خواہشوں کے جزیروں پر
جب بھی پھو ل کِھلتے ہیں
درد کی فصیلوں پر
جب بھی زخم ملتے ہیں
بےمحابا خوشبو
جابجا بکھرتی ہے
اِک روشنی چمکتی ہے
چاہتوں کی بارش
بے موسم برستی ہے
پھول کے کھلنے سے
زخم کے ملنے سے
فاصلے سمٹتے ہیں
اور قدم بہکتے ہیں
آنکھ بند ہوتی ہے
پھر آنکھ کُھلتی ہے
خواب لمحے گلاب ہوتے ہیں
سراب لمحے حساب ہوتے ہیں
پھول جو بھی کھلتے ہیں
وقت کی تعبیروں میں
آخر یوں مسلتے ہیں
ہاتھ خالی رہتے ہیں
درد سوالی رہتے ہیں
سانس آتی رہتی ہے
آس باقی رہتی ہے
یاد کے آئینوں میں جھلک ہمیشہ رہتی ہے
لمس کے پوروں پر مہک ہمیشہ رہتی ہے
یاد کے آئینوں میں جھلک ہمیشہ رہتی ہے
جواب دیںحذف کریںلمس کے پوروں پر مہک ہمیشہ رہتی ہے
زبردست۔۔۔
پھر آنکھـ کُھلتی ہے
جواب دیںحذف کریںخواب لمحے گلاب ہوتے ہیں
سراب لمحے حساب ہوتے ہیں