آخری بار۔۔۔۔
آٹھ روزگزر گئے جانے کتنے رو ز۔۔۔کتنے برس۔۔۔ اسی طرح گزرجائیں۔ایک ہفتہ پہلے آج کے دن بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے آخری ناشتہ تیار کیا۔۔۔آخری باراُن کا یونیفارم استری کیا۔۔۔آخری بار انہیں ان کے بستروں سے اٹھایا۔۔۔آخری بار ان پر صبح صبح جھنجھلائیں۔۔۔آخری بار ہی انہیں ان کے شوہروں سے ڈانٹ پڑی ہو گی کہ تمہارے لاڈ نے ہی بچوں کو خراب کیا ہے۔۔۔اُن ماؤں نےآخری بارہی دل میں سوچا ہوگا۔۔۔جانے یہ بچے کب بڑے ہوں گے؟کب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے؟ کب ہماری گودوں سے اتریں گے؟ اور کب ہم اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے کچھ کر سکیں گی؟۔ اور اور۔۔۔ آخری بار ہی بچوں کے گھروں سے جانے کے بعد سکھ کا سانس لیا ہو گا۔۔۔ان کا بچا کچا کھایا ہو گا۔۔۔ان کے بکھرے کپڑے سمیٹے ہوں گے۔۔۔ان کی لاپرواہی اور سستی پر دل ہی دل میں اپنی تربیت کی خامی پر شرمندہ بھی ہوئی ہوں گی یا سوچا ہو گا کہ ہم بھی تو بچپن میں ایسے ہی تھے۔۔۔اپنی ماؤں کو یاد کیا ہو گا کہ انہوں نے کس طرح سے ہمیں پال پوس کرجوان کیا۔ اس افراتفری کے بعد جب سوچا ہو گا تو بہت سی ماؤں کو یاد آیا ہو گا کہ بچے نے ٹھیک سے ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔ یا لنچ گھر بھول گیا تھا۔۔۔یا وہ کینٹین سے کچھ کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا اور ہم نے پیسے نہیں دئیے۔۔۔یا آج ہم نے اس کے ساتھ زیادہ ہی زیارتی کر دی۔۔ وہ چھٹی کرنا چاہ رہا تھا اسے زبردستی اسکول بھیج دیا۔ انہوں نے آخری بار ہی سوچا ہو گا کہ آج اس زیارتی کی تلافی کر دوں گی۔۔۔آج اس کے لیے اس کی پسند کا کچھ بناتی ہوں۔۔۔اور کچھ نہیں تو آج اس کو دوپہر کے کھانے پر پراٹھا بنا دوں گی۔اکثر دوپہر کواس کی پسند کا کھانا نہ ہو تو کہتا ہے کہ پراٹھا بنا دیں اورمیں ڈاٹتی ہوں کہ پراٹھا تو ناشتے میں ہی ملتا ہےتم بہت نخرے کرتے ہو۔۔۔بہن بھی خفا ہوتی ہے کہ آپ کو بس اپنے" شہزادے" کی ہی پروا ہے۔ خیران ماؤں کو آخری بارہی یقین آیا ہو گا کہ وہ اپنےبچوں کو منا لیں گی۔ اور۔۔۔۔دن ڈھلنے تک ایک قیامت کا سامنا کر کے آخری بار ہی انہوں نے "صبر" کا تلخ ذائقہ چکھا ہو گا۔ اوراگلے دن کی صبح دوسروں کی خاطر جینے کے لیے ان ماؤں نے ایک نئی زندگی شروع کی ہو گی۔اپنے اہل خانہ کو حوصلہ دیا ہو گا۔۔۔دوسروں کی تعزیت پران کا شکریہ ادا کیا ہو گا اورشاید گھر کے روٹین کے کام بھی شروع کر دیے ہوں گے۔
آٹھ روز گزر گئے اورشاید اسی طرح باقی زندگی بھی گزر جائے گی کہ کسی ماں کی اپنے بچے سے جدائی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔ ماں کی محبت اورجذبات کی بہت مثال دی جاتی ہے لیکن ماں کی قوت برداشت کا پیمانہ کبھی بھی کوئی جانچ نہیں سکا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اولاد کا اولین لمس۔۔۔ جنم دینے کی تکلیف ایک لٹمس ٹیسٹ ہےجو اتنی شدت کی ہے کہ شاید دنیا کا سب سے مضبوط اعصاب کا مرد بھی اس پر پورا نہ اتر سکے۔اگررب نے اس تکلیف کو برداشت کرنے کا ہنر عطا کیا ہے اور اپنی کتاب میں اس کرب کا ذکر پوری صراحت کے ساتھ بی بی مریم کے حوالے سے بیان فرمایا ہے تو پھر دنیا میں اولاد سے ملنے والے دکھ اس کا ذرا سا حصہ ہیں اور موت جو برحق ہے اس کو ماننا ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے اس سے انکار کی تو گنجائش ہی نہیں۔بےشک ماں کے لیے اولاد کی موت ایک نہ بھولنے والا صدمہ اور ہمیشہ کی اذیت ہے۔ماں شہید کی ہو تو ایک عجیب قوت سے اس دکھ کا سامنا کرتی ہے۔۔۔ پل پل اپنے بچے کو موت کے منہ میں جاتا دیکھے تو برف کی چٹان بن کر اپنے دکھ کے آتش فشاں کو سنبھال لیتی ہے۔ وہ بوڑھی مائیں بھی عجیب کیفیت میں زندہ رہتی ہیں جن کے جنازوں کو کاندھا دینے والے انکے سامنے چلے جاتے ہیں۔
وہ مائیں جن کے جیتے جاگتے بچے گزشتہ ہفتےانسانیت سوز دہشت گردی کا نشانہ بنے وہ تو اپنے بچوں کے ساتھ ہی زندہ قبر میں دفن ہو گئیں۔۔۔ان کے ساتھ خود بھی ہر سودوزیاں سے آزاد ہو گئیں کہ اب بچا ہی کیا جوکوئی لُوٹ سکے۔
اس ماں کے کرب کا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو آخری بارہر ہر مرحلے سے گزر گئی۔ لیکن!!! اس ماں کی چیخیں کون سنے جو اپنے دل کا درد ذہن میں لاتے ہوئے خود بھی ہزار بار سوچتی ہے۔۔۔سر جھٹکتی ہے۔اپنا واہمہ ،مفی طرزِفکر کہہ کر دوسروں کی طرح "سب اچھا ہے۔۔۔اچھا ہو جائے گا" سوچنا چاہتی ہے۔
آج کا سب سے بڑا دکھ سب سے بڑی مایوسی اور سب سے بڑھ کر بےچینی پاکستان میں بسنے والی ان ماؤں کی ہے جو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن ہر صبح وہ اپنے بچوں کو رخصت کرتی ہیں تو شام کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔۔۔ایک فلم سی ذہن میں چلنے لگتی ہے دوسرے لفظوں میں ری وائنڈ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ آخری بار صبر کا جام پی کراُن ماؤں کی زندگی کا ایک باب تو مکمل ہو گیا چاہے زبردستی بند کر دیا گیا ۔لیکن وہ مائیں جن کی زندگی کے ورق کھلے ہیں ان کو خوف اورشدید غصے سے زیادہ جذباتی استحصال کی چبھن ہے کہ روح میں پیوست کانٹے کی مانند اندر ہی اندر بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں صرف ابتدائی طبی امداد دی گئی یا پھر"ہو جائے گا،ہونا چاہیے، ہو رہا ہے،کر دیں گے، کر رہے ہیں"۔۔۔ کی نہ ختم ہونے والی گردانیں۔۔۔۔ کتنا ہی غم وغصہ کیوں نہ ہو ان وعدوں اورتسلیوں سے قوم بحیثیت مجموعی ہمیشہ سے بہلتی چلی آئی ہے۔۔۔امید کی شمع ہرآندھی طوفان میں ہمیشہ لرزتی رہی پر بجھی کبھی نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ درندوں سے بڑھ کر انسان نما درندوں نے اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ اس سانحے سے منسلک کسی شیطان نما انسان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا؟فرض کریں کچھ پیش رفت ہوئی بھی تو اسے" قومی مفاد"میں راز کیوں رکھا گیا۔ یہ سانحہ قوم کی برداشت کا امتحان تھا۔اصل خدشہ یہی ہے ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد ہمیشہ کی طرح قوم یا عام عوام نے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔۔۔ ارباب اختیار اور صاحب اقتدار دونوں ہی اپنی جگہ پر محفوظ و مطمئن ہیں۔۔۔لیکن ماؤں کے دل کو قرار نہیں یہ موت سے بڑھ کر اذیت ہے۔۔۔ایک سکوت مرگ ہے جو جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے چہروں میں سنائی دیتا ہے کہ اب نہ جانےکس ماں کی باری ہے؟۔۔۔ گھر میں بیٹھی ماؤں کے لیے اس سے بڑھ کرکون سی قیامت منتظر ہے؟
ہرانسان لاشعوری طور پر ہی سہی قیامت تک زندگی کی خواہش کرتا ہےاور شعوری طور پر کتنی ہی قیامتیں گزر جاتی ہیں اور وہ پھر بھی زندہ رہتا ہے۔
اللہ ہمیں مخلوق کے شر سے پناہ دے اور وسوسے ڈالنے والے شر سےبھی نجات دلائے۔اللہ ہمیں دہشت گردی سے شرپسندی کی اس جنگ میں ایمان کی سلامتی عطا فرمائے آمین۔
۔"اے اللہ جو حق ہے ہمیں اسے حق کر کے دکھا اوراس کے اتباع کی توفیق دے اورجوباطل ہے اسے باطل کرکے دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق دے ۔" آمین یا رب العالمین۔
آرمی پبلک اسکول میں بدترین دہشتگردی ۔۔۔۔سانحہ پشاور کے پسِ منظر پر ایک تحریر۔)۔)
منگل ۔۔4 بجے شام
دسمبر23۔۔۔ 2014
آٹھ روزگزر گئے جانے کتنے رو ز۔۔۔کتنے برس۔۔۔ اسی طرح گزرجائیں۔ایک ہفتہ پہلے آج کے دن بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے آخری ناشتہ تیار کیا۔۔۔آخری باراُن کا یونیفارم استری کیا۔۔۔آخری بار انہیں ان کے بستروں سے اٹھایا۔۔۔آخری بار ان پر صبح صبح جھنجھلائیں۔۔۔آخری بار ہی انہیں ان کے شوہروں سے ڈانٹ پڑی ہو گی کہ تمہارے لاڈ نے ہی بچوں کو خراب کیا ہے۔۔۔اُن ماؤں نےآخری بارہی دل میں سوچا ہوگا۔۔۔جانے یہ بچے کب بڑے ہوں گے؟کب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے؟ کب ہماری گودوں سے اتریں گے؟ اور کب ہم اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے کچھ کر سکیں گی؟۔ اور اور۔۔۔ آخری بار ہی بچوں کے گھروں سے جانے کے بعد سکھ کا سانس لیا ہو گا۔۔۔ان کا بچا کچا کھایا ہو گا۔۔۔ان کے بکھرے کپڑے سمیٹے ہوں گے۔۔۔ان کی لاپرواہی اور سستی پر دل ہی دل میں اپنی تربیت کی خامی پر شرمندہ بھی ہوئی ہوں گی یا سوچا ہو گا کہ ہم بھی تو بچپن میں ایسے ہی تھے۔۔۔اپنی ماؤں کو یاد کیا ہو گا کہ انہوں نے کس طرح سے ہمیں پال پوس کرجوان کیا۔ اس افراتفری کے بعد جب سوچا ہو گا تو بہت سی ماؤں کو یاد آیا ہو گا کہ بچے نے ٹھیک سے ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔ یا لنچ گھر بھول گیا تھا۔۔۔یا وہ کینٹین سے کچھ کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا اور ہم نے پیسے نہیں دئیے۔۔۔یا آج ہم نے اس کے ساتھ زیادہ ہی زیارتی کر دی۔۔ وہ چھٹی کرنا چاہ رہا تھا اسے زبردستی اسکول بھیج دیا۔ انہوں نے آخری بار ہی سوچا ہو گا کہ آج اس زیارتی کی تلافی کر دوں گی۔۔۔آج اس کے لیے اس کی پسند کا کچھ بناتی ہوں۔۔۔اور کچھ نہیں تو آج اس کو دوپہر کے کھانے پر پراٹھا بنا دوں گی۔اکثر دوپہر کواس کی پسند کا کھانا نہ ہو تو کہتا ہے کہ پراٹھا بنا دیں اورمیں ڈاٹتی ہوں کہ پراٹھا تو ناشتے میں ہی ملتا ہےتم بہت نخرے کرتے ہو۔۔۔بہن بھی خفا ہوتی ہے کہ آپ کو بس اپنے" شہزادے" کی ہی پروا ہے۔ خیران ماؤں کو آخری بارہی یقین آیا ہو گا کہ وہ اپنےبچوں کو منا لیں گی۔ اور۔۔۔۔دن ڈھلنے تک ایک قیامت کا سامنا کر کے آخری بار ہی انہوں نے "صبر" کا تلخ ذائقہ چکھا ہو گا۔ اوراگلے دن کی صبح دوسروں کی خاطر جینے کے لیے ان ماؤں نے ایک نئی زندگی شروع کی ہو گی۔اپنے اہل خانہ کو حوصلہ دیا ہو گا۔۔۔دوسروں کی تعزیت پران کا شکریہ ادا کیا ہو گا اورشاید گھر کے روٹین کے کام بھی شروع کر دیے ہوں گے۔
آٹھ روز گزر گئے اورشاید اسی طرح باقی زندگی بھی گزر جائے گی کہ کسی ماں کی اپنے بچے سے جدائی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔ ماں کی محبت اورجذبات کی بہت مثال دی جاتی ہے لیکن ماں کی قوت برداشت کا پیمانہ کبھی بھی کوئی جانچ نہیں سکا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اولاد کا اولین لمس۔۔۔ جنم دینے کی تکلیف ایک لٹمس ٹیسٹ ہےجو اتنی شدت کی ہے کہ شاید دنیا کا سب سے مضبوط اعصاب کا مرد بھی اس پر پورا نہ اتر سکے۔اگررب نے اس تکلیف کو برداشت کرنے کا ہنر عطا کیا ہے اور اپنی کتاب میں اس کرب کا ذکر پوری صراحت کے ساتھ بی بی مریم کے حوالے سے بیان فرمایا ہے تو پھر دنیا میں اولاد سے ملنے والے دکھ اس کا ذرا سا حصہ ہیں اور موت جو برحق ہے اس کو ماننا ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے اس سے انکار کی تو گنجائش ہی نہیں۔بےشک ماں کے لیے اولاد کی موت ایک نہ بھولنے والا صدمہ اور ہمیشہ کی اذیت ہے۔ماں شہید کی ہو تو ایک عجیب قوت سے اس دکھ کا سامنا کرتی ہے۔۔۔ پل پل اپنے بچے کو موت کے منہ میں جاتا دیکھے تو برف کی چٹان بن کر اپنے دکھ کے آتش فشاں کو سنبھال لیتی ہے۔ وہ بوڑھی مائیں بھی عجیب کیفیت میں زندہ رہتی ہیں جن کے جنازوں کو کاندھا دینے والے انکے سامنے چلے جاتے ہیں۔
وہ مائیں جن کے جیتے جاگتے بچے گزشتہ ہفتےانسانیت سوز دہشت گردی کا نشانہ بنے وہ تو اپنے بچوں کے ساتھ ہی زندہ قبر میں دفن ہو گئیں۔۔۔ان کے ساتھ خود بھی ہر سودوزیاں سے آزاد ہو گئیں کہ اب بچا ہی کیا جوکوئی لُوٹ سکے۔
اس ماں کے کرب کا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو آخری بارہر ہر مرحلے سے گزر گئی۔ لیکن!!! اس ماں کی چیخیں کون سنے جو اپنے دل کا درد ذہن میں لاتے ہوئے خود بھی ہزار بار سوچتی ہے۔۔۔سر جھٹکتی ہے۔اپنا واہمہ ،مفی طرزِفکر کہہ کر دوسروں کی طرح "سب اچھا ہے۔۔۔اچھا ہو جائے گا" سوچنا چاہتی ہے۔
آج کا سب سے بڑا دکھ سب سے بڑی مایوسی اور سب سے بڑھ کر بےچینی پاکستان میں بسنے والی ان ماؤں کی ہے جو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن ہر صبح وہ اپنے بچوں کو رخصت کرتی ہیں تو شام کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔۔۔ایک فلم سی ذہن میں چلنے لگتی ہے دوسرے لفظوں میں ری وائنڈ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ آخری بار صبر کا جام پی کراُن ماؤں کی زندگی کا ایک باب تو مکمل ہو گیا چاہے زبردستی بند کر دیا گیا ۔لیکن وہ مائیں جن کی زندگی کے ورق کھلے ہیں ان کو خوف اورشدید غصے سے زیادہ جذباتی استحصال کی چبھن ہے کہ روح میں پیوست کانٹے کی مانند اندر ہی اندر بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں صرف ابتدائی طبی امداد دی گئی یا پھر"ہو جائے گا،ہونا چاہیے، ہو رہا ہے،کر دیں گے، کر رہے ہیں"۔۔۔ کی نہ ختم ہونے والی گردانیں۔۔۔۔ کتنا ہی غم وغصہ کیوں نہ ہو ان وعدوں اورتسلیوں سے قوم بحیثیت مجموعی ہمیشہ سے بہلتی چلی آئی ہے۔۔۔امید کی شمع ہرآندھی طوفان میں ہمیشہ لرزتی رہی پر بجھی کبھی نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ درندوں سے بڑھ کر انسان نما درندوں نے اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ اس سانحے سے منسلک کسی شیطان نما انسان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا؟فرض کریں کچھ پیش رفت ہوئی بھی تو اسے" قومی مفاد"میں راز کیوں رکھا گیا۔ یہ سانحہ قوم کی برداشت کا امتحان تھا۔اصل خدشہ یہی ہے ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد ہمیشہ کی طرح قوم یا عام عوام نے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔۔۔ ارباب اختیار اور صاحب اقتدار دونوں ہی اپنی جگہ پر محفوظ و مطمئن ہیں۔۔۔لیکن ماؤں کے دل کو قرار نہیں یہ موت سے بڑھ کر اذیت ہے۔۔۔ایک سکوت مرگ ہے جو جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے چہروں میں سنائی دیتا ہے کہ اب نہ جانےکس ماں کی باری ہے؟۔۔۔ گھر میں بیٹھی ماؤں کے لیے اس سے بڑھ کرکون سی قیامت منتظر ہے؟
ہرانسان لاشعوری طور پر ہی سہی قیامت تک زندگی کی خواہش کرتا ہےاور شعوری طور پر کتنی ہی قیامتیں گزر جاتی ہیں اور وہ پھر بھی زندہ رہتا ہے۔
اللہ ہمیں مخلوق کے شر سے پناہ دے اور وسوسے ڈالنے والے شر سےبھی نجات دلائے۔اللہ ہمیں دہشت گردی سے شرپسندی کی اس جنگ میں ایمان کی سلامتی عطا فرمائے آمین۔
۔"اے اللہ جو حق ہے ہمیں اسے حق کر کے دکھا اوراس کے اتباع کی توفیق دے اورجوباطل ہے اسے باطل کرکے دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق دے ۔" آمین یا رب العالمین۔
آرمی پبلک اسکول میں بدترین دہشتگردی ۔۔۔۔سانحہ پشاور کے پسِ منظر پر ایک تحریر۔)۔)
منگل ۔۔4 بجے شام
دسمبر23۔۔۔ 2014
اے اللہ جو حق ہے ہمیں اسے حق کر کے دکھا اوراس کے اتباع کی توفیق دے اورجوباطل ہے اسے باطل کرکے دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق دے ۔" آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریں