الاسکا ہائی وے پڑھتے ہوئے میرا احساس ۔۔۔۔
۔"الاسکا ہائی وے" محض ایک کتاب یا سفرنامہ ہی نہیں بلکہ لفظ کی مصوری کا عظیم شاہکار ہے۔اس دور دراز جگہ کے بارے میں اردو ادب میں اگر پہلی کتاب ہے تو یقیناً یہی آخری بار بھی ہے۔کتاب میں لکھے گئے لفظ جب اس مقام کی تصاویر دیکھنے کے بعد ذہن میں چمکتے ہیں تو دل جہاں ربِ کائنات کی صناعی پر سجدۂ شُکر ادا کرتا ہے وہیں ایک انسان کی صلاحیت،اُس کی محسوس کرنے کی حس کی خوبصورتی اور پھر اُس سے بڑھ کر بےمثال عمدگی سے لفظ میں محفوظ کر کے سب کے سامنے پیش کرنے کا اعتماد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے یقین پر مہر ثبت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
الاسکا ہائی وے۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
سفر۔۔۔ ستمبر 2006
اشاعت۔۔۔ 2011
انتساب ۔۔
چنار کے ایک خزاں رسیدہ پتے کے نام۔۔
کُونج کے نام جو میری سفری رفیق تھی۔۔
اور یار ِ بےمثال تلمیذ حقانی کے نام۔۔۔
صفحہ۔۔۔107
اگرمجھ سے یہ دریافت کیا جائے کہ تم نے آج تک جتنے منظر نظروں کے سامنے پائے ہیں تو ان میں سے کن سات قدرتی عجائبات کا انتخاب کرو گے تو میں بہرطور شش وپنج میں پڑجاؤں گا اورفیصلہ نہ کرپاؤں گا۔ البتہ میری گردن پر ایک تیزدھار جاپانی سمورائے کی تلوار رکھ دی جائے کہ انتخاب کرو ورنہ جان سے جاؤ گے تو میں مجبوراً مندرجہ ذیل فہرست پیش کردیتا۔
٭1۔۔نانگاپربت کے دامن میں واقع گڈاولڈ فئیری میڈوز۔
٭2 کنکورڈیا کے برف زارجن پر شاہ گوری کی برفیں اُمڈتی ہیں۔
٭3 دُنیا کے طویل ترین برفانی راستے میں پڑتی سنو لیک۔
٭4 دیوسائی اےدیوسائی۔
٭5 ترشنگ کا گاؤں اور وادی روپل
٭6رتی گلی ، کرومبر اور سرال کی جھیلیں۔
٭7وادی کالاش،چترال میں اورترچ میر کی چوٹی۔
یقینی سات قدرتی عجائبات تو یونہی تمام ہوگئے لیکن یہ کہاں درج ہے کہ وہ صرف سات ہی ہوسکتے ہیں۔نو بھی تو ہوسکتے ہیں۔اس لیے
٭8 ڈاسن سٹی کے آسمان پر لہراتی شمالی روشنیاں۔
٭اور یہی"ٹاپ آف دی ورڈ روڈ"۔
صفحہ۔۔۔109
کچھ چہروں گیتوں اور منظروں کاچرچا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ دورافتادگی کی دھند میں روپوش ہوتے ہیں۔
صفحہ۔۔۔90
"ڈاسن سٹی کا چاند نگر۔۔۔شہردل کی گلیوں میں "
"ال ڈیراڈو ہوٹل۔۔۔"
ال ڈیراڈو۔۔۔ایک چاند نگر۔۔۔
صفحہ۔۔۔93
اُن کے عطا کردہ شعری مجموعے "چاندنگر"کے خستہ ہوتے پہلے ورق پر"مستنصرحسین تارڑ کے لیے۔۔۔ابنِ انشاء" 30/9/72 درج ہے تو یہ وہی چاند نگر ہےجہاں انشاء جی تو نہ پہنچے پر میں پہنچ گیا،وہ لکھتے ہیں۔۔
۔"ایڈگرایلن پوکی ایک نظم ہے ال ڈے راڈو۔۔۔یعنی شہرِتمنا۔۔۔اگر تمہیں اس شہرجادو کی تلاش ہے تو چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادیءطویل میں قدم بڑھائے گھوڑا دوڑاتے آگے سے آگے بڑھتے جاؤ۔شاعر کو بھی ذہنی طور پر سندبادجہازی یا یولیسس ہونا چاہیے یعنی اُس کے سامنے ایک نہ ایک ال ڈے راڈو ۔ایک نہ ایک چاندنگر کا ہونا ضروری ہے۔ سنا ہے اگر جادو کے موہوم شہروں کی طلب میں جولاں رہنے والے دیوانے نہ ہوتے تو یہ زندگی بڑی ہی سپاٹ اور بےرنگ ہوتی۔ لیکن نہ مجھے اپنا حُسن کا ال ڈےراڈو ملا ہے نہ زندگی کا شہرِ تمنا"۔
ابنِ انشاء کو اپنے حسن کا ال ڈے راڈو نہ ملا اورنہ ہی کوئی شہرِتمنا یا چاندنگر نصیب ہوا لیکن ڈاسن سٹی کی صورت میں وادیء یوکان میں خوابیدہ وہ مجھے مل گیا۔
صفحہ۔۔۔94
شہرِدل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بےقرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی
شہرِدل کی گلیوں میں
بےحساب تنہائی
بےحجاب تنہائی
شہر دل کی گلیوں میں۔۔۔
ڈاسن سٹی کی اس شب تاریک میں جاں گداز تنہائی ۔۔۔بےحساب تنہائی۔۔۔ بےحجاب تنہائی،شہر دل کی گلیوں میں۔۔۔صفحہ۔۔۔95"چاند نگر کے آسمان پر شمالی روشنیوں کے رنگین لہراتے سانپ"۔
صفحہ۔۔۔96
اس چاندنگر کی شب میں جاں گداز تنہائی ۔۔۔بےحساب تنہائی۔۔۔ بےحجاب تنہائی اور آسمانوں پر رنگوں کی ایک رام لیلا کھیلی جارہی ہے۔۔ایک ناٹک رچایا جارہا ہے۔
یہ شمالی روشنیاں کیا ہیں؟ اس کے بارے میں بہت سی تاویلیں ہیں،سائنسی دلائل ہیں اور کچھ توہمات بھی ہیں۔۔۔یعنی آرکٹک کے نواح میں جو آسمان ہیں اُن کے تلے بےشک پوری دُنیا کی مانند رات ڈیرے ڈالتی ہے لیکن کہیں دوردراز کے برف زاروں میں ابھی دن ہے،سورج کی زرد کرنیں بکھرتی ہیں تو یہ اُن کرنوں کا کرشمہ ہے کہ وہ تاریکی کی چادر پر۔۔۔وہ چادر جو آسمانوں پر بچھی ہے اُس پراترتی ہیں اور یوں وہاں عجوبہ رنگ تخلیق ہوتے ہیں اور وہ لہرئیے سانپوں کی مانند آسمان پر سرکتے اور کوندنے لگتے ہیں۔ وہ جو مولانا روم کے استفسار پر شمس تبریز نے کہا تھا کہ یہ وہ ہے جس کی تمہیں خبر نہیں تو ڈاسن سٹی کی رات میں جو کچھ آسمان کے سٹیج پر رنگوں کی صورت لہراتا ،دمکتا ،حرکت کرتا تھا۔سرسراتا دکھائی دیتا تھا یہ وہ تھا جس کی مجھے بھی خبر نہ تھی۔
اگر میں باہر کی دُنیا کو۔۔۔اس معجزے کی خبر کرتا ہوں اور وہ یقین نہیں کرتے تو پھر ان کو بھی کچھ خبر نہیں۔۔۔ انہیں معاف کردو کہ یہ نہیں جانتے۔
۔ 98۔۔۔آسمان کی سٹیج پر رنگ رنگیلے اداکار داخل ہوتے تھے۔۔تماشائیوں پراپنے اپنے رنگ کی پھوار ڈالتے انہیں بھگوکر اگلے پل سٹیج خالی کر دیتے۔
۔99۔۔ پھر یوں ہوا کہ ڈاسن سٹی پر تنے نیلگوں خیمہ آسمان پر سرکتے سورنگ سوہنےسانپ۔۔۔رنگوں کے جواربھاٹا آبشاریں اور جھرنے،کوندتے لہرئیے،یکدم تمام ہوئے،پردہ گر گیا۔ناٹک تمام ہوا،تماشا ختم ہوا۔۔۔آسمان تاریک اور چپ رہا۔اس میں سے کوئی پھلجھڑی چھوٹی اورنہ کوئی رنگوں کا جگنو ٹمٹمایا۔اُس آسمان کے صحرا میں قلانچیں بھرتے رنگ رنگ کے جتنے غزال تھے،رخصت ہوگئے۔ معجزے تادیر نہیں رہتے۔ طورکی جھاڑی تادیر روشن نہیں رہتی۔یوسف کو خریدنے والی بڑھیا بھی تھک ہار جاتی ہے۔۔۔اورنہ ہی کوئی بیمار ابد تک دم عیسیٰ کا منتظر رہتا ہے۔۔
نہ پری رہی ،نہ جنوں رہا۔
یہ سرائے ہے،یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
یاں تو آتے ہیں مسافر،سو چلے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ 67۔۔۔۔پاکستان۔۔۔۔۔ میرا گھر۔۔۔۔۔زیروکلومیٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن دنوں الاسکاہائی وے تعمیر ہو رہی تھی اور آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل شاہراہ صرف آٹھ ماہ اور بارہ دنوں کے اندر تکمیل کے مراحل طے کر گئی تو اس کی تعمیر میں شامل ایک امریکی مزدور جی آئی لنڈ لے یہاں واٹسن لیک کی بے مہر اور سرد ویرانی میں اپنے گھر کے لیے۔۔۔ہزاروں کلو میٹر دور امریکہ کی کسی ریاست میں واقع اپنے گھر کے لیے اتنا اداس ہوا کہ اس نے ویرانے میں ایک بورڈ نسب کر دیا کہ یہاں واٹسن لیک سے میرا گھر اتنے کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔۔۔پھر وہاں اس شاہراہ کی تعمیر میں جتنے بھی اپنے اپنے گھر کے لیے اداس ہونے والے لوگ تھے انہوں نے ایسے بورڈ نصب کرنے شروع کر دیئے کہ میں ہنری جیکسن۔۔۔۔۔اپنے اور یگان کے گھرسے۔۔۔تین ہزار کلو میٹر دور ہوں اور
یوں سائن پوسٹوں کا ایک جنگل نمودار ہوتا گیا اور لمحہ موجود میں وہاں پچاس ھزار سائن پوسٹ ایستادہ ھیں۔
ہمارا قافلہ ناشتے سے فارغ ہو کر ایئرفورس لاج سے نکلا تو ابھی جیپوں کے انجن گرم نہیں ہوئے تھے جب دائیں جانب وہ
سائن پوسٹ جنگل نظر آگیا ۔۔۔۔۔میرا جی چاہا کہ رک جائیں اور میں وہاں ایک سائن بورڈ آویزاں کر دوں جس پر رقم ہو۔۔۔پاکستان۔۔۔۔۔۔میرا گھر۔۔۔۔۔زیروکلو میٹر۔۔۔۔۔۔کہ وہ میرے دل میں ہے۔۔۔
صفحہ192۔۔۔
اگر تلمیذ اور مقبول ( مقبول جہانگیر) نہ ہوتے تو میں آج گمنام ستر برس کا بوڑھا ہوتا ،جس کے تحریر کردہ سفرنامے جن لکیردار کاغذوں والے رجسڑوں پر لکھے گئے تھے وہ کب کے بھربھرے ہو کر خاک میں خاک ہو چکے ہوتے ۔۔
صفحہ 193۔۔۔
مجھےگزشتہ حیات میں خالص پاسے کے سونے کے بنے ہوئےصرف تین دوست نصیب ہوئےہیں، خاور زمان۔سنگِ میل کے نیاز احمد اور تلمیذحقانی۔ان تینوں کی محبت اور بےوجہ خلوص نے مجھ کھوٹے کو ایسا کھرا کیا کہ میرا سکہ ہرسو بجنے لگا۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آج میں جو ہوں،یہ نہ ہوتا۔
صفحہ۔۔۔143
جے22 گلبرگ3( لاہور)۔۔۔
مستنصرحسین تارڑ کا گھر۔ تقریباً چالیس برس کے عرصے میں اور 31 دسمبر 2015 کی شام تک،،، جنوری 2016 میں وہ ایک نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔
گھر پہ لگی نام کی تختی۔۔۔۔
الاسکا ہائی وے پر سفر کے دوران کھینچی گئی تصاویر،جناب تارڑ کے آفیشل فیس بُک پیج سے
ماؤنٹ سین فرڈ… گلین ہائی وے (اینکریج ٹو ٹوک)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں