بدھ, اکتوبر 15, 2014

"لاپتہ افراد"



 سورۂ البقرۂ (2)۔۔۔ترجمہ آیت 286۔۔
۔"اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اُس کو اُن کا فائدہ پہنچے گا اور برے کام کرے گا تو اُسے اُن کا نقصان پہنچے گا۔۔ اے ہمارے رب اگرہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہم سے مواخذہ نہ کرنا۔اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔اے پروردگار جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں وہ ہم پر نہ رکھ۔۔ ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دےاور ہم پر رحم فرما۔تو ہی ہمارا مالک ہے اور کافروں کی قوم پرہماری نصرت فرما"۔
ہم دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں ان کی فضیلت سے بھی آگاہ ہیں ۔ لیکن! دعا رابطہ ہے۔۔۔دل کی پکار ہے۔۔۔عاجزی ہے۔یقین ہےتو صرف اس بات کا ہے کہ ہمارا خالق ہمیں سن رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے حق میں ہماری دعا بہتر ہے؟۔۔۔ جو ہم مانگ رہے ہیں اس کا ملنا یا نا ملنا ہمارے لیے کتنا اہم ہے؟۔ روزمرہ زندگی میں چھوٹی موٹی کھو جانے والی ان چیزوں کے لیے تو دعاؤں کو اس نیت سے پڑھ لینا چاہیے کہ شاید مالک ہمیں یاد دلا دے۔ گھر میں کھو جانے والی چھوٹی سی سوئی کے لیے بھی آدمی کتنا پریشان ہو جاتا ہے کہ بستر یا قالین پر پاؤں میں نہ چبھ جائے۔ لیکن کچھ گمشدہ چیزیں کبھی نہیں ملتیں۔۔۔ہم دعائیں مانگ مانگ کر تھک جاتے ہیں۔اہم بات اس "تھکنے"سے پہلے اللہ کی رضا میں راضی ہونا ہے اوریہی سب سے مشکل کام اور اصل امتحان ہے۔ جس کے لیے پہلے سے کی گئی کوئی تیاری معنی نہیں رکھتی۔
اپنے پیارے اپنے خونی رشتے میں سے کسی کی موت ہمارے نزدیک انسان کا سب سے بڑا غم ہے۔اوراچانک موت تو ہمیشہ کا ایک نہ بھولنے والا صدمہ دے جاتی ہے۔ لیکن سانحہ وہ بھی ہے جب کوئی اپنا گھر سے جائے اور واپس ہی نہ آئے۔ ایسے دنیا سے لاپتہ ہو جائے کہ جیسے کہیں تھا ہی نہیں کبھی آیا ہی نہ تھا۔ اس لمحے"موت"بہت بڑا انعام لگتی ہے کہ مرنے کا یقین ہونے۔۔۔ آخری بار چہرہ دیکھنے۔۔۔ زمین میں دفنائے جانے کی باتیں تو چھوڑیں۔۔۔ جانے والے کے لیے دعائے مغفرت تو کی جا سکتی ہے۔اور اس طرح جانے والا تو اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو ہمیشہ زندگی کے دوزخ میں چھوڑ جاتا ہے۔۔۔ کہ نہ اس کے "لاپتہ ہو جانے۔۔۔ ہمیشہ کے لیے چلےجانے کا یقین آتا ہے اورنہ واپسی کی امید نظر آتی ہے۔ انسان دوسرے انسانوں کو معذرت خواہانہ صفائیاں پیش کرتے کرتے بےیقینی اور تنہائی کے آسیب میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اوردوسرے رشتے چاہتے ہوئے بھی اسے اس گرداب سے نکال نہیں سکتے۔
وقت سب سے بڑا مرہم ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اللہ کا فضل اورایمان کی سلامتی کی دعا ہر حال میں مانگنا چاہیے۔سچ ہےکہ مشکل کی گھڑی میں انسان اتنا پریشان ہوتا ہے کہ کھوئے ہوئے کے لیے جہاں بھی ذرا سا امکان نظر آتا ہے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ یہ وقت ایمان کی سلامتی کا اصل امتحان بھی ہے۔
اللہ پاک آزمائش کی ہر گھڑی میں سرخرو کرے۔ ویسے بھی اللہ کا فرمان ہے کہ "وہ کسی نفس پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا" اور یہی ہماری دعا بھی ہونی چاہیے کہ اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جو اٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
آمین یا رب العالمین۔
دن12 بجے
اکتوبر15، 2014
۔۔۔۔۔
"ثمر"دعا کے حوالے سے 13 فروری 2012 کو لکھا گیا ایک احساس جو نومبر11، 2012 کو بلاگ کی صورت محفوظ کیا۔
۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...