منگل, اکتوبر 14, 2014

"چراغ"

زندگی اپنے آپ کو تلاش کرنے کے ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ حقیقت میں ہمارے رشتے ہمارے تعلق ساری زندگی ہمارےوجود کے بخیے اُدھیڑ کر نہ جانے تلاش کے کون کون سے مراحل طے کرتے ہیں اور اسی طرح ہم بھی اپنے آپ سے انجان ان کی ذات کی بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو کھوجتے چلے جاتے ہیں۔ اس لاحاصل سفر میں ہاتھ کسی کے کچھ نہیں آتا بظاہر زروجواہر سے لدے پھندے بھی نظر آئیں۔
جب تک ہم اپنے آپ کو۔۔۔ اپنی روشنی کو نہیں پہچانیں گے ہم کبھی بھی دنیا کے سمندر میں آنکھیں چکاچوند کر دینے والی روشنیوں کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ مٹی سے بنے انسان اپنی ہی مٹی کی خوشبو محسوس نہیں کریں گے تو وہ کس طرح اپنی تخلیق کا حق ادا کرسکتے ہیں۔آسمان کی وسعتوں کو چھونے کےآرزو مند اپنی محدود طاقت پرواز پرایمان نہیں لائیں گے تو اپنی ذات کے حصار سے نجات نہیں ملے گی۔ اپنے رنگوں کی مہک عالم بےخودی میں رقص پر مجبور بھی کر دے لیکن جب تک اپنے پیروں کو نہیں دیکھیں گے جنوں کی کیفیت سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔
 اصل بات اپنی اہلیت کو پہچاننا پھر بھی نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ پہچان کے بعد ہم کس طرح اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ آیا اہلیت کا ڈھول پیٹ کر سارے جہان کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔۔۔ان کو مسمرائز کر کے نہ صرف ان کی بلکہ اپنی بھی لمحاتی تشفی کرتے ہیں،اپنی خودستائش کے بت کو اونچا مقام دے کر۔۔۔ اس کے قدموں میں بیٹھ کر دوسروں کی ناقدری کا گلہ کرتے زندگی تمام کرتے ہیں۔ ایسے ڈھول اورایسے بتوں کی قربت ان کی اصل کبھی نہ کبھی ضرور سامنے لے آتی ہے۔ دوسروں کے سامنے نہ بھی آئے لیکن انسان اپنے اندر کا حال جانتا ہے وہ کبھی اپنی ذات میں مطمئن نہیں رہ سکتا۔
لفظ کے حوالے سے اس کردار کی قریب رہنے والوں کو نہ تو ضرورت  ہوتی ہے اور نہ ہی کبھی بھی اپنا آپ اس طرح جتانے کی تمنا ہونی چاہیے۔خود کلامی کے لیے کہیں بس ذرا سی جگہ مل جائے یہی بہت ہے۔نیت کا اجر رب کے ذمے ہے کہ وہ کس طرح اپنے بندے کو دیتا چلا جاتا ہے۔چاہنا اور چاہےجانے کی خواہش انسان کی فطرت اورجبلت کا حصہ ہے چاہے وہ جسم کی خوشنمائی ہو یا سوچ کی زیبائی۔ جسم کی طلب اس وقت تک سوہان روح بنی رہتی ہے جب تک وہ مٹی میں نہ مل جائے اورجسم کی تشنگی جسم کے ساتھ ہی پیوند خاک ہو جاتی ہے۔کتنے خوشنما چہرے وقت کی گرد میں گم ہو کرفنا ہو گئےباقی رہا تو سوچ کا سفر ۔۔۔خیال کی وسعت اور جستجو کی پکار جس نے نہ صرف آنے والے انسان کی ذہنی تشفی کی بلکہ اس کے لیے زندگی کو آسان بنانے کی راہ بھی ہموار کی۔لفظ کہانی کا سفر"چراغ" کی مثل ہے دیکھا جائےتو "چراغ" کا ہرمفہوم لفظ کی سفر کہانی پر پورا اُترتا ہے۔
 چراغ۔۔۔مٹی کا ننھا دیا صدیوں سے ہماری زندگی کا حصہ چلا آرہا ہے۔ روشنی کی رفتارماپنے کے اس ترقی یافتہ دورمیں وہ ٹمٹماتا دیا جوآج صرف ہماری زبان وبیان کی چاشنی میں نظر آتا ہے تو نئی نسل کے لیے خوشی کی تقاریب میں اس کو تھامنا عجیب سی اپنائیت اور چہروں پر جگمگاہٹ لاتا ہے۔۔۔اور مزاروں پرعقیدت مند بڑے ذوق وشوق سے اپنی منتوں مرادوں اور خواہشوں کے دیئے روشن کرتے ہیں۔ 
 چراغ ۔۔۔جو اندھیری راتوں میں امید کی کرن بن کر نمودار ہوتا ہے۔وقت کی گرد کبھی بھی اسے نگاہوں سے اوجھل کرسکتی ہے۔ عورت کو چراغ خانہ کہا گیا ہےاور صدیوں سے یہ بھی مستند بات سمجھی جاتی ہے کہ "گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے"۔اس رمزکو سمجھنا ایک عورت کے لیے بہت اہم ہے شاید ساری زندگی کہانی کا سب سے اہم سبق بھی جس پر کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہونا ہے۔ چراغ سے چراغ جلتے رہیں تو یہی اس کی زندگی کی کمائی ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا رہے تو روشنیوں کا سفر خواب جیسا توہوتا ہے لیکن خواب نہیں ہوتا۔
!حرف آخر 
ہمارا وجود اہرام کی طرح کا وہ عجوبہ ہے جس پر صدیوں سے قدموں کے نشان تو اتر رہے ہیں لیکن اس کی ہیئت۔۔۔ اس کی تحریر کاتب تقدیر کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اہرام کے کاتب تو ہزارہا برس قبل مٹ چکے لیکن ہمارا کاتب ہمیں آخری سانس تک سمجھنے کے مواقع دیتا رہتا ہے۔ بے شک ہم خود بھی اپنی تخلیق کا راز کبھی نہیں جان سکتے۔ لیکن ! جب تک وجود کے اس روزن میں سانس کی کھڑکی کھلی ہے ہر لمحے تازہ ہوا کا جھونکا کتاب ِزیست کا ایک نیا ورق پلٹتا جاتا ہے۔اپنے وجود کی رنگا رنگی دیکھ کر خالق کے حضور سربسجود ہونے کی تڑپ میں یقین وخلوص کا عنصر بڑھتا ہےتو' چراغ سحری' کی مانند لمحہ لمحہ فنا کی جانب گامزن روشنی نئی زندگی کی امید بھی روشن رکھتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...