محترمہ بانو قدسیہ کے انتقال(5فروری 2017) کے بعد جنابمستنصرحسین تارڑ کے آنے والے دو کالم۔۔۔
٭1) 12فروری 2017۔۔۔
صاحباں کے مرنے پر کُل خدائی آ گئی۔۔۔مستنصرحسین تارڑ
ایک مرتبہ پھر ماڈل ٹاؤن کے ایک گھر ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جتنی بھی گلیاں جاتی تھیں، جتنی سڑکیں اُس سرائے کی طرف اترتی تھیں وہ سب کی سب لوگوں کے ہجوم سے اَٹی پڑی تھیں، اتنے لوگ بے شمار کہ وہ حرکت نہ کرتے تھے، ہولے ہولے سرکتے تھے، نوجوان عورتیں اور بوڑھیاں جیسے گھر سے کسی ماتم کدہ کی جانب رواں ہوں، اُن کے چہرے الم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، صرف اُن کی آنکھیں تھیں جو آنسوؤں سے روشن ہوتی تھیں۔۔۔ وہاں معاشرے کے ہر طبقے کے افراد چلے آتے تھے، غریب اور مسکین بھی، ثروت مند اور حکمران بھی، کئی سفید ڈاڑھیوں والے نامعلوم درویش بھی۔۔۔ اور یہ سب سر جھکائے آنے والے لوگ حیرت انگیز طور پر آپس میں گفتگو نہ کرتے تھے، صرف اُن کی قدموں کی سرسراہٹ کی آواز آتی تھی جیسے کسی درگاہ پر حاضری دینے والے معتقدین کے قدموں سے آتی ہے۔۔۔ کبھی کبھار کسی پولیس کے ہوٹر کی آواز ماحول کی خاموشی پر ایک الم ناک چیخ کی مانند اتر کر اُس کو کرچی کرچی کر دیتی ہے۔۔۔
آخر یہ کون سا میلہ تھا جہاں لوگ کشاں کشاں چلے آ رہے ہیں، کیا یہ اس جگ والا وہی میلہ تھا جو تھوڑی دیر کا ہوتا ہے، ہنستے ہوئے رات گزر جاتی ہے اور کچھ پتا نہیں سویر کب ہو جائے، وہی موت کا میلہ تھا۔اور آخر یہ کون سا ’’کھیل تماشا‘‘ ہے کہ اسے دیکھنے کی خاطر ایک دنیا اُمڈ اُمڈ آتی ہے۔
۔’’زبیر۔۔۔ یہ جان لو کہ یہ جنازہ اشفاق احمد کی بیوی کا نہیں، یہ بانو قدسیہ کا جنازہ ہے‘‘۔
اور آج بانو قدسیہ ہار گئی تھی۔۔۔ جب اشفاق احمد نے اُس کے لئے اپنا خاندان، اپنا حسب نسب، اپنی جائیداد اور سب سگے چھوڑ دیئے، اشفاق کو اس لئے عاق کر دیا گیا کہ اُس نے اُن سب کی مخالفت کے باوجود چپکے سے چند دوستوں کے ساتھ قدسیہ بانو چٹھہ سے نکاح کر لیا تھا اور اُسے بانو قدسیہ کا نام دیا تھا تو اُس لمحے اُس چٹھہ جاٹ لڑکی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے پٹھان محبوب کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ دے گی۔۔۔ ساری عمر اُس کی باندی بنی رہے گی، اُس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے چلے گی، اپنی باگیں کھینچ کر اپنی انا اور تخلیق کے گھوڑے کو کبھی اس کرشن کی سرکشی کے گھوڑے سے آگے نہیں لے جائے گی۔۔۔ وہ اپنے آپ کو وقف نہیں تلف کر دے گی۔۔۔ وہ ایک میرا بائی ہو گئی جو کرشن سے بیاہی گئی اور ساری عمر اُس کے گیت گاتی رہی۔
ہے آنکھ وہ جو شام کا درشن کیا کرے
ہے ہاتھ وہ جو بھگوان کا پوجن کیا کرے
یعنی۔۔۔ رانجھا رانجھا کر دی میں آپ ہی رانجھا ہوئی۔۔۔
اُس نے اشفاق احمد کو اپنا شام، اپنا کرشن، اپنا رانجھا اور مہینوال کر لیا۔۔۔ یہ لاہور کا ’’جادو گھر‘‘ فری میسن ہال تھا، کوئی ادبی تقریب اختتام پذیر ہوئی اور میں بانو آپا سے گفتگو کرتا باہر آنے لگا تو وہ صدر دروازے پر رُک گئیں ۔ ’’آئیں بانو آپا‘‘۔۔۔ وہ رُکی رہیں، دہلیز کے پار قدم نہ رکھا اورپھر کہنے لگیں ’’خان صاحب اپنے دوستوں اور مداحوں میں گھرے ہوئے ہیں، جب وہ آئیں گے اور باہر جائیں گے تو میں اُن کے پیچھے جاؤں گی، اُن سے پہلے نہیں‘‘۔مجھے یہ شوہر نامدار کی اطاعت کا رویہ اچھا نہ لگا تو میں نے شاید کہا کہ بانو آپا پلیز۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ’’مستنصر، پہلے انجن آگے جائے گا اور پھر اُس کے پیچھے ہی گاڑی جائے گی‘‘۔۔۔ اس اطاعت گزاری کے باوجود اشفاق صاحب کے خاندان نے کبھی اُنہیں مکمل طور پر قبول نہ کیا یہاں تک کہ اشفاق صاحب کے جنازے پر اُن کا ایک بھائی ایک سفید پیراہن میں تھا جس پر لکھا تھا ’’بانو قدسیہ میرے بھائی کی قاتل ہے‘‘۔۔۔ اُن کا کمالِ نَے نوازی اُن کے کچھ کام نہ آیا۔ میں یہاں وہ لفظ نہیں لکھ سکتا جو اُن کے کچھ اہل خاندان اُن کے لئے استعمال کرتے تھے۔۔۔ اُدھر اشفاق احمد بھی ایک بلند سنگھاسن پر براجمان ایک ایسے دیوتا تھے جن کے چرنوں میں اگر عقیدت کے پھول کم نچھاور کئے جاتے تھے تو وہ اسے پسند نہ کرتے تھے۔ پٹھان اشفاق احمد اکثر بابا اشفاق احمد پر حاوی ہو جاتا تھا۔۔۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ میں اُس روز ماڈل ٹاؤن پارک کے دوستوں کے ہمراہ عادل کے ترتیب شدہ سفر کے نتیجے میں لاہور سے باہر۔۔۔ بھائی پھیرو اور جڑانوالا کی جانب پنجاب کی ایک عظیم رومانوی داستان کی کھوج میں مرزا صاحباں کی نسبت سے مشہور گاؤں داناباد گیا تھا۔۔۔ صاحباں اور مرزا کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہا تھا، اور بارش بہت شدید تھی جب ایک ہم سفر نے مجھے بتایا کہ بانو قدسیہ مر گئی ہے۔۔۔
میں اُس شب برستی بارش میں ’’داستان سرائے‘‘ پہنچا تو وہاں اتنا ہجوم تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔ نورالحسن روتا چلا جاتا تھا۔۔۔ اُن کا بیٹا اسیر میرے گلے لگ کر رو دیا۔۔۔
۔’’آپ اندر جا کر بانو آپا کو دیکھ لیں‘‘۔۔۔
’’نہیں، میں نے نہیں دیکھنا‘‘۔۔۔
تو یہ اگلا دن ہے جب ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جاتے سب راستے ہجوم سے بھرے پڑے تھے اور آج بانو قدسیہ اپنے کرشن سے اس لئے ہار گئی تھیں کہ اُن کا جنازہ اُن سے بہت بڑا تھا۔۔۔
صاحباں ہار گئی تھی۔۔۔
مرزا کے جنازے پر کم لوگ آئے تھے۔۔۔
صاحباں کے مرنے پر پوری خدائی آ گئی تھی۔
۔۔۔
واجاں ماریاں کئی وار وے۔۔۔ کسے نے میری گَل نہ سُنی
اُنہوں نے بھی آوازیں بہت دیں پر کسی نے اُن کی بات نہ سُنی۔۔۔ نہ اشفاق صاحب کے رشتے داروں نے اور نہ ہی اُن کی کسی بہو نے۔۔۔بلکہ اُن پر اپنے دروازے بند کرلئے۔۔۔بانو کی زندگی یونانی المیہ ڈراموں سے بھی کہیں بڑھ کر الم ناک اور دُکھ بھری تھی۔ اشفاق صاحب کے رخصت ہونے پر وہ کبھی کبھار صبح سویرے ماڈل ٹاؤن پارک میں چلی آتیں، اپنا دوپٹہ بار بار سفید بالوں پر درست کرتیں، اپنے دھیان میں مگن چلی جاتیں۔۔۔وہ جون جولائی کے قہر آلود گرم موسم تھے اور پارک میں املتاس کے جتنے بھی شجر تھے اُن پر زرد چینی لالٹینیں روشن ہو گئی تھیں۔ ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا آیا، املتاس کے پھولوں کے انبار میں ارتعاش پیدا ہوا اور وہ پھول درختوں سے جدا ہو کر ایک زرد بارش کی صورت دھیرے دھیرے گرنے لگے۔ ان میں سے ایک پھول، ایک زرد تتلی کی مانند ایک بھنورے کی مانند گھومتا اترا اور بانو آپا کے سفید بالوں میں اٹک گیا۔ وہ اُس کی موجودگی سے بے خبر تھیں اور یہ منظر میرے ذہن کے کینوس پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔۔۔ایک بوڑھی ہیر جس کا رانجھا اُس سے بچھڑ گیا تھا اُس کی اداسی میں گُم اور اُس کے سفید بالوں میں املتاس کا ایک زرد پھول یُوں اٹکا ہوا ہے جیسے وہ اُس کے محبوب کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ایک خط ہو اور وہ بے خبر ہے کہ شاید اُس کے رانجھے نے اُسے یہ زرد پریم پتر بھیجا ہے اور تب مجھے محسوس ہوا جیسے اُس املتاس کے زرد پُھول کا رنگ اُن کے بالو میں سرایت کرتا اُنہیں زرد کرتا ہے، اُن کے چہرے پر پھیلتا اُسے سرسوں کا ایک کھیت کرتا ہے اور بانو قدسیہ اُس لمحے ملک چین کی کوئی زرد شہزادی لگ رہی تھی۔۔۔میں نے اس بے مثال زرد تصویر کو اپنے ایک کالم میں نقش کیا۔۔۔چونکہ میں نہ کبھی کسی کو اطلاع کرتا ہوں اور نہ ہی اپنے کالم کی کاپی روانہ کرتا ہوں کہ دیکھئے یہ میں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ میں کسی کے لئے نہیں صرف اپنے لئے لکھتا ہوں۔۔۔تقریباً ایک ماہ کے بعد بانو آپا کا ایک خط آیا، اُن کے کسی چاہنے والے نے اُنہیں اس کالم کی فوٹوسٹیٹ روانہ کی تھی، بانو آپا نے جس طور اُس تحریر کو سراہا اُسے میں یہاں نقل کرنے سے گریز کرتا ہوں۔
وہ میرے تینوں بچوں کی شادیوں میں شریک ہوئیں، ہر ایک کی ہتھیلی پر کچھ رقم رکھی۔۔۔اُن کے لئے دعا کی، اُنہیں پیار کیا۔۔۔ اُن کی موت کی خبر اُن تینوں تک نیویارک، فلوریڈا اور ہنوئی میں پہنچی تو وہ کتنے دُکھی ہوئے یہ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔سُمیر نے کہا، ابّو میں نے ابھی تک وہ نوٹ سنبھال رکھا ہے جو بانو آپا نے مجھے پچھلی عید پر عیدی کے طور پر دیا تھا۔ وہ ہمیشہ میری خوشیوں میں شریک رہیں۔۔۔میری پچھترویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ اپنی نرس اور زبیر اکرم کے سہارے چلی آئیں۔ وہ اور عبداللہ حسین صدارت کے لئے میری پسند تھے کہ وہی میرے نزدیک اردو ادب کے سب سے بڑے نثرنگار تھے۔۔۔ جب ابرارالحق اور فریحہ پرویز میری سالگرہ کے گیت گانے کے لئے سٹیج پر آئے تو وہ مسکرانے لگیں، کبھی کبھی سر ہلا کر اُنہیں داد دیتیں۔۔۔جب گلزار صاحب کی آواز سپیکر پر گونجی اُنہوں نے سالگرہ کے حوالے سے کچھ توصیفی کلمات کہے تو پُوچھنے لگیں۔۔۔ یہ کون صاحب ہیں۔۔۔میں نے کہا بانو آپا یہ میرے دوست ہیں۔ یہ کہاں ہوتے ہیں۔۔۔ بعدازاں اُنہوں نے میرے بارے میں کچھ گفتگو کی اور میں جان گیا کہ بانو آپا اب بہکتی جا رہی ہیں، یادداشت اُن کا ساتھ چھوڑ رہی ہے، اُن کی آپ بیتی ’’راہ رواں‘‘ میں قدم قدم پر اُن کے بھٹک جانے کے آثار ہیں۔۔۔ وہ بُھلکڑ ہو گئی تھیں۔۔۔جِی چاہنے کے باوجود میں ’’داستان سرائے‘‘ جانے سے گریز کرتا کہ وہ نہ صرف خود ایک بھولی ہوئی داستان ہیں بلکہ وہ تو اپنی داستان بھی بھول چکی ہیں۔ ایک بار اُن کے ہاں گیا تو بہت دیر کے بعد کہنے لگیں ’’مستنصر تم ہو۔۔۔ تم تو اشفاق صاحب کے ڈراموں کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔۔۔بُوڑھے کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
فروری2017۔۔جناب مستنصرحسین تارڑ۔کراچی لٹریچرفیسٹیول۔۔
۔’’داستان سرائے‘‘کے آس پاس سب گلی کُوچے خلق خدا سے بھرے پڑے تھے، میمونہ کا کہنا تھا کہ بانو آپا کا جنازہ اس لئے
اتنا بڑا تھا کہ لوگوں نے اُنہیں ہمدردی کا ووٹ ڈالا تھا۔۔۔جو کچھ اُن پر گزری اور اُنہوں نے اُف تک نہ کی، برداشت کیا تو لوگ اُن کے صبر کو سلام کرنے آئے تھے۔ وہ اشفاق احمد کی بیوی کے جنازے پر نہیں۔۔۔بانو قدسیہ کے جنازے پر آئے تھے۔۔۔اگر اُنہیں اس ہجوم کا کچھ اندازہ ہوتا تو وہ وصیت کر جاتیں کہ لوگو مت آنا۔۔۔ میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔میرے محبوب کی نسبت میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔ پر لوگ کہاں سنتے ہیں، وہ آئے اور بے حساب آئے۔ اور اس کے باوجود بانو آپا نے تُرپ کا آخری پتّا اپنی موت کے بعد یُوں پھینکا۔۔۔ کہ اشفاق صاحب کے قدموں میں دفن ہو گئیں۔ میں نے آگے بڑھ کر جھانکا تو اُن کی قبر بہت گہری تھی، لحد میں وہ اپنے سفید کفن میں روپوش سمٹی سی، سجائی ہوئی، شرمائی ہو ئی پڑی تھیں کہ اُن کے سرہانے اُن کا محبوب سویا ہوا تھا۔۔۔ اور بالآخر اُن کو وصل نصیب ہو گیا تھا۔ اور جب گورکنوں نے کُدالوں سے اُن کی قبر کو مٹی سے بھر دیا اور اُس پر پھول چڑھائے گئے تو مجھے ایک مرتبہ پھر عذرا پاؤنڈ کا وہ نوحہ یاد آگیا جو اختر حسین جعفری نے لکھا تھا۔۔۔
تجھے ہم کس پُھول کا کفن دیں
تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
املتاس کا ایک زرد بھنورا پُھول بھی نہ تھا۔۔۔
٭1) 12فروری 2017۔۔۔
صاحباں کے مرنے پر کُل خدائی آ گئی۔۔۔مستنصرحسین تارڑ
ایک مرتبہ پھر ماڈل ٹاؤن کے ایک گھر ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جتنی بھی گلیاں جاتی تھیں، جتنی سڑکیں اُس سرائے کی طرف اترتی تھیں وہ سب کی سب لوگوں کے ہجوم سے اَٹی پڑی تھیں، اتنے لوگ بے شمار کہ وہ حرکت نہ کرتے تھے، ہولے ہولے سرکتے تھے، نوجوان عورتیں اور بوڑھیاں جیسے گھر سے کسی ماتم کدہ کی جانب رواں ہوں، اُن کے چہرے الم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، صرف اُن کی آنکھیں تھیں جو آنسوؤں سے روشن ہوتی تھیں۔۔۔ وہاں معاشرے کے ہر طبقے کے افراد چلے آتے تھے، غریب اور مسکین بھی، ثروت مند اور حکمران بھی، کئی سفید ڈاڑھیوں والے نامعلوم درویش بھی۔۔۔ اور یہ سب سر جھکائے آنے والے لوگ حیرت انگیز طور پر آپس میں گفتگو نہ کرتے تھے، صرف اُن کی قدموں کی سرسراہٹ کی آواز آتی تھی جیسے کسی درگاہ پر حاضری دینے والے معتقدین کے قدموں سے آتی ہے۔۔۔ کبھی کبھار کسی پولیس کے ہوٹر کی آواز ماحول کی خاموشی پر ایک الم ناک چیخ کی مانند اتر کر اُس کو کرچی کرچی کر دیتی ہے۔۔۔
آخر یہ کون سا میلہ تھا جہاں لوگ کشاں کشاں چلے آ رہے ہیں، کیا یہ اس جگ والا وہی میلہ تھا جو تھوڑی دیر کا ہوتا ہے، ہنستے ہوئے رات گزر جاتی ہے اور کچھ پتا نہیں سویر کب ہو جائے، وہی موت کا میلہ تھا۔اور آخر یہ کون سا ’’کھیل تماشا‘‘ ہے کہ اسے دیکھنے کی خاطر ایک دنیا اُمڈ اُمڈ آتی ہے۔
۔’’زبیر۔۔۔ یہ جان لو کہ یہ جنازہ اشفاق احمد کی بیوی کا نہیں، یہ بانو قدسیہ کا جنازہ ہے‘‘۔
اور آج بانو قدسیہ ہار گئی تھی۔۔۔ جب اشفاق احمد نے اُس کے لئے اپنا خاندان، اپنا حسب نسب، اپنی جائیداد اور سب سگے چھوڑ دیئے، اشفاق کو اس لئے عاق کر دیا گیا کہ اُس نے اُن سب کی مخالفت کے باوجود چپکے سے چند دوستوں کے ساتھ قدسیہ بانو چٹھہ سے نکاح کر لیا تھا اور اُسے بانو قدسیہ کا نام دیا تھا تو اُس لمحے اُس چٹھہ جاٹ لڑکی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے پٹھان محبوب کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ دے گی۔۔۔ ساری عمر اُس کی باندی بنی رہے گی، اُس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے چلے گی، اپنی باگیں کھینچ کر اپنی انا اور تخلیق کے گھوڑے کو کبھی اس کرشن کی سرکشی کے گھوڑے سے آگے نہیں لے جائے گی۔۔۔ وہ اپنے آپ کو وقف نہیں تلف کر دے گی۔۔۔ وہ ایک میرا بائی ہو گئی جو کرشن سے بیاہی گئی اور ساری عمر اُس کے گیت گاتی رہی۔
ہے آنکھ وہ جو شام کا درشن کیا کرے
ہے ہاتھ وہ جو بھگوان کا پوجن کیا کرے
یعنی۔۔۔ رانجھا رانجھا کر دی میں آپ ہی رانجھا ہوئی۔۔۔
اُس نے اشفاق احمد کو اپنا شام، اپنا کرشن، اپنا رانجھا اور مہینوال کر لیا۔۔۔ یہ لاہور کا ’’جادو گھر‘‘ فری میسن ہال تھا، کوئی ادبی تقریب اختتام پذیر ہوئی اور میں بانو آپا سے گفتگو کرتا باہر آنے لگا تو وہ صدر دروازے پر رُک گئیں ۔ ’’آئیں بانو آپا‘‘۔۔۔ وہ رُکی رہیں، دہلیز کے پار قدم نہ رکھا اورپھر کہنے لگیں ’’خان صاحب اپنے دوستوں اور مداحوں میں گھرے ہوئے ہیں، جب وہ آئیں گے اور باہر جائیں گے تو میں اُن کے پیچھے جاؤں گی، اُن سے پہلے نہیں‘‘۔مجھے یہ شوہر نامدار کی اطاعت کا رویہ اچھا نہ لگا تو میں نے شاید کہا کہ بانو آپا پلیز۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ’’مستنصر، پہلے انجن آگے جائے گا اور پھر اُس کے پیچھے ہی گاڑی جائے گی‘‘۔۔۔ اس اطاعت گزاری کے باوجود اشفاق صاحب کے خاندان نے کبھی اُنہیں مکمل طور پر قبول نہ کیا یہاں تک کہ اشفاق صاحب کے جنازے پر اُن کا ایک بھائی ایک سفید پیراہن میں تھا جس پر لکھا تھا ’’بانو قدسیہ میرے بھائی کی قاتل ہے‘‘۔۔۔ اُن کا کمالِ نَے نوازی اُن کے کچھ کام نہ آیا۔ میں یہاں وہ لفظ نہیں لکھ سکتا جو اُن کے کچھ اہل خاندان اُن کے لئے استعمال کرتے تھے۔۔۔ اُدھر اشفاق احمد بھی ایک بلند سنگھاسن پر براجمان ایک ایسے دیوتا تھے جن کے چرنوں میں اگر عقیدت کے پھول کم نچھاور کئے جاتے تھے تو وہ اسے پسند نہ کرتے تھے۔ پٹھان اشفاق احمد اکثر بابا اشفاق احمد پر حاوی ہو جاتا تھا۔۔۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ میں اُس روز ماڈل ٹاؤن پارک کے دوستوں کے ہمراہ عادل کے ترتیب شدہ سفر کے نتیجے میں لاہور سے باہر۔۔۔ بھائی پھیرو اور جڑانوالا کی جانب پنجاب کی ایک عظیم رومانوی داستان کی کھوج میں مرزا صاحباں کی نسبت سے مشہور گاؤں داناباد گیا تھا۔۔۔ صاحباں اور مرزا کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہا تھا، اور بارش بہت شدید تھی جب ایک ہم سفر نے مجھے بتایا کہ بانو قدسیہ مر گئی ہے۔۔۔
میں اُس شب برستی بارش میں ’’داستان سرائے‘‘ پہنچا تو وہاں اتنا ہجوم تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔ نورالحسن روتا چلا جاتا تھا۔۔۔ اُن کا بیٹا اسیر میرے گلے لگ کر رو دیا۔۔۔
۔’’آپ اندر جا کر بانو آپا کو دیکھ لیں‘‘۔۔۔
’’نہیں، میں نے نہیں دیکھنا‘‘۔۔۔
تو یہ اگلا دن ہے جب ’’داستان سرائے‘‘ کی جانب جاتے سب راستے ہجوم سے بھرے پڑے تھے اور آج بانو قدسیہ اپنے کرشن سے اس لئے ہار گئی تھیں کہ اُن کا جنازہ اُن سے بہت بڑا تھا۔۔۔
صاحباں ہار گئی تھی۔۔۔
مرزا کے جنازے پر کم لوگ آئے تھے۔۔۔
صاحباں کے مرنے پر پوری خدائی آ گئی تھی۔
۔۔۔
٭2)15فروری 2017)۔املتاس کا ایک زرد پُھول بانو قدسیہ کے سفید بالوں پر۔۔۔مستنصرحسین تارڑ
اشفاق صاحب کی وفات کے بعد بانو آپا حقیقتاً بھری دنیا میں اکیلی رہ گئیں۔۔۔جس دیوتا کے چرنوں میں وہ ہمہ وقت عقیدت اور اطاعت گزاری کے پھُول چڑھاتی تھیں، وہ اپنا سنگھان چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔صرف اُن کے بیٹے اسیر نے اُن کا ساتھ نہ چھوڑا، بقیہ دو بیٹے بھی اپنی ماں کے وجود سے بے خبر اپنی اپنی حیات کے بکھیڑوں میں اُلجھے رہے، منظور جھلّے نے کہا تھا کہ :واجاں ماریاں کئی وار وے۔۔۔ کسے نے میری گَل نہ سُنی
اُنہوں نے بھی آوازیں بہت دیں پر کسی نے اُن کی بات نہ سُنی۔۔۔ نہ اشفاق صاحب کے رشتے داروں نے اور نہ ہی اُن کی کسی بہو نے۔۔۔بلکہ اُن پر اپنے دروازے بند کرلئے۔۔۔بانو کی زندگی یونانی المیہ ڈراموں سے بھی کہیں بڑھ کر الم ناک اور دُکھ بھری تھی۔ اشفاق صاحب کے رخصت ہونے پر وہ کبھی کبھار صبح سویرے ماڈل ٹاؤن پارک میں چلی آتیں، اپنا دوپٹہ بار بار سفید بالوں پر درست کرتیں، اپنے دھیان میں مگن چلی جاتیں۔۔۔وہ جون جولائی کے قہر آلود گرم موسم تھے اور پارک میں املتاس کے جتنے بھی شجر تھے اُن پر زرد چینی لالٹینیں روشن ہو گئی تھیں۔ ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا آیا، املتاس کے پھولوں کے انبار میں ارتعاش پیدا ہوا اور وہ پھول درختوں سے جدا ہو کر ایک زرد بارش کی صورت دھیرے دھیرے گرنے لگے۔ ان میں سے ایک پھول، ایک زرد تتلی کی مانند ایک بھنورے کی مانند گھومتا اترا اور بانو آپا کے سفید بالوں میں اٹک گیا۔ وہ اُس کی موجودگی سے بے خبر تھیں اور یہ منظر میرے ذہن کے کینوس پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔۔۔ایک بوڑھی ہیر جس کا رانجھا اُس سے بچھڑ گیا تھا اُس کی اداسی میں گُم اور اُس کے سفید بالوں میں املتاس کا ایک زرد پھول یُوں اٹکا ہوا ہے جیسے وہ اُس کے محبوب کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ایک خط ہو اور وہ بے خبر ہے کہ شاید اُس کے رانجھے نے اُسے یہ زرد پریم پتر بھیجا ہے اور تب مجھے محسوس ہوا جیسے اُس املتاس کے زرد پُھول کا رنگ اُن کے بالو میں سرایت کرتا اُنہیں زرد کرتا ہے، اُن کے چہرے پر پھیلتا اُسے سرسوں کا ایک کھیت کرتا ہے اور بانو قدسیہ اُس لمحے ملک چین کی کوئی زرد شہزادی لگ رہی تھی۔۔۔میں نے اس بے مثال زرد تصویر کو اپنے ایک کالم میں نقش کیا۔۔۔چونکہ میں نہ کبھی کسی کو اطلاع کرتا ہوں اور نہ ہی اپنے کالم کی کاپی روانہ کرتا ہوں کہ دیکھئے یہ میں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ میں کسی کے لئے نہیں صرف اپنے لئے لکھتا ہوں۔۔۔تقریباً ایک ماہ کے بعد بانو آپا کا ایک خط آیا، اُن کے کسی چاہنے والے نے اُنہیں اس کالم کی فوٹوسٹیٹ روانہ کی تھی، بانو آپا نے جس طور اُس تحریر کو سراہا اُسے میں یہاں نقل کرنے سے گریز کرتا ہوں۔
وہ میرے تینوں بچوں کی شادیوں میں شریک ہوئیں، ہر ایک کی ہتھیلی پر کچھ رقم رکھی۔۔۔اُن کے لئے دعا کی، اُنہیں پیار کیا۔۔۔ اُن کی موت کی خبر اُن تینوں تک نیویارک، فلوریڈا اور ہنوئی میں پہنچی تو وہ کتنے دُکھی ہوئے یہ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔سُمیر نے کہا، ابّو میں نے ابھی تک وہ نوٹ سنبھال رکھا ہے جو بانو آپا نے مجھے پچھلی عید پر عیدی کے طور پر دیا تھا۔ وہ ہمیشہ میری خوشیوں میں شریک رہیں۔۔۔میری پچھترویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ اپنی نرس اور زبیر اکرم کے سہارے چلی آئیں۔ وہ اور عبداللہ حسین صدارت کے لئے میری پسند تھے کہ وہی میرے نزدیک اردو ادب کے سب سے بڑے نثرنگار تھے۔۔۔ جب ابرارالحق اور فریحہ پرویز میری سالگرہ کے گیت گانے کے لئے سٹیج پر آئے تو وہ مسکرانے لگیں، کبھی کبھی سر ہلا کر اُنہیں داد دیتیں۔۔۔جب گلزار صاحب کی آواز سپیکر پر گونجی اُنہوں نے سالگرہ کے حوالے سے کچھ توصیفی کلمات کہے تو پُوچھنے لگیں۔۔۔ یہ کون صاحب ہیں۔۔۔میں نے کہا بانو آپا یہ میرے دوست ہیں۔ یہ کہاں ہوتے ہیں۔۔۔ بعدازاں اُنہوں نے میرے بارے میں کچھ گفتگو کی اور میں جان گیا کہ بانو آپا اب بہکتی جا رہی ہیں، یادداشت اُن کا ساتھ چھوڑ رہی ہے، اُن کی آپ بیتی ’’راہ رواں‘‘ میں قدم قدم پر اُن کے بھٹک جانے کے آثار ہیں۔۔۔ وہ بُھلکڑ ہو گئی تھیں۔۔۔جِی چاہنے کے باوجود میں ’’داستان سرائے‘‘ جانے سے گریز کرتا کہ وہ نہ صرف خود ایک بھولی ہوئی داستان ہیں بلکہ وہ تو اپنی داستان بھی بھول چکی ہیں۔ ایک بار اُن کے ہاں گیا تو بہت دیر کے بعد کہنے لگیں ’’مستنصر تم ہو۔۔۔ تم تو اشفاق صاحب کے ڈراموں کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔۔۔بُوڑھے کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
فروری2017۔۔جناب مستنصرحسین تارڑ۔کراچی لٹریچرفیسٹیول۔۔
۔’’داستان سرائے‘‘کے آس پاس سب گلی کُوچے خلق خدا سے بھرے پڑے تھے، میمونہ کا کہنا تھا کہ بانو آپا کا جنازہ اس لئے
اتنا بڑا تھا کہ لوگوں نے اُنہیں ہمدردی کا ووٹ ڈالا تھا۔۔۔جو کچھ اُن پر گزری اور اُنہوں نے اُف تک نہ کی، برداشت کیا تو لوگ اُن کے صبر کو سلام کرنے آئے تھے۔ وہ اشفاق احمد کی بیوی کے جنازے پر نہیں۔۔۔بانو قدسیہ کے جنازے پر آئے تھے۔۔۔اگر اُنہیں اس ہجوم کا کچھ اندازہ ہوتا تو وہ وصیت کر جاتیں کہ لوگو مت آنا۔۔۔ میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔میرے محبوب کی نسبت میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔ پر لوگ کہاں سنتے ہیں، وہ آئے اور بے حساب آئے۔ اور اس کے باوجود بانو آپا نے تُرپ کا آخری پتّا اپنی موت کے بعد یُوں پھینکا۔۔۔ کہ اشفاق صاحب کے قدموں میں دفن ہو گئیں۔ میں نے آگے بڑھ کر جھانکا تو اُن کی قبر بہت گہری تھی، لحد میں وہ اپنے سفید کفن میں روپوش سمٹی سی، سجائی ہوئی، شرمائی ہو ئی پڑی تھیں کہ اُن کے سرہانے اُن کا محبوب سویا ہوا تھا۔۔۔ اور بالآخر اُن کو وصل نصیب ہو گیا تھا۔ اور جب گورکنوں نے کُدالوں سے اُن کی قبر کو مٹی سے بھر دیا اور اُس پر پھول چڑھائے گئے تو مجھے ایک مرتبہ پھر عذرا پاؤنڈ کا وہ نوحہ یاد آگیا جو اختر حسین جعفری نے لکھا تھا۔۔۔
تجھے ہم کس پُھول کا کفن دیں
تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
املتاس کا ایک زرد بھنورا پُھول بھی نہ تھا۔۔۔
it was indeed a sad day for Pakistan. she was a great writer , writer those are born in centuries, those who evolve and write for betterment of society. the gap cannot be fulfilled, gap of both ishfaq sab and bano appa two gems of Pakistan.
جواب دیںحذف کریں