وہ ایک جل پری تھی،زندگی کے ساحل کے قریب،کبھی پانی میں کبھی پانی سے باہر،بےچین و بےقرار،پانی میں ہوتی تو یوں جیسے ڈوب رہی ہو کوئی آئے اوراُسے نکال لے جائے اور پانی سے باہر پیاس سے بےحال ہو جاتی ۔ رنگوں کی ہمہ گیری نظروں کو اُس کے قریب لاتی ۔ پانی میں ہوتی تو قوس ِقزح کی صورت اُبھرتی ۔ اُس کی خاموش التجا مجبور کر دیتی کہ اُسے اس گرداب سے نکالا جائے۔ بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر دھیرے دھیرے کنارے پر آتی،مہربان لمس اُس کو آغوش میں لے کر اُداسی کی نمی جذب کرنے کی سعی کرتے۔ وہ ساری کُلفتیں ،ساری مسافتیں بھلا کر ایک پل کو کھل اُٹھتی ۔ وقت بھی ٹھہر کراُس کے رقص کو مبہوت ہوکر تکے جاتا لیکن کب تک !جب آنکھ کھلتی تو وقت ہوتا اور نہ وہ لمس۔ سب دھوپ کی تمازت میں پگھل چُکا ہوتا اور وہ بےدم اپنی اصل کو پکارتی،وہ جو بےخبر تو دِکھتا تھا پر سب جانتا تھا۔اُس کے قرب کا احساس ہر خلش مٹا دیتا-پھر یوں ہوتا کنارہ خود اُس کے قدموں کو چھونے لگتا ،بنا شکوہ کیے اُسے ڈھانپ لیتا ماں کی گود کی طرح جو بچے سے کبھی خفا نہیں ہوتی ۔
بلاشبہ وہ ایک خوبصورت جل پری تھی جسے چھوا تو جا سکتا ہے پر اپنایا نہیں جا سکتا،چاہا تو جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ ساتھ نہیں رکھا جا سکتا ۔ اُسے سمیٹا تو جا سکتا ہے لیکن اُس کے اندر اُتر کر اُس کی پیاس نہیں بُجھائی جا سکتی۔حنوط کر کے دل کے فریم پر لٹکایا جا سکتا ہے،اُس کے لمس کی پھوار میں اپنا سب لُٹایا جا سکتا ہے،اُس کا اپنا پن محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن راستوں کی دھول میں اُس کو پایا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک جل پری تھی جو صرف دل کے ساحلوں کے آس پاس بکھرتی تھی اور اُن کے لیے خاص تھی جو اُسے چھونے کا، پانے کا اور کھونے کا بھی حوصلہ رکھتے تھے۔
"وہ ایک جل پری تھی جو صرف دل کے ساحلوں کے آس پاس بکھرتی تھی اور اُن کے لیے خاص تھی جو اُسے چھونے کا، پانے کا اور کھونے کا بھی حوصلہ رکھتے تھے۔"
جواب دیںحذف کریںبہت خوب۔۔۔
کیسے کیسے خیال اٹھتے ہیں آپ کے دل و دماغ میں۔ ۔ اور ان کو سمجھنے کیلئے بھی کہیں دل تو کہیں دماغ کی ضرورت
جواب دیںحذف کریںkia kahon bht khobsort lafaz men dil ki tarjumani krdi ap ny ...perfect
جواب دیںحذف کریں