جمعہ, جنوری 01, 2016

" تارڑ تارڑ"

۔"میں بےشک اپنی خصلت سے مجبور اور دیہاتی انا کی وجہ سے بہت گھاٹے میں رہا لیکن میری بے مُہار اور آوارہ روح کبھی بھی پابند نہیں ہوسکی.... نہ کسی سیاسی وابستگی کے بندھنوں میں قید ہوئی اور نہ ہی کسی بھی ادبی گروہ سے سراسر منسلک ہوسکی..درست کہ شروع شروع میں مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا... مجھے نظر انداز کیا گیا لیکن میرے حرف نے مجھ سے وفا کی اور میرا ساتھ دیا اور مجھے اس پار لے گیا جہاں کم لوگ پہنچتے ہیں...میں اپنی سوچ اور تخلیق میں ہمیشہ آزاد رہا"۔
 از "سنہری اُلو کا شہر"۔۔مستنصرحسین تارڑ۔
۔۔۔۔۔۔
 " شل مکھی" 
 لکھاری اور قاری کے اٹوٹ بندھن میں زندگی کے رنگ تلاشتے بہت وقت بیت گیا۔آج دلوں اور ذہنوں پر کئی دہائیوں سےراج کرنے والےجناب مستنصرحسین تارڑ عمرِفانی کے"اےپلس"سے بس چند قدم کےفاصلے پر ہیں اوراپنی عمر کے ہر دور میں اُن کو محسوس کرنے والے قاری پل کے لیے بھی جدا ہونے کا تصور نہیں کر سکتے۔ایک لمبی مسافت طےکرتے، ساتھ چلتے،ہر دکھ سکھ میں مرہم رکھتے لفظ کے اس ساتھ کو آج کی نظر سے دیکھا جائےتو اتنے طویل سفر میں پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا لیکن محسوس کیا جائے تو لفظ کی تازگی اُسی طرح برقرار ہے اور پڑھنے والے ذہنوں کی سرخوشی اور احساس بھی اسی طرح جاندار ہے۔
ذاتی حوالے سے جناب تارڑ کی تحریرسےعجیب تعلق ہےکہ یہ ایک ایسا اعتراف بھی ہے جو پہلی نظر میں کمزوری،جہالت یا سراسر بکواس بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ لگی بندھی روایت سے پرے زمانے کا چلن بھی نہیں۔لیکن یاد رکھو"کوئی بھی چیز ہو یا لفظ پہلی نگاہ پر اس کے بارے میں حتمی رائے کبھی قائم نہ کرنا ورنہ اس رائے کے ساتھ ہی سوچ کی پرواز محدود ہو کر رہ جائے گی"۔
 باوجود اس بات کے کہ جناب مستنصرحسین تارڑ میرے پسندیدہ ترین لکھاری ہیں میں نے آج تک جناب تارڑ کی کوئی ایک کتاب بھی خود سے"خرید" کر نہیں پڑھی اور نہ ہی ان چند کتابوں میں شامل ہے جو مجھے میرے دوستوں کی طرف سے ایک قیمتی تحفے کی صورت ملیں۔میں نے اپنے دوستوں کو ہمیشہ کتاب کا تحفہ دیا لیکن جناب تارڑ کی کتاب کبھی بھی اس میں شامل نہیں رہی۔
 لفظ سے محبت کے سفر میں عمر کی ہر منزل پرگھنے سائباں کی مانند مسحور کن لکھاری ملتے رہے جن کے لفظوں کی مہک آج اس لمحے بھی شانت رکھتی ہے۔بائیس نومبر 2014 کو پوسٹ ہونے والے بلاگ "مستنصرحسین تارڑ کے لفظ سے شناسائی " میں اس احساس کو کچھ یوں بیان کیا ۔۔۔
۔"یہ 80 کی دہائی کے اولین برسوں کی کہانی ہےعمر کا وہ دورجب زندگی کے ہوم پیج پرآنے والی ہرفائل دھڑا دھڑ ڈاؤن لوڈ ہو رہی تھی۔آس پاس بکھرے لفظوں کی کہکشاں کا ہررنگ اپنی جانب کھینچتا۔کہیں خلیل جبران کا فلسفۂ زندگی دم بخود کرتا تو کبھی ابنِ انشاء،احمد فرازاور پروین شاکر کی نغماتی شاعری کے مترنم جھرنے شرابور کر دیتے۔۔۔ ممتازمفتی کی نہ سمجھ آنے والی عورت کہانیاں تھیں تو نسیم حجازی کےلہو گرماتےتاریخی ناول بھی۔ان ریکھاؤں میں جب مستنصر حسین تارڑ کا نام جگمگانے لگا تو اُن کے لفظوں میں ہرلمس کی مہک نے سرشارکردیا۔ زندگی کےایک نئے دورمیں لفظ اور کتاب سے ربط قائم ضرور رہا لیکن اس کی جہت بدل گئی۔ زندگی پڑھنا شروع کی تو سوچ سفر کا زاویہ بھی اسی طرح رُخ بدلتا چلا گیا۔ واصف علی واصف اورپروفیسراحمد رفیق اختر کے واسطے سے نئے رنگ جذب ہوئے تو ممتازمفتی کی "تلاش" نے گویا تلاش ہی ختم کردی۔ تارڑصاحب کے لفظ سے دوستی میں بھی وہ شدت نہ رہی۔ لیکن کوئی کتاب مل جاتی تو پرانے دوست کی خوشبو کی طرح اپنا اسیر کر لیتی"۔ 
 زندگی کی کمائی اور رب کی عطا اگر سوچوں تو کالج لائبریری کے جادوئی حصار سے نکلنے کے بعد عمر کے ہر دور میں اپنے گھر کے قریب ادب شناس اور کتاب دوست دوست ملتے رہےجن کے دل کی طرح ان کے ذوق کے دروازے بھی ہمیشہ کھلے رہے۔ بنا کسی خاص دوست کی رفاقت کی طلب اور خاص کتاب کی جستجو کے جس لمحے جو رہنمائی درکار ہوتی،رزق کی طرح سامنےآتی رہی چاہے دوست ہوں یا کتاب۔ ایسا بھی ہوا کہ جنہوں نے کتابیں خریدیں ابھی انہوں نے خود بھی نہیں پڑھیں اور پورے کے پورے سیٹ میرے سامنے میرے پاس موجود تھے۔ یہ اللہ کا اتنا بڑا فضل ہے کہ شکرگزاری کا احساس بھی اس نعمت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھتا ہے۔لفظ اور کتاب سےمحبت کے اس سفر میں جہاں کتاب سے محبت کرنے والے دوست ملے وہیں ایسے بہترین صاحبِ تصنیف دوست بھی ملے جن کے لفظ سے پہلے اُن کی ذات اور سوچ سے قربت کے چند زندگی بخش لمحے میسر آئے جس نے انسان کا انسان پر اعتماد بحال کیا۔ اس کے بعد ان کے منفرد اندازِ بیاں سے شناسائی ہوئی اورانہوں نے خود اپنے ہاتھ سےاپنی کتابیں تحفتاً ارسال کیں اور یا پھر اُن کے توسط سے "سنگِ میل پبلشرز" کی طرف سے کتابوں کےتحفے موصول ہوتے رہے۔





   
اب بطورِ خاص جناب تارڑ کی کُتب کی بات کروں تو میں نے اُن کی سب تو نہیں لیکن بہت سی کتابیں پڑھیں کبھی جلد کبھی دیر سے اور اب بھی بہت سی کتابیں میرے قریب ہیں جب چاہے انہیں چھو لوں انہیں پڑھ لوں۔ 
 آج جب حساب کتاب کا کھاتہ کھولتی ہوں توجناب تارڑ کے لفظ اور کتاب کے حوالے سے شکر گزاری یوں کہ میں نے کبھی جناب تارڑ کے لفظ کی"قیمت" ادا نہیں کی۔اپنی طویل زندگی کے قلیل مطالعے پر نظر ڈالوں تو صرف اور صرف ایک نام صفِ اول پر جگمگاتا دکھائی دیتا ہے وہ ہے "مستنصرحسین تارڑ"۔۔۔۔یہ لبالب چھلکتی جذباتی عقیدت ہرگز نہیں اور نہ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک ہے کہ میں نے تو بہت سے بڑے لکھاریوں کی ساری کتابیں بھی نہیں پڑھیں اورغیرملکی ادب سے واقفیت تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
 زندگی کے سفر میں قدم قدم پر ایسی بیش بہا کتابیں ملتی رہیں جنہوں نے مشکل اسباق سمجھنے میں ایک مہربان استاد کا کردار ادا کیا تو کبھی زندگی کی تپتی رہگذر پر شجرِسایہ دار کی مانند کچھ لمحے سکون کے عطا کیے۔ایسی کتنی کتابیں دل کو چھو گئیں لیکن اب ان کے لکھنے والوں کے نام یا کتاب کی بس موہوم مٹتی یادیں باقی ہیں۔ایسا بالکل بھی نہیں کہ لفظ کی اہمیت نہیں تھی یا کم ہو گئی۔بس یہ طلب ورسد کا کھیل ہے۔ 
 علم کی پیاس فطرت ہے تو جسم کی طلب ضرورت اور جبلت۔ انسان بڑے ذوق وشوق سے اپنی روح وجسم کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔۔۔محنت کرتا ہے۔۔۔بڑی جدوجہد سےاسباب مہیا ہوتے ہیں۔پیسہ بڑی محنت ومشقت سے کمایا جاتا ہے اور اتنی ہی احتیاط سے صحیح جگہ خرچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جو چیز پیسہ خرچ کر کے لی جائے انسان اس کے بارے میں بہت تنقیدی نگاہ رکھتا ہے۔جب ہم پیسے خرچ کر کے بہت سوچ سمجھ کر کوئی کتاب خریدتے ہیں تو لاشعوری طور پر ہی سہی ایک پلڑے میں کتاب کی قیمت اور دوسرے میں اس کی افادیت پرکھتے ہیں ویسے تو ہر کتاب کم ازکم صاحب کتاب کے لیے بہت خاص اوراہم ہوتی ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کتاب جو کسی کی عمر کا حاصل ہو،خون جگر سے لکھی گئی ہو،محض چند اوراق پڑھ کر ہی مسترد کر دی جاتی ہے۔بیشتر کتابیں ہم عقیدت کے زیرِاثر خریدتے ہیں۔۔۔ کبھی بڑے نام کے لکھاریوں کی کُتب ہم بہت ذوق وشوق سے مقدس جان کر کھولتے ہیں اور چاہتے ہوئے بھی اُن کو رد کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔اس کے برعکس جب اندھے کے ہاتھ میں ریوڑی کی طرح بہت سے کتابیں یا کوئی کتاب بنا چاہے بنا مانگے مل جائےتو ہم خاصی بےتوجہی،تقریباً زبردستی یا سرسری انداز اور تنقیدی نگاہ سے پڑھنا شروع کرتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لفظ کی کشش بولتی ہے۔اکثر پہلا صفحہ پہلے لفظ ہی پاؤں میں ایک زنجیر سی ڈال دیتے ہیں تو کبھی اچانک درمیان سے کھلے کسی صفحے پر رقم کوئی جملہ کوئی لفظ ہمارے دل کی بات جان لیتا ہے،ہم سے کلام کرنے لگتا ہے۔ یہ کوئی گہرا بےمحل فلسفہ نہیں بلکہ سمجھنے والوں کے لیے عام سی بات ہے۔کتاب علم کا ذریعہ ہے توعلم بھی رزق کی طرح ہے بلکہ دراصل یہ روح کا رزق ہی تو ہے۔اس لیے زندگی کے جس موڑ پر روح کی جو طلب ہو وہ اسے مل جاتی ہے۔جسم اور روح کی طلب میں ایک بال برابر فرق ہے کہ جسم کی بھوک بس لمحوں کا کھیل ہے پھر سب غائب اور نئی منزلیں نئےراستے۔ روح کو نہ صرف اپنی بھوک کی پہچان ہوتی ہے بلکہ وہ اس آبِ حیات کو ہمیشہ رگِ جاں کے قریب محسوس کرتی ہے جس نے پیاس کے تپتے صحرا میں آسرا کیا۔روح کی طلب خیال کی بھوک کی طرح ہے۔خیال کی بھوک خوشبو کی طرح سفر میں رہتی ہے پر یہ وہ سفر ہے جو لاحاصل کبھی نہیں ہوتا اس سفر میں لذتیں ہی لذتیں ہیں ۔ہر گاہ پرہمسفر ذرا دیر کو ملتے ہیں،ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تازہ دم کرتے ہیں اور پھر نئی منزلوں کو روانہ کر دیتے ہیں۔ 
انسان کے لفظ سے محبت اور اُنسیت کے اس سفر میں آخر جناب تارڑ کیوں حرفِ آخر ٹھہرے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اصل راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ جناب تارڑ کا تخیل اور اظہار بہتے میٹھے پانی کے چشمے کی مانند ہے جہاں آنے والا کبھی پیاسا نہیں جاتا ہمیشہ من کی مراد پاتا ہے۔مستنصرحسین تارڑ اگر محض کتابیں لکھتے رہتے تو شاید اتنے مقبول تو ضرور ہوتے لیکن جب سے اُن کے روز مرہ کالم آنے شروع ہوئے پھر توپڑھنے والوں کا جناب تارڑ کے ساتھ ایک ایسا عجیب تعلق پیدا ہو گیا۔۔جیسے ہر روز محبوب اپنے در پر بلائے اور دیدار کی خیرات دے اور پھر کچھ باقی نہ رہے۔یہ کالم محض خودکلامی ہی نہیں بلکہ ایسی گفتگو ہیں جو پڑھنے والے کو نہ صرف اپنے اندر کے سفر پر لے جاتی ہے بلکہ دور دنیاؤں کی سیر بھی کراتی ہے۔جناب تارڑ کی کتابیں اور سفر نامے ہی کم نہ تھے جو ہم جیسے کسی دور دراز کے چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کو سمندرپار کے ایسے منظر دکھاتے تھے کہ جو نظر کے لمس سے جی اٹھتے تھے۔ ایسی جگہیں جن کا عام قاری کسی دوسرےجنم میں بھی جانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن خاص بات یہ کہ پڑھنے والا کبھی حسرت یا یاسیت محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی ہوس۔بس ایک سرخوشی کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور جناب تارڑ کے لفظ صرف فطرتی مناظر کی بھرپور لفظ کشی تک ہی محدود نہیں بلکہ اُن کو پڑھتے ہوئے ہمیں دنیا کے ادب اور غیرملکی لکھاریوں کے اسلوب سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ یہ صرف جناب مستنصرحسین تارڑ کا کمال ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہرسرسری یا گہرے تجربے، ہر بامعنی یا بظاہر لایعنی احساس اور ہر چھوٹی سے چھوٹی لذت چاہے وہ نفسانی ہو یا روحانی میں قاری کو بلا کسی ہچکچاہٹ کے شریک کرتے ہیں بلکہ وہ ایک مدبر کی طرح اپنے علم اور مطالعے سے پڑھنے والے کی معلومات میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔جناب تارڑ کے لفظ کی معجزانہ کشش میں ان کا ذاتی طور پر رشتوں اور تعلقات کے حوالے سےبھرپور کردار اور ایک مطمئن گھریلو زندگی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ 
 جو منظر جناب تارڑ کی آنکھ پر اترتے ہیں وہ اسے اللہ کے خاص فضل سے لفظ میں پرو کر چابکدستی سے پڑھنے والے ذہن کے کینوس پرمنتقل کر دیتے ہیں۔لفظ کے ظاہری حسن سے متاثر ہونے والے اپنا سب کچھ فراموش کر کے اُن منظروں، اُن چہروں اور ساتھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔لفظ کی فسوں کاری کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔تلاش کے صحرا میں بھٹکتے ہوؤں کو وہ منظر کبھی نصیب نہیں ہوتے جو قدرت نے بےمثال لکھنے والے کی آنکھ پر صرف اس کے لیے اتارے۔یوں نادان آوارہ گرد اپنی صعوبتوں کےسارے عذاب اس لکھاری کے ذمے لکھتے ہیں۔
 مستنصرحسین تارڑ شاید دنیا کے وہ واحد لکھاری ہیں جن کی کسی ایک تصنیف کو اُن کی پہچان نہیں کہا جا سکتا۔ جناب تارڑ کی ساٹھ سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں ہر کتاب خاص اور اپنی مثال آپ ہے۔ جناب تارڑ مسلسل لکھ رہے ہیں،بلا کسی رکاوٹ یا ہچکچاہٹ کے جو سوچتے ہیں لکھتے چلے جاتے ہیں۔اور اسی طور پڑھنے والوں کے سپرد بھی کردیتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے پسندیدگی کے لحاظ سے جناب تارڑ کی کسی ایک کتاب کانام لینا بہت مشکل ہے اور اس سے بھی مشکل ہے کہ اگر تحفہ دینے یا لینے کے لیے اُن کی کوئی بھی کتاب لینےکا اختیار دیا جائے۔
حرفِ آخر
 ۔" ہزار داستان" کے عنوان سے کالم لکھنے والے جناب مستنصرحسین تارڑ کی کتابیں اور تحاریر کی بھی ہزار جہت اور اتنے زاویے ہیں کہ اُن کو مربوط کر کے ایک مکمل نقش تصویرکرنا ناممکن ہے۔یعنی کوزے میں دریا بند نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ہماری اپنی زبان اردو کی ایک ایسی قلم کار ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمر کی لفظ کمائی اور رشتےناطوں کا محور صرف ایک کتاب میں اس خوبی سے یکجا کیا کہ جس طرح پرانے زمانوں میں اللہ کی کتاب کے بعد ہر گھر میں بہشتی زیور کا ہونا بہت اہم تصور کیا جاتا ہے اسی طرح نئے زمانوں میں یہ کتاب "راہ رواں" ہے،جس میں ادائلِ عمر سےبڑھاپےتک اور زندگی سے موت تک کے درمیانی عرصے میں ہر طرح کے جذباتی ،سماجی اور روحانی مسائل کی وضاحت ملتی ہے۔ یہ کتاب محترمہ بانو قدسیہ کی تصنیف ہےجو انہوں نے اپنے مرحوم شوہر بےمثل تخلیق کار لکھاری "محترم اشفاق احمد" کو مرکزِ نگاہ بنا کر لکھی۔ 
محترمہ بانو قدسیہ نے مارچ 2014 کو لاہور میں جناب مستنصرحسین تارڑ کی 75ویں جنم دن کی تقریب میں شرکت کر کے صرف ایک جملے میں سب کہہ دیا ۔۔۔۔" پہلے مستنصر مجھے پڑھتا تھا اور اب میں مستنصر کو پڑھتی ہوں"۔
مارچ 2014 میں محترمہ بانوقدسیہ کے ساتھ جناب مستنصرحسین تارڑ کی 75ویں سالگرہ کی  تصویریں جھلکیاں۔۔۔
   

9 تبصرے:

  1. مستنصر حسین تارڑ کے تازہ ترین دو کالم اور میرا احساس۔۔۔
    چار گھر، میری حیات کے، لاہور کے
    مستنصر حسین تارڑ
    December 29, 2015
    https://www.facebook.com/groups/mht.official/permalink/1130249853652425/
    ۔۔۔
    کُجھ مینوں مرن دا شوق وِی سی
    مستنصر حسین تارڑ
    January 2, 2016
    https://www.facebook.com/groups/mht.official/1132561383421272/?comment_id=1132609596749784&notif_t=like
    ۔۔۔
    نورین تبسم۔۔۔ نئے سال 2016 میں جناب مستنصرحسین تارڑ کے تازہ ترین احساس پر میرا بےساختہ اظہار ۔۔۔
    نہ جانے میرے اندر یہ کیسی تکنیکی خرابی ہے کہ ہوا کے مہربان رخ سے الگ میں اس سمت دیکھتی ہوں جہاں شاید کسی اور نظر میں لُو کے تھپیڑے ہیں یا پھر کبھی مجھے سسکتی آہوں میں اطمینان کی شہنائی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہں حال جناب تارڑ کے ان دوکالمز میں مکمل احساس کو پڑھتے ہوئے ہے۔۔۔۔ دوسرے لوگوں کا دکھ بھرا احساس سر آنکھوں پر۔۔ لیکن مجھے دکھ ہوا تو اس اینٹ پتھر اور سمینمٹ کے پرانےگھر میں بےجان لیکن سانس لیتے زندگی بھرے لمحات کی تنہائی اور بےقدری کا۔۔۔۔ اس خوشبو لمس کے بکھرنے کا۔۔۔۔ ان ستارہ آنکھوں میں رات کی تنہائی میں اترنے والے ان خواب منظروں کی بےثباتی کا جو لفظ میں ڈھل کر امر ہو جاتے تھے۔۔۔ اس ننھے چیڑ کے بوٹے کا جو بڑا تو ہو گیا لیکن اس کا دل آج بھی اتنا ہی نازک ہے جتنا اس کو پروان چڑھانے والے کی فکر کی انتہا۔۔۔ لیکن کیا کیا جائے کہ دیکھنے والے اگر اس بوڑھے ہوتے درخت کے جھریوں بھرے تنے کو نگاہِ الفت تو کیا ایک نگاہِ غلط کا حق دار بھی نہیں سمجھتے تو عمر کی سیڑھیاں رب کی عطا کردہ مہلت کے صدقے بڑی بےجگری سے پھلانگتے اور سب سے چھپ کر اپنے دل کی بات کہتے لیکن بڑے مؑصومیت سے اسے آشکار بھی کرتے اس پکی عمر کے کچے دل کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔جو جانا حق تو سمجھتا ہے راضی بارضا بھی ہے لیکن کیاکرے اس کا دل جو مڑ مڑ کردیکھتا ہے۔ اپنی ہمیشہ کے لیے چلی جانے والی ماں کی سی تلاش میں،۔۔جس نے ایک بار یہی لکھا بھی تھا کہ ماں کے لیے جس کے جانے کے بعد کسی کومیرے نئے جوتوں کی خوشی بھی نہیں.
    لیکن مجھے یہ کالم پڑھتے ہوئے ایک مسرت بھرا احساس بھی ہواکہ اپنا سارا پٹارا اپنے ہاتھ سے سمیٹ کر نئی منزلوں نئے راستوں پر اپنے قدموں سے سفر کر جانا رب کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے اور بہت کم کسی کا نصیب ہے۔ لیکن یہ بہت بہت کڑی آزمائش بھی ہے۔۔ امیدوں ،خواہشوں کی گھٹڑی بڑے اعتماد سے باندھ کر صرف اپنوں کی خاطر ہتھیار پھینک دینے ،ان کی جسمانی آسودگی کے لیے اپنی ذہنی آسودگی رخصت کر دینا بڑے ہی حوصلے اور ضبط کا کام ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ زمین میں جڑ پکڑتے اس تناور درخت میں سانس لیتے نازک دل کونئی مٹی میں کچھ وقت کے لیے ہی سہی مکمل اطمینان کی رم جھم اور ذہنی سکون کی زندگی بخش کرنیں نصیب فرمائے ۔ وہ بخوبی جانتا ہے اور مانتا بھی ہے کہ مٹی مٹی میں مل کر کتنی ہی جڑیں مضبوط کیوں نہ کر لے اور سر کیوں نہ بلند کر لے ایک دن تو مٹی نے اسے اپنی آغوش میں لے کر ماں کی طرح ہر شے کی ضرورت سے بےنیاز کر ہی دینا ہے۔۔۔۔
    رہے نام اللہ کا۔
    جیتے رہیں میرے لکھاری اور دوسروں میں بھی جینے کی لگن پیدا کرتے رہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Ali Umar نے کہا
      میں کافی عرصہ سے تارڑ صاحب کو پڑھ رہا ھوں اور ملتا بھی ھوں.. تو کہہ سکتا ھوں کہ اُن کے مزاج کو کافی حد تک سمجھتا ھوں.. کہ وہ اکثر اپنی ذاتی باتیں بتاتے رہتے ہیں.. تو اُن کے دل کی جو کیفیت ھے.. میں کہہ سکتا ھوں کہ میں بہت اچھی طرح محسوس کررہا ھوں.... کہ میری بھی تارڑ صاحب کے موجودہ گھر سے بہت اپنایئت ھوگئی ھے.. کالے گیٹ سے لمبی راہداری اور پھر سامنے کونے پہ لگے ترتیب سے پودے, دائیں طرف اُن کی ہرے رنگ کی کرسیاں اور میز اور اُن پہ جُھکی ھوئی باڑ, پھر الپائن کا اونچا لمبا درخت اور اس کے نیچے گملے میں لگے مختصر بونسائی کا پودا..
      مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں بہت کم ادھر آیا ھوں.. ہمیشہ یہی لگتا ھے کہ ادھر ہی ھوتا ھوں..چاچا جی نے پچھلے ہفتے جب بتایا کہ پندرہ دن تک شفٹ ھوجانا.. تو دل پہ کچھاؤ سا محسوس ھوا....اب اس سے زیادہ کیا کیفیت بتاسکتا ھوں..

      حذف کریں
    2. بہت شکریہ اپنے احساسات شئیر کرنے کا۔۔۔۔
      میں جناب تارڑ کے گھر کبھی نہیں گئی لیکن پھر بھی دل کی آنکھ سے اکثر وہاں جاتی تھی اور ایک ایک چیز کی کیفیت بیان بھی کر سکتی ہوں لیکن "کون دلاں دیاں جانے "
      شاید وہ بھی نہیں دل جس کے لفظ کے دام کا سیر ہے۔

      حذف کریں
    3. فردوس مارکیٹ کے قریب ان کے اس ان کے گھر آنا جانا رہتا ہے، کبھی انہیں کوئی کام ہو تو فون کر کے کہتے ہیں:
      " آ مولبی ۔ ۔کتھے ایں تُوں؟ کنے دن ہوگئے آیا کیوں نہیں پارک؟"
      (اوئے مولوی، کہاں ہو تُم؟ کتنے دنوں سے پارک کیوں نہیں آئے)
      (وہ پیار سے مجھے مولوی کہتے ہیں)
      میں کوئی معذرتی بہانہ لگاتا ہون تو کہتے ہیں:
      "چل جان دے مولبی ہُن بہانے نہ بنا، اچھا میرے گھر چکر لگا ٹائم کڈ کے، ضروری کم اے تیرے نال، کدوں آئیں گا؟
      (چلو جانے دو مولوی، اب بہانے نہ بناؤ یہ بتاؤ کہ کب میرے گھر چکر لگاؤ گے؟ ٹائم نکال کر آؤ ضروری کام ہے تُم سے، کب آؤ گے؟)
      ہاہاہا
      ابھی کل بھی ان سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے پیر والے دن آنے کو کہا۔
      آج بھی ایواںِ اقبال میں ان کے ساتھ ایک پروگرام میں ملاقات ہوگی۔
      ان کے متذکرہ گھر کی ساری لوکیشن راہداری، الپائن کا لمبا تڑنگا درخت، ان کے اعلیٰ ذوق کی نمائندہ کرتے عجیب سے پودے اور خاص طور پر ان کی سٹڈی، ان کی کولیکشن پینٹنگز، سکلپچرز اور دیگر نوادرات کی موجودگی اس سٹڈی کو ایک منی میوزیم کا روپ دیتے ہیں۔ اب اتنی انسیت محسوس ہوتی ہے اس گھر سے کہ یہ کالم پڑھ کر خود میرا اپنا دل بھر آیا کہ اب وہ کافی دور جارہے ہیں جہاں جانے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرنا پڑے گی، اس گھر میں تو ان کی کال کے 10 منٹ میں پہنچ جاتا تھا میں۔ میرے آفس سے قریب ہی ہے۔
      خیر وہ کوئی پائن کا درخت تو ہیں نہیں جو ہمیشہ وہیں رہ جائیں اور موو نہ کرسیکں، بہتر سے بہتر سکونت ہر اک کی خواہش ہوتی ہے، ماکان تو مکان ہی ہوتے ہیں، مکینوں کی طرح کہیں جا بھی نہیں سکتے نا۔ ۔
      ہماری تو دعا ہی ہے کہ چلیں جی اللہ انہیں نئے گھر میں بھی خوشیاں ہی خوشیاں عطا کرے آمین۔

      (طارق عزیز - لاہور)

      حذف کریں
    4. آپ نے اپنا ذاتی احساس شئیر کیا۔۔۔بہت شکریہ

      حذف کریں
  2. جناب تارڑ کے آج کے احساس کی نذر ۔۔۔
    میرے دو برس پہلے کے لکھے لفظوں کے پھول۔۔
    http://noureennoor.blogspot.com/2013/07/blog-post_3.html
    بدھ, جولائی 03, 2013
    " بھریا میلہ "
    " ہر میلہ اُجڑنے کے لیے ہی ہوتا ہے چاہے وہ زندگی کا ہو یا خواہشوں کا "
    جو آیا ہے اُس نے جانا ہی ہے ـ نہ آنے پر اختیار ہے اور نہ جانے پر۔ شکم ِمادر میں نئی کونپل کی نوید سےلے کر رو شنی میں اُس کی رونمائی تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ صرف تجربات،حالات وواقعات کا تسلسل ہی وقت کا مجموعی طور پر تعین کرتا ہے۔اسی طرح جانے کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔آنے والے کل کے لیے تو پھر بھی اپنے طور پر بچ بچاؤ کا سوچا جا سکتا ہے۔ پر جب بلاوا آتا ہے سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ آ نے کا اور جانے کا پتہ نہیں تو پھر کیا روگ لگانا کیا سوچنا۔لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ہم دنیا میں آمد کے وقت تو اپنی سوچ کے زاویے سے ناواقف ہوتے ہیں لیکن جاتے وقت اس سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ اور کسی حال میں اس دُنیا سے کوچ کرنا نہیں چاہتے۔ بہت کم بلکہ وہ ولی اللہ ہوتے ہیں جو اپنی جان جان ِآفرین کے سپرد یوں کرتے ہیں گویا قرض واپس کر رہے ہوں عاجزی انکساری کے ساتھ ۔ ہمارے فہم ہماری عقل کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب بلاوا آ جائے۔ہمیشہ پہلے سے کی گئی تیاری کام نہیں آتی۔اصل ہنر اپنی مرضی سے بھریا میلہ چھوڑنے کا ہے۔ یہ ہنر آ جائے تو زندگی سے جُڑی دوسری خواہشات کو اپنانا اور چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے ۔کبھی کوئی میلہ کسی کے جانے سے نہیں اُجڑا۔ہم خود اپنے آپ کو اُس کا 'کُل' جان کر چھوڑنا نہیں چاہتے حالانکہ ہم تو اُس کے ایک جزو سے بھی کم تر ہیں۔یہ بات شاید ہمارے جانے کے بعد دوسروں کی آنکھوں میں ہمارے لیے اُترتی ہے جب وہ ہماری تمام عمر کی لاحاصل تپسّیا کا نچوڑ دیکھتے ہیں۔
    آخری بات
    اس سے پہلے کہ دُنیا تمہیں چھوڑ دے تم خود اپنی رضا سے کسی بڑی چاہ کی خاطر اسے چھوڑ دو۔ اگر مہلت ملی لوٹ آنے کی اور کوئی منتظر رہا تو پھر وقت ہی وقت ہے۔ ورنہ اپنے راستے پر چلتے جاؤ اور دوسروں کو اُن کی راہ چلنے دو۔جھگڑا نہ کرو۔دل میلا نہ کرو۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. Some part of this is from a previous writing which also is inspiring. When you write about MHT you simply excel. For me your writing always is a thought provoking exercise and I enjoy it and go into a sub conscious voyage which your writing undertake.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اتنے منفرد انداز میں اپنا احساس شئیر کرنے کے لیے روایتی شکریہ ہرگز نہیں کہوں گی، ہاں صرف دو باتوں کے لیے شکریہ۔۔
      اول یہ کہ آپ نے میری طویل خودکلامی کے لیے اپنا قیمتی وقت دیا اور دوسرے آپ نے لفظ " excel" کہہ کر میرے احساس کی قدر کی۔اگر آپ " exagerrate" کہہ دیتے تو میں کیا کر لیتی کہ سرسری نظر کو شاید یہی دکھے ورنہ جناب تارڑ کے لفظ سے قربت کو یوں بیان کرتی ہوں ( یہ شعر آپ کے اس کمنٹ کے بعد ذہن میں گھومنے لگا )۔۔
      تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
      مرا من مور بن کر ناچتا ہے

      حذف کریں
  4. The above picture is incredible, because the reader is holding the books in hands which shows that for the reader the main focus is the book and not the personality of the reader.

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...