھ کٹ جاتا ہے۔
! آخری بات
بچے کی ہمیشہ کے لیے جدائی کے بعد آنے والی پہلی رات اگر ماں کےصبرورضا کا اصل امتحان ہے تومائیں بھی سدا بچوں کے ساتھ نہیں رہتیں۔۔۔چاہے بچے کتنے ہی بڑے ہو جائیں۔۔۔ اورمائیں اپنا فرض اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہو جائیں۔ لیکن ان کے جانے کے بعد آنے والی پہلی صبح کی خاموشی ایک عجیب سی تنہائی اندر اتار دیتی ہے۔۔۔ایک خاموش چیخ جسے صرف اپنے کان ہی سن سکتے ہیں۔بےوزنی کا احساس جیسے مرکز ثقل ختم ہو گیا ہو۔ماں کی زندگی اگر بچے کے گرد گھومتی ہے توماں جانے کے بعد بچے کو دکھائی دیتی ہے۔ اس سمے صرف اُس کا اپنا کاندھا اُس کا رازدار ہوتا ہے یا پھر جو اس درد سے آشنا ہو۔
"اللہ اکبر"
آرمی پبلک اسکول میں بدترین دہشتگردی ۔۔۔۔سانحہ پشاور کے پسِ منظر پر ایک تحریر۔)
لیکن!مامتا کا جذبہ سانجھا ہے۔ ماں کا احساس ایک ماں سےبہترکوئی نہیں جان سکتا۔ چاہے وہ تخلیق کا اولین کرب ہو یا جدائی کی گھڑی کے طویل ترہونے کا احساس۔وہ ماں جس کے بچے اس کے ساتھ۔۔۔اس کے پاس رہتے ہیں۔اس کی زندگی کا جواز۔۔۔ اوراس کے صبح وشام کا حساب بھی ہوتے ہیں۔ صبح اگر ان کے کاموں سے شروع ہوتی ہے تو رات ان کو سلا کر آنکھیں موندتی ہے۔ وقت دبے پاؤں گزرتا ہے۔۔۔بچے بڑے ہوجاتے ہیں ماؤں کے قد سے بھی بڑے لیکن ماں کا دل کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ پرندوں کی طرح اڑنا سکھانے کے بعد خوشی خوشی پرواز کی اجازت دینے تک بھی رات کے بڑھتے سائے اسے بچوں کی بخیریت گھر واپسی کا دھڑکا لگا دیتے ہیں۔ ایک ماں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا سکون آور لمحہ رات کو اس کے بچوں کا اپنے اپنے بستروں پر موجود ہونا ہے۔رات اگر رازداں ہے تو رات بہت ظالم اور بےحس بھی ہے کہ اس کی تاریکی انسان کو راہ سے بھٹکاتی ہے تو تنہائی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اوراذیتوں سے نبٹنے کا حوصلہ بھی کھو دیتی ہے۔ جس طرح ہردن کے بعد رات اوررات کے بعد دن طلوع ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح غم کے دن کے بعد آنے والی رات اس سے بڑھ کر سیاہ اورناقابل برداشت ہوتی ہے۔بےشک اللہ کسی نفس پراس کی طاقت سے بڑھ کربوجھ نہیں ڈالتا۔لیکن! آہ! وہ پہلی رات۔۔۔ وہ لمحہ اس کا تصور ہی بڑا کرب ناک ہے جب ایک ماں دن کا آغاز بچے کو اٹھانے سے کرے اور رات کواپنے بچے کا بسترہمیشہ کے لیے خالی پائے۔ اور اور اگر اس کا بےجان لاشہ گھر کے آنگن میں پل دوپل کا مہمان ہو تو یہ رات کٹ بھی جائے لیکن اس کا دل بھی اس کے ساتھ کٹ جاتا ہے۔
! آخری بات
بچے کی ہمیشہ کے لیے جدائی کے بعد آنے والی پہلی رات اگر ماں کےصبرورضا کا اصل امتحان ہے تومائیں بھی سدا بچوں کے ساتھ نہیں رہتیں۔۔۔چاہے بچے کتنے ہی بڑے ہو جائیں۔۔۔ اورمائیں اپنا فرض اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہو جائیں۔ لیکن ان کے جانے کے بعد آنے والی پہلی صبح کی خاموشی ایک عجیب سی تنہائی اندر اتار دیتی ہے۔۔۔ایک خاموش چیخ جسے صرف اپنے کان ہی سن سکتے ہیں۔بےوزنی کا احساس جیسے مرکز ثقل ختم ہو گیا ہو۔ماں کی زندگی اگر بچے کے گرد گھومتی ہے توماں جانے کے بعد بچے کو دکھائی دیتی ہے۔ اس سمے صرف اُس کا اپنا کاندھا اُس کا رازدار ہوتا ہے یا پھر جو اس درد سے آشنا ہو۔
"اللہ اکبر"
آرمی پبلک اسکول میں بدترین دہشتگردی ۔۔۔۔سانحہ پشاور کے پسِ منظر پر ایک تحریر۔)
اللہ نے اس دنیا میں ماں کا نعم البدل نہیں بنایا
جواب دیںحذف کریںگنگ سا پو گیا ہوں۔ ماں کے لیے بچہ ضروری ہوتا ہے یا بچے کے لئے ماں؟ خالی بستر تو دونوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ضروری دونوں ہی ہیں ایک دوسرے کے لیے لیکن ماں کی نکلیف زیادہ ہے کہ جس نے تخلیق کا کرب بھی سہا۔ بہت عمدہ تحریر نورین!
جواب دیںحذف کریںFarooq Hayat
جواب دیںحذف کریںJan 14, 2015
Beautiful thought, lucidly expressed and huntigly moving. Indeed only a mother can feel this pain.
16۔دسمبر 2014 کے خون آشام دن کی کرب آلود ڈھلتی شام اور بےخواب رات کی سرگوشیاں ۔۔۔۔جن کا لفظ لفظ بنا کسی ایڈٹ کے بدھ 4 فروری 2015 کو مڈ ویک میگزین روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
جواب دیںحذف کریںاخبار میں اشاعت کا لنک
http://magazine.jang.com.pk/arc_detail_article.asp?id=26197
19 ستبمر 2016 کو "دلیل" پر شائع ہوا
جواب دیںحذف کریںhttp://daleel.pk/2016/09/19/7669