یہ شناسائی بھی عجیب ہے۔۔۔برسوں کا ساتھ ہے۔۔۔ گزشتہ صدی کا قصہ ہے۔۔۔ اگر "لو ہیٹ ریلیشن شپ" ہےتو بےخبری کی چادرمیں لپٹی اپنائیت کی گم گشتہ کڑی بھی ہے۔جو زمانے کی گرد میں کھو جاتی تو کبھی اچانک یوں سامنے ملتی کہ دوری کا احساس پل میں دُور ہو جاتا۔
یہ 80کی دہائی کے اولین برسوں کی کہانی ہے۔عمر کا وہ دور۔۔۔ جب زندگی کے ہوم پیج پرآنے والی ہرفائل دھڑادھڑ ڈاؤن لوڈ ہو رہی تھی۔آس پاس بکھرے لفظوں کی کہکشاں کا ہررنگ اپنی جانب کھینچتا۔کہیں خلیل جبران کا فلسفہ زندگی دم بخود کرتا تو کبھی ابنِ انشاء،احمد فرازاور پروین شاکر کی نغماتی شاعری کے مترنم جھرنے شرابور کر دیتے۔۔۔ممتازمفتی کی نہ سمجھ آنے والی عورت کہانیاں تھیں تو نسیم حجازی کےلہو گرماتےتاریخی ناول بھی۔ان ریکھاؤں میں جب مستنصر حسین تارڑ کا نام جگمگانے لگا تو اُن کے لفظوں میں ہرلمس کی مہک نے سرشارکردیا۔ زندگی کےایک نئے دورمیں لفظ اور کتاب سے ربط قائم ضرور رہا لیکن اس کی جہت بدل گئی۔ زندگی پڑھنا شروع کی تو سوچ سفر کا زاویہ بھی اسی طرح رُخ بدلتا چلا گیا۔ واصف علی واصف اورپروفیسراحمد رفیق اختر کے واسطے سے نئے رنگ جذب ہوئے تو ممتازمفتی کی "تلاش" نے گویا تلاش ہی ختم کردی۔ تارڑصاحب کے لفظ سے دوستی میں بھی وہ شدت نہ رہی۔ لیکن کوئی کتاب مل جاتی تو پرانے دوست کی خوشبو کی طرح اپنا اسیر کر لیتی۔
ٹی وی پرآنے والےایک ہفتہ وار"شادی"پروگرام نے بہت بری طرح سےان کا امیج برباد کیا۔ لیکن ان کی کتابیں سب بُھلا دیتیں۔2005 میں حج کیا۔۔۔غارِحرا کی بلندیوں کو چھونے کی سعادت نصیب ہوئی توکسی اپنے کی طرح دل میں جناب تارڑ کا خیال ضرورآیا کہ اگر انہوں نے یہ سفرنہیں کیا۔۔۔یہ مقام نہیں دیکھا۔۔۔یہ لذت نہیں پائی تو شاید زندگی کے ایک بہت بڑے تحفے سےمحروم رہ گئے۔
پھرجب اچانک ان کی"غارحرا میں ایک رات"اور"منہ ول کعبےشریف"پڑھی تو جیسے ٹوٹتا رابطہ پھرسے بحال ہوگیا۔جناب تارڑ کی "نکلے تری تلاش" سے شروع ہونے والے لفظ کے سفر کو بچوں کے ساتھ شمالی علاقوں کی سیر نے خوب جلا بخشی۔ تارڑصاحب کے لفظ کی خوشبو سے بچوں کو روشناس کرایا تو بچے بھی ان کے اسیر ہوگئے۔لفظ اور فطرت سے محبت کا یہ دلکش ملاپ کئی منازل طے کرتا جینز میں یوں شامل ہوا کہ اب بچے اپنے شوق اور کام میں توازن رکھ کر شمالی علاقوں اور پہاڑوں کی مہم جوئی میں جناب تارڑ کے لفظوں کے سنگ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں بس ایک 'ماں' کا دل اُن کی ان دشوار گزار رستوں سے بخیریت واپسی کے لیے دعاگو اور مضطرب رہتا ہے۔ وہ راستے جو ماں کے لیے بھی اتنے ہی دیکھے بھالے ہیں جتنے وہ اپنے قدموں پر چل کر طے کرتے ہیں۔اس تعلق میں ایک خاموش یوٹرن یوں آیا کہ جب بچے ان مشکل پہاڑی راستوں پر ٹریکنگ کو جانےلگے۔ بحیثیت ماں ان کی بخیریت واپسی کے لیے جہاں دل دعاگو رہتا وہیں ایک نامعلوم سا احساس جرم بھی ستاتا کہ شاید یہ "نشہ" میرا ہی دیا ہوا ہے۔اب پتہ چلا کہ ایک بند کمرے میں بیٹھ کر کسی کتاب میں موت سے آنکھ مچولی کو پڑھنا اگر ایک رومانس کی صورت سانسوں کو زیروبم کرتا تھا یا پھر کسی ہاررفلم کی طرح اپنی گرفت میں لیتا تھا تو ان خطرناک راستوں کی اصلیت جانتے ہوئے۔۔۔محسوس کرتے ہوئے جب کوئی اپنا جاتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔ بچے واپس آ کر بڑے جذبے سے تارڑ صاحب کے حوالے سے ان جگہوں کی تصاویر دکھاتے۔۔۔فئیری میڈوزکی'تارڑ لیک' ہو بشام کا موٹل اوریا پھر نانگا پربت کا بیس کیمپ۔ دیوسائی کے کلک بہت دیکھے بھالے لگتے جیسے پہلی بار سے پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔ سکردواور ہنزہ تو یوں لگتے جیسے وہاں کا چپہ چپہ جانا پہچانا ہے۔
ان میں سب سے خاص سفر دسمبر 2013 کا تھا جب تاریخ میں پہلی بارکوئی پاکستانی گروپ دسمبر کی آخری شام اورنئےسال کی پہلی رات" فئیری میڈوز"میں گزارنے کے لیے وہاں گیا تھا۔ فئیری میڈوزکا برفیلا حسن بھی خوب تھا۔
ایک یادگارسفر14 اگست کی صبحِ آزادی ہنزہ کی شفاف فضاؤں میں محسوس کرنا اورپھر تصویر کے کلک سے میں بھی اسی لمحے میں سانس لینے لگی اورپھراکتوبر کے آخری روز ہنزہ ویلی کے"خزاں رنگ"توسال کا سب سے خوبصورت تحفہ تھے۔
سال 2014 کی ایک مہم وادی سوات کی بلند چوٹی "فلک سیر" کو سرکرنا تھا۔
جناب تارڑ کے اندازبیاں کا خاص کمال پڑھنے والے کو اپنے ہمراہ سفر پر لے جانا ہے۔لیکن لفظ پڑھ کر بچوں کی آنکھوں سے
ان جگہوں کو محسوس کرنا بہت خاص اورمنفرد تجربہ ہے۔۔۔تارڑصاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئےاُن کا چپکے چپکے مسکرانا۔۔۔
اُن کا اس جگہ پرجانے کے بعد یا جانے سے پہلے تارڑ کی کتاب کا پڑھنا بھی عجیب سی سنسنی دیتا کہ جیسے اپنے کسی ذاتی تجربے میں بچے بھی شریک ہوں یا بچے والدین کو اپنے تجربات میں شریک کریں۔
ان دشوارگزار پہاڑی راستوں پر سفراگرموت کے کنوئیں میں موٹرسائیکل چلانےجیسا مشغلہ ہےتو یہ نشہ، تھرل اور جنون اس سےبھی بڑھ کر ہے۔اس جنوں کا مثبت پہلو آپ کو اپنے مقصد حیات سے دورنہیں کرتا۔۔۔ بلندوبالا دورافتادہ ان چھوئی وادیوں کونظر کے لمس سے چھونے کی چاہ رکھنے والے پہلے اپنے آپ کواس قابل بناتے ہیں۔۔۔کاروبارِزندگی میں سے وقت اوروسائل نکالتے ہیں۔۔۔اس جگہ سربسجود ہو کر رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔۔اپنے وطن کا پرچم ضرور ساتھ رکھتے ہیں اوراسے سربلند کرنا نہیں بھولتے۔
سب سے بڑھ کر اہم بات بچوں کا کتاب اوراردو زبان سے رشتہ صرف اورصرف مستنصرحسین تارڑ کے لفظوں کی تار سے ہی جڑا ہوا ہےاور اس کے ساتھ آج کے مصروف دورمیں اپنے ساتھ وقت گزارنے کا ایسا احساس جو نایاب بھی ہے۔ کتاب کی محبت کو نئی نسل میں اتنی ہی تازگی اوراپنائیت کے ساتھ زندہ رکھنا صرف اورصرف تارڑ صاحب کا ہی خاصہ ہے۔ کہ آج کل کی نوجوان نسل شعروشاعری اور افسانہ نگاری سے زیادہ عملی زندگی میں دلچسبی رکھتی ہے۔ سفر کے ساتھ سفر کی روئیداد جہاں سفر کے حسن کو دوبالا کرتی ہے وہیں فطرت سے قربت کی چاہ اور پاک فضاؤں کو چھونے کی لگن احساس کو پاکیزگی بھی عطا کرتی ہے جو آج کے دورمیں ایک بیش بہا نعمتِ سے کم نہیں۔
آخرمیں ایک بات چپکے سے۔۔۔ کہ جب بچے ایسی جگہوں پر جاتے ہیں تو میرے لیے وہ چند دن بس ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے اندر کا سانس اندر ہی رہ جائے۔۔۔چپ کی چادر اوڑھ کربظاہر نارمل رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔اپنے آپ کو سمجھاتی بلکہ ڈانٹتی بھی ہوں کہ میں کوئی پرانے زمانے کی روایتی ماں یا اچھی ماں ہرگز نہیں۔خوشی خوشی ان کے جانے میں مدد دیتی ہوں۔اب تو اجازت کا زمانہ بھی نہیں رہا بس اپنا شیڈول بتا دیا جاتا ہے۔ لیکن !!! شاید مامتا کا جذبہ نیا پرانا نہیں ہوتا اوراس کے ڈر خوف بھی ہمیشہ سے ایک ہی حالت میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔
!آخری بات
زندگی بھی کیا چیز ہے اس وقت تک بنتی سنورتی اورلشکارے مارتی رہتی ہے جب تک قسمت کے سگنل ہمارے حق میں روشن رہتے ہیں اوریہی زندگی یکدم اندھیر بھی ہوجاتی ہےجب وقت کے فیصلے ہمارے خلاف آئیں۔
اللہ پاک ہمیں ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔ہمیں نہ صرف محبت کی پہچان کا ہنرعطا کرے بلکہ ہماری محبتوں کی شدتوں میں اعتدال بھی قائم رکھے۔آمین۔
فئیری میڈوز میں سال 2014 کی پہلی صبح
یہ 80کی دہائی کے اولین برسوں کی کہانی ہے۔عمر کا وہ دور۔۔۔ جب زندگی کے ہوم پیج پرآنے والی ہرفائل دھڑادھڑ ڈاؤن لوڈ ہو رہی تھی۔آس پاس بکھرے لفظوں کی کہکشاں کا ہررنگ اپنی جانب کھینچتا۔کہیں خلیل جبران کا فلسفہ زندگی دم بخود کرتا تو کبھی ابنِ انشاء،احمد فرازاور پروین شاکر کی نغماتی شاعری کے مترنم جھرنے شرابور کر دیتے۔۔۔ممتازمفتی کی نہ سمجھ آنے والی عورت کہانیاں تھیں تو نسیم حجازی کےلہو گرماتےتاریخی ناول بھی۔ان ریکھاؤں میں جب مستنصر حسین تارڑ کا نام جگمگانے لگا تو اُن کے لفظوں میں ہرلمس کی مہک نے سرشارکردیا۔ زندگی کےایک نئے دورمیں لفظ اور کتاب سے ربط قائم ضرور رہا لیکن اس کی جہت بدل گئی۔ زندگی پڑھنا شروع کی تو سوچ سفر کا زاویہ بھی اسی طرح رُخ بدلتا چلا گیا۔ واصف علی واصف اورپروفیسراحمد رفیق اختر کے واسطے سے نئے رنگ جذب ہوئے تو ممتازمفتی کی "تلاش" نے گویا تلاش ہی ختم کردی۔ تارڑصاحب کے لفظ سے دوستی میں بھی وہ شدت نہ رہی۔ لیکن کوئی کتاب مل جاتی تو پرانے دوست کی خوشبو کی طرح اپنا اسیر کر لیتی۔
ٹی وی پرآنے والےایک ہفتہ وار"شادی"پروگرام نے بہت بری طرح سےان کا امیج برباد کیا۔ لیکن ان کی کتابیں سب بُھلا دیتیں۔2005 میں حج کیا۔۔۔غارِحرا کی بلندیوں کو چھونے کی سعادت نصیب ہوئی توکسی اپنے کی طرح دل میں جناب تارڑ کا خیال ضرورآیا کہ اگر انہوں نے یہ سفرنہیں کیا۔۔۔یہ مقام نہیں دیکھا۔۔۔یہ لذت نہیں پائی تو شاید زندگی کے ایک بہت بڑے تحفے سےمحروم رہ گئے۔
پھرجب اچانک ان کی"غارحرا میں ایک رات"اور"منہ ول کعبےشریف"پڑھی تو جیسے ٹوٹتا رابطہ پھرسے بحال ہوگیا۔جناب تارڑ کی "نکلے تری تلاش" سے شروع ہونے والے لفظ کے سفر کو بچوں کے ساتھ شمالی علاقوں کی سیر نے خوب جلا بخشی۔ تارڑصاحب کے لفظ کی خوشبو سے بچوں کو روشناس کرایا تو بچے بھی ان کے اسیر ہوگئے۔لفظ اور فطرت سے محبت کا یہ دلکش ملاپ کئی منازل طے کرتا جینز میں یوں شامل ہوا کہ اب بچے اپنے شوق اور کام میں توازن رکھ کر شمالی علاقوں اور پہاڑوں کی مہم جوئی میں جناب تارڑ کے لفظوں کے سنگ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں بس ایک 'ماں' کا دل اُن کی ان دشوار گزار رستوں سے بخیریت واپسی کے لیے دعاگو اور مضطرب رہتا ہے۔ وہ راستے جو ماں کے لیے بھی اتنے ہی دیکھے بھالے ہیں جتنے وہ اپنے قدموں پر چل کر طے کرتے ہیں۔اس تعلق میں ایک خاموش یوٹرن یوں آیا کہ جب بچے ان مشکل پہاڑی راستوں پر ٹریکنگ کو جانےلگے۔ بحیثیت ماں ان کی بخیریت واپسی کے لیے جہاں دل دعاگو رہتا وہیں ایک نامعلوم سا احساس جرم بھی ستاتا کہ شاید یہ "نشہ" میرا ہی دیا ہوا ہے۔اب پتہ چلا کہ ایک بند کمرے میں بیٹھ کر کسی کتاب میں موت سے آنکھ مچولی کو پڑھنا اگر ایک رومانس کی صورت سانسوں کو زیروبم کرتا تھا یا پھر کسی ہاررفلم کی طرح اپنی گرفت میں لیتا تھا تو ان خطرناک راستوں کی اصلیت جانتے ہوئے۔۔۔محسوس کرتے ہوئے جب کوئی اپنا جاتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔ بچے واپس آ کر بڑے جذبے سے تارڑ صاحب کے حوالے سے ان جگہوں کی تصاویر دکھاتے۔۔۔فئیری میڈوزکی'تارڑ لیک' ہو بشام کا موٹل اوریا پھر نانگا پربت کا بیس کیمپ۔ دیوسائی کے کلک بہت دیکھے بھالے لگتے جیسے پہلی بار سے پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔ سکردواور ہنزہ تو یوں لگتے جیسے وہاں کا چپہ چپہ جانا پہچانا ہے۔
ان میں سب سے خاص سفر دسمبر 2013 کا تھا جب تاریخ میں پہلی بارکوئی پاکستانی گروپ دسمبر کی آخری شام اورنئےسال کی پہلی رات" فئیری میڈوز"میں گزارنے کے لیے وہاں گیا تھا۔ فئیری میڈوزکا برفیلا حسن بھی خوب تھا۔
ایک یادگارسفر14 اگست کی صبحِ آزادی ہنزہ کی شفاف فضاؤں میں محسوس کرنا اورپھر تصویر کے کلک سے میں بھی اسی لمحے میں سانس لینے لگی اورپھراکتوبر کے آخری روز ہنزہ ویلی کے"خزاں رنگ"توسال کا سب سے خوبصورت تحفہ تھے۔
سال 2014 کی ایک مہم وادی سوات کی بلند چوٹی "فلک سیر" کو سرکرنا تھا۔
جناب تارڑ کے اندازبیاں کا خاص کمال پڑھنے والے کو اپنے ہمراہ سفر پر لے جانا ہے۔لیکن لفظ پڑھ کر بچوں کی آنکھوں سے
ان جگہوں کو محسوس کرنا بہت خاص اورمنفرد تجربہ ہے۔۔۔تارڑصاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئےاُن کا چپکے چپکے مسکرانا۔۔۔
اُن کا اس جگہ پرجانے کے بعد یا جانے سے پہلے تارڑ کی کتاب کا پڑھنا بھی عجیب سی سنسنی دیتا کہ جیسے اپنے کسی ذاتی تجربے میں بچے بھی شریک ہوں یا بچے والدین کو اپنے تجربات میں شریک کریں۔
ان دشوارگزار پہاڑی راستوں پر سفراگرموت کے کنوئیں میں موٹرسائیکل چلانےجیسا مشغلہ ہےتو یہ نشہ، تھرل اور جنون اس سےبھی بڑھ کر ہے۔اس جنوں کا مثبت پہلو آپ کو اپنے مقصد حیات سے دورنہیں کرتا۔۔۔ بلندوبالا دورافتادہ ان چھوئی وادیوں کونظر کے لمس سے چھونے کی چاہ رکھنے والے پہلے اپنے آپ کواس قابل بناتے ہیں۔۔۔کاروبارِزندگی میں سے وقت اوروسائل نکالتے ہیں۔۔۔اس جگہ سربسجود ہو کر رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔۔اپنے وطن کا پرچم ضرور ساتھ رکھتے ہیں اوراسے سربلند کرنا نہیں بھولتے۔
سب سے بڑھ کر اہم بات بچوں کا کتاب اوراردو زبان سے رشتہ صرف اورصرف مستنصرحسین تارڑ کے لفظوں کی تار سے ہی جڑا ہوا ہےاور اس کے ساتھ آج کے مصروف دورمیں اپنے ساتھ وقت گزارنے کا ایسا احساس جو نایاب بھی ہے۔ کتاب کی محبت کو نئی نسل میں اتنی ہی تازگی اوراپنائیت کے ساتھ زندہ رکھنا صرف اورصرف تارڑ صاحب کا ہی خاصہ ہے۔ کہ آج کل کی نوجوان نسل شعروشاعری اور افسانہ نگاری سے زیادہ عملی زندگی میں دلچسبی رکھتی ہے۔ سفر کے ساتھ سفر کی روئیداد جہاں سفر کے حسن کو دوبالا کرتی ہے وہیں فطرت سے قربت کی چاہ اور پاک فضاؤں کو چھونے کی لگن احساس کو پاکیزگی بھی عطا کرتی ہے جو آج کے دورمیں ایک بیش بہا نعمتِ سے کم نہیں۔
آخرمیں ایک بات چپکے سے۔۔۔ کہ جب بچے ایسی جگہوں پر جاتے ہیں تو میرے لیے وہ چند دن بس ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے اندر کا سانس اندر ہی رہ جائے۔۔۔چپ کی چادر اوڑھ کربظاہر نارمل رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔اپنے آپ کو سمجھاتی بلکہ ڈانٹتی بھی ہوں کہ میں کوئی پرانے زمانے کی روایتی ماں یا اچھی ماں ہرگز نہیں۔خوشی خوشی ان کے جانے میں مدد دیتی ہوں۔اب تو اجازت کا زمانہ بھی نہیں رہا بس اپنا شیڈول بتا دیا جاتا ہے۔ لیکن !!! شاید مامتا کا جذبہ نیا پرانا نہیں ہوتا اوراس کے ڈر خوف بھی ہمیشہ سے ایک ہی حالت میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔
!آخری بات
زندگی بھی کیا چیز ہے اس وقت تک بنتی سنورتی اورلشکارے مارتی رہتی ہے جب تک قسمت کے سگنل ہمارے حق میں روشن رہتے ہیں اوریہی زندگی یکدم اندھیر بھی ہوجاتی ہےجب وقت کے فیصلے ہمارے خلاف آئیں۔
اللہ پاک ہمیں ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔ہمیں نہ صرف محبت کی پہچان کا ہنرعطا کرے بلکہ ہماری محبتوں کی شدتوں میں اعتدال بھی قائم رکھے۔آمین۔
فئیری میڈوز میں سال 2014 کی پہلی صبح
سال 2013 کی آخری شام ۔۔۔ فئیری میڈوز
بیال کیمپ ٹریک ۔۔۔ فئیری میڈوز
۔۔۔۔۔۔۔
۔ 2014۔۔۔چوٹی فلک سیر۔۔۔ سوات ویلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنزہ ویلی میں خزاں کے رنگ
اکتوبر
2014
کتنا خوبصورت ملک ہے ہمارا پاکستان بھی۔۔۔ اور ہم ہیں کہ اس خوبصورتی کو مٹانے پہ تلے ہوئے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب صورت بیان۔۔۔۔۔ "
جواب دیںحذف کریںزندگی بھی کیا چیز ہے اس وقت تک بنتی سنورتی اورلشکارے مارتی رہتی ہے جب تک قسمت کے سگنل ہمارے حق میں روشن رہتے ہیں اوریہی زندگی یکدم اندھیر بھی ہوجاتی ہےجب وقت کے فیصلے ہمارے خلاف آئیں"
تحریر کے ساتھ خوب صورت پاکستان سبحان اللہ
what a journey that started with reading poetry of Faraz and Parveen Shakir and progressed towards mysticism of Wasif Ali Wasif and Tassawuf of Prof. Ahmed Rafique Akhtar and found Mumtaz Mufti.s TALASH as the pinnacle of that search but in fact the pinnacle was to found in writings and journeys of once favorite writer who was discarded but rediscovered after Ghar e Hira me aik Raat.
جواب دیںحذف کریں