مستنصر حسین تارڑ
عکس سے نقش تک"
خیال کی طاقت پرواز کتنی ہی بلند کتنی ہی لامحدود کیوں نہ ہو جائے۔۔۔آنکھ کے لمس کی سچائی کو مات نہیں دےسکتی۔اس میں شک نہیں کہ آنکھ وہی تصویر دیکھتی ہے جو اس کے محدود چوکھٹے میں سما سکے۔ لیکن یہ تصویر کبھی ہمیشہ کے لیے وہیں ٹھہر بھی جاتی ہے۔ پہلی نظر بھی کیا چیز ہے کہ
ایک لمحے کی دوستی پہلی نظر کا پیار کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے اچھا تو لگا پرگزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
مستنصر حسین تارڑ کے سانس لیتے نرم ونازک لفظوں سے بہت پہلےمحترم اشفاق احمد کے" ایک محبت سو افسانے" میں اُن کی سوچتی اوراداس آنکھوں نے بطور اداکار اپنی شناخت کرائی تو ایک ڈرامہ نگار کے طورپر ذہن نے سر جھکاتے ہوئے ان کے مصنوعی کرداروں کے اندر سے اُن کا اصل کھوجنا شروع کیا۔ صبح کےاولین مارننگ شو نے 'تلاش' کے اس عمل کومہمیزکیا۔ لفظ سے عشق کی ان اولین ساعتوں میں جناب تارڑ کی"نکلے تری تلاش میں،خانہ بدوش،پیارکا پہلا شہر،جپسی اور ہنزہ داستان نے مسمرائز کیا۔
جناب کے لفظوں سے جانا کہ۔۔
عشق کا مفہوم کتنا وسیع ہے۔۔۔یہ محض اپنے جیسے انسان کے محورکے گرد دیوانہ وار رقص کا نام نہیں۔ عشق راتوں کو جاگ کر تارے گننے اورمحبوب کی یاد میں تکیے بھگونے سے تکمیل کے مراحل طے نہیں کرتا ۔
عشق فطرت سے ہم آہنگی اور قربت سےپروان چڑھتا ہے۔یہ اپنے مدار سے نکل کر ایک بڑے دائرے میں محوِرقص ہونے کی خوشی فراہم کرتا ہے۔
آوارگی کی ہزارہا جہت کیا ہیں۔۔۔آوارگی وہ سفر ہے جو گھر سے بھاگنے پراُکساتا ہے۔۔۔تو جہاں گھر سے دوری تعلق مضبوط کرتی ہے۔۔۔ وہیں سوچ کا پھیلاؤ حقیقتِ دنیا سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
جنوں کا مثبت پہلو انسان کو ہوش وحواس سے بیگانہ نہیں کرتا بلکہ تمام حسیات کو ایک نئی تازگی اور توانائی بھی دیتا ہے۔
اگر ادب وہی ہے جو زندگی کے ہر رنگ ہر پہلو کو چھو جائے تو ادیب بھی وہی ہے جس کی ذاتی زندگی کا نہ صرف ورق ورق کھلا ہو بلکہ اوروں کے لیے نشانِ راہ بھی ہو۔جو تخیل کی خوابناک وادیوں کا ہمسفر ہی نہ ہو بلکہ اپنے 'ہمسفر'کے ساتھ زندگی کے چیختے حقائق کا بخوبی سامنا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
جو ہوا کے دوش پر اور سوچ کے اُفق پر محسوس کرنے والے دلوں کی دھڑکن ہی نہ ہو بلکہ اپنے جگرگوشوں کے لیے باعثِ مسرت بھی ہو۔
جناب تارڑ کے مہکتے لفظوں نے بتایا کہ۔۔۔
شاعری، موسیقیت اور مصوری کے شاہکار بند کمرے میں بیٹھ کر تخیل کے زور پر ہی نہیں تخلیق کیے جاتے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تخیل کی بلندیوں کو چھونے والے لفظ بصارت اور بصیرت کے انوکھے ملاپ سے جنم لیتے ہیں۔
رومانویت صرف مردوعورت کے مابین فطری اورازلی کشش کا تسلسل بھی نہیں۔محبت دو دلوں کے درمیان خفیہ رازونیاز کا نام ہی نہیں۔ یہ قدرت کے نظاروں،جھیل کناروں اوردودھیا چاندنی میں نہائی ہوئی فلک بوس چوٹی کے پہلو میں اپنے ساتھ وقت گزارنے کی حسین تنہائی بھی ہے۔ خود کلامی محض دیوانوں کی بڑ نہیں بلکہ رب کی شکرگزاری کا عظیم احساس بھی ہے۔
محبت اپنے رشتوں سے چھپ کر تعلقات کی غلام گردشوں میں آنکھ مچولی کا کھیل نہیں۔۔۔ بلکہ لفظ سےعشق پورے یقین اوراعتماد کے ساتھ اپنے بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراظہار کی ایک کیفیت ہے۔ محبت کا یہ راستہ بڑوں کو بھی اپنے بچوں کی نگاہ میں معتبر بناتا ہے۔
زندگی صرف سانس کا آنا جانا ہی نہیں بلکہ موت کی سچائی اپنے سامنے دیکھ کر۔۔۔اس سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے اس سے باتیں کرنے کا نام بھی ہے۔
ادب لازوال ہے تو ایک ادیب کیسےاپنے لفظ کے معنی میں محدود ہو سکتا ہے۔اس کی نگاہ کی وسعت قدرتی مناظر فطرت کے رنگوں اور انسان کے فطری جذبات کا بڑی خوبی سے احاطہ کرتی ہے۔۔۔ تو بلند وبالا برفوں اورگہری کھائیوں میں موت سے قربت اوردہشت کی تصویر کشی سچ مچ سانسیں روکتی ہے۔
جناب تارڑکے تمام سفر ادھورے اور تشنہ رہتے۔۔۔ان کی روشنی ایک مخصوص دائرے میں گردش کر کے فنا ہو جاتی اگر یہ روشنی ان کی اپنی ہی ذات کو نہ اجالتی۔
۔"منہ ول کعبہ شریف" اور "غارحرا میں ایک رات" ایسی کتب ہیں کہ جنہوں نے جناب تارڑ کے لفظ کی ابدیت اور قبولیت پرمالک کی مہر ثبت کر دی ہے۔ بےشک یہ رب کا کرم ہے کہ وہ اپنے پیارے بندے کو کس طرح نوازتا چلا جاتا ہے۔۔ میرے لیے ان دونوں کتابوں کے سفرِمبارک کے الفاظ سے زیادہ اہم وہ احساس تھا جو بند جوتوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُرپیچ وادیوں اور"قاتل" پہاڑوں سے ہوتا ہوا "مطاف" کے صحنِ مبارک میں مرمریں فرش پر سجدہ ریز ہوا تھا۔
وہ احساس بہت قیمتی اور انمول تھا جس نے ایک دشت گرد اپنے تئیں "آوارہ گرد" دنیا دار کو دنیا میں رہتے ہوئے اس مقام پر سربسجود کرایا جہاں جاتے ہوئے دنیا کے بڑے سے بڑے فرماں بردار کے قدم بھی لڑکھڑا جاتے ہیں یہ نصیب کی بات تھی۔۔۔ کرم کے فیصلے تھے۔۔۔"سفرِزیست" کی پاکیزگی تھی۔ یہ اس 'آوارہ گرد' کے اندر کی سچائی تھی جس نے ماہ وسال کی محدود عمر میں "تلاش" کے سفر کی تکمیل ممکن بنائی۔
آپ سے جانا کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کا عکاس ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کی شہادت کبھی نہیں دے سکتا۔اور یہ بھی کہ دین کسی دین دار کی ذاتی میراث نہیں۔ یہ قلب پر اتری لبیک کی وہ کیفیت ہے جو روح کی گواہی خود دیتی ہے
یوں کہنا قصیدہ گوئی ہرگز نہیں کہ جناب تارڑ اردو زبان کے وہ واحد ادیب ہیں جن کے لفظ کےقاری نہ صرف ہر دور۔۔۔ہر زمانے اور ہرعمر کے ہیں بلکہ ہرقسم کے مکتبۂ فکرسے تعلق رکھنے والے ان کے لفظوں کی خوشبو میں اپنا ذوق تلاش کر لیتے ہیں۔ادب کی فہرستیں ویسے بھی تارڑ کے تخیل کے سامنے بےبس نظر آتی ہیں کہ ان کی جادو اثر نثر کے سامنے شاعر کا تخٰیل بھی ماند پڑھ جاتا ہے۔ یہ ادب برائے لذتِ یا محض وقت گزاری نہیں بلکہ اُن کی کتب ایک مستند سفری دستاویز، تہذیبی ورثہ اور فکشن کا حسین امتزاج بھی ہیں۔یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ابھی تک جناب تارڑ کو ادب میں ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔ اس میں کوتاہ نظری یا روایت پرستی نہیں بلکہ ابھی تک وہ مقام ہی طے نہیں ہوا جہاں ہم اُن کے لفظوں کو رکھ سکیں۔۔۔پرکھ سکیں۔ لیکن!!! ایک مقام بےمثال اورغیرمتنازع ہے۔۔۔ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنانا۔
تارڑ صاحب کےساتھ لفظ کی ایک طویل رفاقت میں یہ جانا کہ" سفرزندگی تو ہے لیکن زندگی صرف سفرہی نہیں۔ زندگی کے اختتام سے پہلے ہمیں اپنے زمینی سفر کا پٹارا اپنے ہاتھوں سے بند کر کے ایک نئے سفر کے لیے خالی کر دینا چاہیے۔ ورنہ ساری کمائی لٹ جانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے"۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ جناب مستنصر حسین تارڑصاحب کو ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ زندگی کے سفر پر اسی طرح مہکتا اور رنگ بکھیرتا رکھے۔آمین
۔۔۔۔۔۔
میرا احساس اور محترمہ ثمینہ طارق کا بلاگ " طویل سفر کے بعدایک خوشبو بھری ملاقات،مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ"۔
فطرت سے رومانس کا جو احساس جناب کے سفرناموں میں ملتا ہے وہ محبت کے جذبے کی آفاقیت پر یقین کی مہر ثبت کرتا ہے۔ محبت کی عام انسانی روش اور جبلی خواہشات کی غمازی کرتے لفظ "پیار کا پہلا شہر" اور جپسی میں یوں چپکے سے دل میں اتر جاتے ہیں کہ جیسے ہماری ہی کہی ان کہی ہو ۔ پھر وقت کی گرد جب ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتی ہے تو " غارحرا میں ایک رات " اور"منہ ول کعبہ شریف" اس عشق کی پاکیزگی کی گواہی دہتے ہیں ۔ تارڑ صاحب کے لفظوں کی خوشبو ہمیشہ اپنے آس پاس محسوس کی۔ چاہے وہ شمالی علاقوں میں پہاڑوں کی نکھری شفاف مہک میں ملی یا پھر غار حرا کی بلندیوں کو پاؤں کا بوسہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
اور ہاں اس سال 20144 میں اسلام آباد کے ادبی میلے میں تارڑ صاحب سے چند لمحے کی ملاقات ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے بڑی دیر تک ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے آس پاس "عقیدت مندوں"کو دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہی کہ " محبت کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا ہے۔ اوراس میں عمر کی قید نہیں۔جب بات لفظ سے محبت کی ہو تو پھر زمان ومکان کے فاصلے بھی بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
عکس سے نقش تک"
خیال کی طاقت پرواز کتنی ہی بلند کتنی ہی لامحدود کیوں نہ ہو جائے۔۔۔آنکھ کے لمس کی سچائی کو مات نہیں دےسکتی۔اس میں شک نہیں کہ آنکھ وہی تصویر دیکھتی ہے جو اس کے محدود چوکھٹے میں سما سکے۔ لیکن یہ تصویر کبھی ہمیشہ کے لیے وہیں ٹھہر بھی جاتی ہے۔ پہلی نظر بھی کیا چیز ہے کہ
ایک لمحے کی دوستی پہلی نظر کا پیار کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے اچھا تو لگا پرگزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
مستنصر حسین تارڑ کے سانس لیتے نرم ونازک لفظوں سے بہت پہلےمحترم اشفاق احمد کے" ایک محبت سو افسانے" میں اُن کی سوچتی اوراداس آنکھوں نے بطور اداکار اپنی شناخت کرائی تو ایک ڈرامہ نگار کے طورپر ذہن نے سر جھکاتے ہوئے ان کے مصنوعی کرداروں کے اندر سے اُن کا اصل کھوجنا شروع کیا۔ صبح کےاولین مارننگ شو نے 'تلاش' کے اس عمل کومہمیزکیا۔ لفظ سے عشق کی ان اولین ساعتوں میں جناب تارڑ کی"نکلے تری تلاش میں،خانہ بدوش،پیارکا پہلا شہر،جپسی اور ہنزہ داستان نے مسمرائز کیا۔
جناب کے لفظوں سے جانا کہ۔۔
عشق کا مفہوم کتنا وسیع ہے۔۔۔یہ محض اپنے جیسے انسان کے محورکے گرد دیوانہ وار رقص کا نام نہیں۔ عشق راتوں کو جاگ کر تارے گننے اورمحبوب کی یاد میں تکیے بھگونے سے تکمیل کے مراحل طے نہیں کرتا ۔
عشق فطرت سے ہم آہنگی اور قربت سےپروان چڑھتا ہے۔یہ اپنے مدار سے نکل کر ایک بڑے دائرے میں محوِرقص ہونے کی خوشی فراہم کرتا ہے۔
آوارگی کی ہزارہا جہت کیا ہیں۔۔۔آوارگی وہ سفر ہے جو گھر سے بھاگنے پراُکساتا ہے۔۔۔تو جہاں گھر سے دوری تعلق مضبوط کرتی ہے۔۔۔ وہیں سوچ کا پھیلاؤ حقیقتِ دنیا سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
جنوں کا مثبت پہلو انسان کو ہوش وحواس سے بیگانہ نہیں کرتا بلکہ تمام حسیات کو ایک نئی تازگی اور توانائی بھی دیتا ہے۔
اگر ادب وہی ہے جو زندگی کے ہر رنگ ہر پہلو کو چھو جائے تو ادیب بھی وہی ہے جس کی ذاتی زندگی کا نہ صرف ورق ورق کھلا ہو بلکہ اوروں کے لیے نشانِ راہ بھی ہو۔جو تخیل کی خوابناک وادیوں کا ہمسفر ہی نہ ہو بلکہ اپنے 'ہمسفر'کے ساتھ زندگی کے چیختے حقائق کا بخوبی سامنا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
جو ہوا کے دوش پر اور سوچ کے اُفق پر محسوس کرنے والے دلوں کی دھڑکن ہی نہ ہو بلکہ اپنے جگرگوشوں کے لیے باعثِ مسرت بھی ہو۔
جناب تارڑ کے مہکتے لفظوں نے بتایا کہ۔۔۔
شاعری، موسیقیت اور مصوری کے شاہکار بند کمرے میں بیٹھ کر تخیل کے زور پر ہی نہیں تخلیق کیے جاتے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تخیل کی بلندیوں کو چھونے والے لفظ بصارت اور بصیرت کے انوکھے ملاپ سے جنم لیتے ہیں۔
رومانویت صرف مردوعورت کے مابین فطری اورازلی کشش کا تسلسل بھی نہیں۔محبت دو دلوں کے درمیان خفیہ رازونیاز کا نام ہی نہیں۔ یہ قدرت کے نظاروں،جھیل کناروں اوردودھیا چاندنی میں نہائی ہوئی فلک بوس چوٹی کے پہلو میں اپنے ساتھ وقت گزارنے کی حسین تنہائی بھی ہے۔ خود کلامی محض دیوانوں کی بڑ نہیں بلکہ رب کی شکرگزاری کا عظیم احساس بھی ہے۔
محبت اپنے رشتوں سے چھپ کر تعلقات کی غلام گردشوں میں آنکھ مچولی کا کھیل نہیں۔۔۔ بلکہ لفظ سےعشق پورے یقین اوراعتماد کے ساتھ اپنے بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراظہار کی ایک کیفیت ہے۔ محبت کا یہ راستہ بڑوں کو بھی اپنے بچوں کی نگاہ میں معتبر بناتا ہے۔
زندگی صرف سانس کا آنا جانا ہی نہیں بلکہ موت کی سچائی اپنے سامنے دیکھ کر۔۔۔اس سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے اس سے باتیں کرنے کا نام بھی ہے۔
ادب لازوال ہے تو ایک ادیب کیسےاپنے لفظ کے معنی میں محدود ہو سکتا ہے۔اس کی نگاہ کی وسعت قدرتی مناظر فطرت کے رنگوں اور انسان کے فطری جذبات کا بڑی خوبی سے احاطہ کرتی ہے۔۔۔ تو بلند وبالا برفوں اورگہری کھائیوں میں موت سے قربت اوردہشت کی تصویر کشی سچ مچ سانسیں روکتی ہے۔
جناب تارڑکے تمام سفر ادھورے اور تشنہ رہتے۔۔۔ان کی روشنی ایک مخصوص دائرے میں گردش کر کے فنا ہو جاتی اگر یہ روشنی ان کی اپنی ہی ذات کو نہ اجالتی۔
۔"منہ ول کعبہ شریف" اور "غارحرا میں ایک رات" ایسی کتب ہیں کہ جنہوں نے جناب تارڑ کے لفظ کی ابدیت اور قبولیت پرمالک کی مہر ثبت کر دی ہے۔ بےشک یہ رب کا کرم ہے کہ وہ اپنے پیارے بندے کو کس طرح نوازتا چلا جاتا ہے۔۔ میرے لیے ان دونوں کتابوں کے سفرِمبارک کے الفاظ سے زیادہ اہم وہ احساس تھا جو بند جوتوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُرپیچ وادیوں اور"قاتل" پہاڑوں سے ہوتا ہوا "مطاف" کے صحنِ مبارک میں مرمریں فرش پر سجدہ ریز ہوا تھا۔
وہ احساس بہت قیمتی اور انمول تھا جس نے ایک دشت گرد اپنے تئیں "آوارہ گرد" دنیا دار کو دنیا میں رہتے ہوئے اس مقام پر سربسجود کرایا جہاں جاتے ہوئے دنیا کے بڑے سے بڑے فرماں بردار کے قدم بھی لڑکھڑا جاتے ہیں یہ نصیب کی بات تھی۔۔۔ کرم کے فیصلے تھے۔۔۔"سفرِزیست" کی پاکیزگی تھی۔ یہ اس 'آوارہ گرد' کے اندر کی سچائی تھی جس نے ماہ وسال کی محدود عمر میں "تلاش" کے سفر کی تکمیل ممکن بنائی۔
آپ سے جانا کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کا عکاس ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کی شہادت کبھی نہیں دے سکتا۔اور یہ بھی کہ دین کسی دین دار کی ذاتی میراث نہیں۔ یہ قلب پر اتری لبیک کی وہ کیفیت ہے جو روح کی گواہی خود دیتی ہے
یوں کہنا قصیدہ گوئی ہرگز نہیں کہ جناب تارڑ اردو زبان کے وہ واحد ادیب ہیں جن کے لفظ کےقاری نہ صرف ہر دور۔۔۔ہر زمانے اور ہرعمر کے ہیں بلکہ ہرقسم کے مکتبۂ فکرسے تعلق رکھنے والے ان کے لفظوں کی خوشبو میں اپنا ذوق تلاش کر لیتے ہیں۔ادب کی فہرستیں ویسے بھی تارڑ کے تخیل کے سامنے بےبس نظر آتی ہیں کہ ان کی جادو اثر نثر کے سامنے شاعر کا تخٰیل بھی ماند پڑھ جاتا ہے۔ یہ ادب برائے لذتِ یا محض وقت گزاری نہیں بلکہ اُن کی کتب ایک مستند سفری دستاویز، تہذیبی ورثہ اور فکشن کا حسین امتزاج بھی ہیں۔یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ابھی تک جناب تارڑ کو ادب میں ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔ اس میں کوتاہ نظری یا روایت پرستی نہیں بلکہ ابھی تک وہ مقام ہی طے نہیں ہوا جہاں ہم اُن کے لفظوں کو رکھ سکیں۔۔۔پرکھ سکیں۔ لیکن!!! ایک مقام بےمثال اورغیرمتنازع ہے۔۔۔ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنانا۔
تارڑ صاحب کےساتھ لفظ کی ایک طویل رفاقت میں یہ جانا کہ" سفرزندگی تو ہے لیکن زندگی صرف سفرہی نہیں۔ زندگی کے اختتام سے پہلے ہمیں اپنے زمینی سفر کا پٹارا اپنے ہاتھوں سے بند کر کے ایک نئے سفر کے لیے خالی کر دینا چاہیے۔ ورنہ ساری کمائی لٹ جانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے"۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ جناب مستنصر حسین تارڑصاحب کو ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ زندگی کے سفر پر اسی طرح مہکتا اور رنگ بکھیرتا رکھے۔آمین
۔۔۔۔۔۔
میرا احساس اور محترمہ ثمینہ طارق کا بلاگ " طویل سفر کے بعدایک خوشبو بھری ملاقات،مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ"۔
فطرت سے رومانس کا جو احساس جناب کے سفرناموں میں ملتا ہے وہ محبت کے جذبے کی آفاقیت پر یقین کی مہر ثبت کرتا ہے۔ محبت کی عام انسانی روش اور جبلی خواہشات کی غمازی کرتے لفظ "پیار کا پہلا شہر" اور جپسی میں یوں چپکے سے دل میں اتر جاتے ہیں کہ جیسے ہماری ہی کہی ان کہی ہو ۔ پھر وقت کی گرد جب ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتی ہے تو " غارحرا میں ایک رات " اور"منہ ول کعبہ شریف" اس عشق کی پاکیزگی کی گواہی دہتے ہیں ۔ تارڑ صاحب کے لفظوں کی خوشبو ہمیشہ اپنے آس پاس محسوس کی۔ چاہے وہ شمالی علاقوں میں پہاڑوں کی نکھری شفاف مہک میں ملی یا پھر غار حرا کی بلندیوں کو پاؤں کا بوسہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
اور ہاں اس سال 20144 میں اسلام آباد کے ادبی میلے میں تارڑ صاحب سے چند لمحے کی ملاقات ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے بڑی دیر تک ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے آس پاس "عقیدت مندوں"کو دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہی کہ " محبت کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا ہے۔ اوراس میں عمر کی قید نہیں۔جب بات لفظ سے محبت کی ہو تو پھر زمان ومکان کے فاصلے بھی بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
عام طور پر جناب تارڑ کی کتابوں سے۔۔ان کے سفر ناموں سے۔۔ اور ان کے لفظوں کی سحرطرازی سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںلیکن میرے نزدیک جناب تارڑ کی زندگی کی کھلی کتاب اہم ہے۔۔عمر کے بدلتے موسم کے ساتھ ان کا ذہنی سفر اہم ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے وہ لفظ اہم ہیں جو پڑھنے والے کے دل کی آواز بن کر اسے قربت کا احساس دلاتے ہیں۔ میرے نزدیک "متاثر ہونا" درست لفظ نہیں کہ اس سے عقیدت جھلکتی ہےجو جہالت کی بند گلی کی طرف لے جاتی ہے کہ اس کے بعد انسان کوئی سوال پوچھنے کے قابل نہیں رہتا۔
http://daleel.pk/2016/09/07/6801
جواب دیںحذف کریںhttp://akhbarekhyber.com/epaper/edition/437/north-star-02-october-2016/page/14
جواب دیںحذف کریں