لوڈ شیڈنگ اور وہ بھی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ ایک عذاب ہے۔۔۔ مصیبت ہے۔۔۔ شدید ناانصافی ہے۔۔۔ ہمارے حُکمرانوں کا ظلم ہے- یہ خیالات یا کلمات ہمیں ہر وقت سراپا احتجاج بنائے رکھتے ہیں۔ ہم چڑچڑے پن کا شکارہوتے جا رہے ہیں۔کبھی ملک کو کوستے ہیں تو کبھی اپنے حالات کو۔کہنا سُننا بےشک بہت ضروری ہے۔انسان اپنے دل کی بھڑاس بھی نہ نکالے تو اورکیا کرے-مگرٹھہر کر ذرا غور بھی کر لیں تو منظراور ہے- لوڈ شیڈنگ کوئی آج کل کی بات نہیں یہ تو سالوں پرانا قصہ ہےپھر ہمیں اس کی عادت کیوں نہیں ہوئی ۔ عذاب یا مصیبت وہ ہے جو یکدم ٹوٹ پڑے۔ بہت سوں نے توآنکھ اِسی کے پہلو میں کھولی ہے تو پھر اس سے لاتعلقی کیسی -
اصل بات یہ ہے کہ ہم سہل پسند ہو گئے ہیں۔ چاہتے ہیں زندگی کی ہرلذت ہمارے دسترخوان پر سجا کررکھ دی جائے۔۔۔جی چاہا ہاتھ بڑھا لیا نہ چاہا تو پرے کر دی- سردیوں میں تو وقت جیسے تیسے گُزر جاتا ہے لیکن گرمی کاآغاز ہوتے ہی اس کے خلاف ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں -درست ہے کہ سارا قصور پالیسی سازوں اوراس پرعمل درآمد کرانے والوں کا ہے پرعوام اس سے براہ ِراست متاثر ہوتے ہیں-
ہم لوڈ شیڈنگ کا جن تو بوتل میں بند نہیں کر سکتے لیکن اس کے شر سے بچنے کی معمولی سی کوشش تو کر سکتے ہیں-سب سے پہلے اس بن بلائے مہمان کو جو خواہ عذاب ِجاں ہی ہےقبول کرلیں،اس کے آنے سے پہلے نہ صرف ذہنی طور پر تیار ہوں بلکہ عملی طور پر بھی اپنے کام نپٹا لیں - یہ بات گھریلو خواتین کی حد تک تو درست ہے لیکن جن افراد کا روزگار ہی بجلی کی دستیابی سے وابستہ ہے اُن کے لیے بلاشُبہ عذاب ہے۔ دوسرے مسائل جیسے مہنگائی ،تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان ،امن وعامہ کی مخدوش صورتِحال ،ذہنی عوارض سب کی جڑ بھی یہی لوڈ شیڈنگ ہے-
کیا لوڈ شیڈنگ ختم کیے بغیر خوشحالی کے راستے پر قدم رکھا جاسکتا ہے؟ یہ آج کا سوال ہےجس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا ۔ ہم کمزورانسان ہیں دُور کی سوچ نہیں رکھتے لیکن بچپن میں سُنی ہوئی اس کہانی کو دہرائیں۔۔۔جس میں شیر آتا دیکھ کر ایک دوست جان بچانے کو درخت پرچڑھ گیا اور دوسرا وہیں بےسُدھ ہو کر پڑا رہااور شیر اُسے نقصان پہنچائے بغیر پلٹ گیا۔ جب پہلے نے پوچھا کہ شیر نے تمہارے کان میں کیا کہا تو دوسرے دوست نے وہ لازوال فقرہ کہا جو آج بھی ہم سب کے کانوں میں گونجتا ہے
" دوست وہ ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے " -
اس وقت ہم سب اگر ایک ہو جائیں ویسے تو خاصی فلمی ،خیالی اورناممکن بات ہے لیکن خواب دیکھے جائیں تو ہی تعبیر ملتی ہے۔۔۔۔ بےخواب آنکھیں کیا جانیں خواب کی لذت - یہ وقت قربانی کا ہے،مالی طور پرخوشحال لوگ اگر اپنی رفتار تھوڑی سی کم کردیں پیچھےرہنے والوں کے لیے۔۔۔تو پھر ہم سب قدم ملا کر بحیثیت قوم سُرخرو ہو سکتے ہیں-
اصل بات یہ ہے کہ ہم سہل پسند ہو گئے ہیں۔ چاہتے ہیں زندگی کی ہرلذت ہمارے دسترخوان پر سجا کررکھ دی جائے۔۔۔جی چاہا ہاتھ بڑھا لیا نہ چاہا تو پرے کر دی- سردیوں میں تو وقت جیسے تیسے گُزر جاتا ہے لیکن گرمی کاآغاز ہوتے ہی اس کے خلاف ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں -درست ہے کہ سارا قصور پالیسی سازوں اوراس پرعمل درآمد کرانے والوں کا ہے پرعوام اس سے براہ ِراست متاثر ہوتے ہیں-
ہم لوڈ شیڈنگ کا جن تو بوتل میں بند نہیں کر سکتے لیکن اس کے شر سے بچنے کی معمولی سی کوشش تو کر سکتے ہیں-سب سے پہلے اس بن بلائے مہمان کو جو خواہ عذاب ِجاں ہی ہےقبول کرلیں،اس کے آنے سے پہلے نہ صرف ذہنی طور پر تیار ہوں بلکہ عملی طور پر بھی اپنے کام نپٹا لیں - یہ بات گھریلو خواتین کی حد تک تو درست ہے لیکن جن افراد کا روزگار ہی بجلی کی دستیابی سے وابستہ ہے اُن کے لیے بلاشُبہ عذاب ہے۔ دوسرے مسائل جیسے مہنگائی ،تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان ،امن وعامہ کی مخدوش صورتِحال ،ذہنی عوارض سب کی جڑ بھی یہی لوڈ شیڈنگ ہے-
کیا لوڈ شیڈنگ ختم کیے بغیر خوشحالی کے راستے پر قدم رکھا جاسکتا ہے؟ یہ آج کا سوال ہےجس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا ۔ ہم کمزورانسان ہیں دُور کی سوچ نہیں رکھتے لیکن بچپن میں سُنی ہوئی اس کہانی کو دہرائیں۔۔۔جس میں شیر آتا دیکھ کر ایک دوست جان بچانے کو درخت پرچڑھ گیا اور دوسرا وہیں بےسُدھ ہو کر پڑا رہااور شیر اُسے نقصان پہنچائے بغیر پلٹ گیا۔ جب پہلے نے پوچھا کہ شیر نے تمہارے کان میں کیا کہا تو دوسرے دوست نے وہ لازوال فقرہ کہا جو آج بھی ہم سب کے کانوں میں گونجتا ہے
" دوست وہ ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے " -
اس وقت ہم سب اگر ایک ہو جائیں ویسے تو خاصی فلمی ،خیالی اورناممکن بات ہے لیکن خواب دیکھے جائیں تو ہی تعبیر ملتی ہے۔۔۔۔ بےخواب آنکھیں کیا جانیں خواب کی لذت - یہ وقت قربانی کا ہے،مالی طور پرخوشحال لوگ اگر اپنی رفتار تھوڑی سی کم کردیں پیچھےرہنے والوں کے لیے۔۔۔تو پھر ہم سب قدم ملا کر بحیثیت قوم سُرخرو ہو سکتے ہیں-
ایک شعر ھے نا کہ
جواب دیںحذف کریںبات نیت کی صرف ھے ورنہ
وقت سارے دعا کے ھوتے ھیں
تو مای بجلی کا بھی یھی حال ھے۔