پیر, اکتوبر 14, 2013

"ایک برس اور"


"ایک برس اور"
اکتوبر13۔۔۔۔2012 تا اکتوبر 13 ۔۔۔2013
قلم سے کی بورڈ تک کے سفر میں بلاگ لکھتے ہوئے ایک سال مکمل ہوا۔پیچھے مڑ کر دیکھوں تو اس دوران دوسروں کی نظروں سے اپنا آپ پڑھ کر نہ صرف خود کو دریافت کیا بلکہ اپنے اندر بھی بہت سی ایسے رنگوں کو کھوجا جن سے پہلے ناواقف تھی۔اتنا زیادہ لکھنا اورپھر وہ کسی کے پڑھے جانے کے قابل بھی ہو اس کا خواب تو کیا کبھی خواب میں بھی تصور نہ کیا تھا۔لکھتی تو برسوں سے تھی لیکن کبھی کبھار سال میں ایک آدھ بار چند سطریں ۔۔۔ شاعری کی صورت یا پھر کچھ بےترتیب جملے۔ 31 مارچ کو فیس بک اکاؤنٹ بنایا۔ بدیسی اردو میں لکھتے ہوئے ادھورے پن کا احساس ہوتااورمیں فقط اس نرالی دنیا کے رنگ ڈھنگ ہی دیکھتی جاتی ۔تین ماہ تک کسی کو بھی ایڈ نہ کیا اسی دوران کسی لنک پر جناب ایم بلال ایم کی اردو کاوشوں پر نظر پڑی تو جھٹ رابطہ کیا اوریوں اُنیس ستمبر 2012کی شام پہلا اُردو لفظ اپنی وال پر لکھا تو دل خوشی سے جھوم گیا۔
میرا آخری رومن اردواور پہلا اردو فیس بک اسٹیٹس ۔
۔۔۔۔

بس یہی میری منزل تھی لیکن پھر بھی جانےکیوں تسلی نہ تھی۔اوائل اکتوبر کی کسی تاریخ کو ایم بلال ایم کی بلاگ کے حوالے سے ایک پوسٹ "اپنے قیمتی الفاظ ضائع  مت کیجئیے" پڑھ کرچونک گئی تو پھر پتہ چلا کہ بلاگ کیا ہوتا ہے لیکن بنانے کا طریقہ معلوم نہ تھا۔
ایم بلال ایم کے مجوزہ بلاگ "اپنے قیمتی الفاظ ضائع نہ کریں" پر میرا تبصرہ ۔۔۔ جو کسی بھی بلاگ پر پہلا اظہارِ خیال بھی ہے۔
بلال صاحب کی مدد لی اور یوں 13 اکتوبر کی شام پہلا بلاگ لکھا۔ بس اس کے بعد تو ایک نشہ تھا کہ جس کی طلب بڑھتی تھی جتنا چڑھتا جاتا تھا۔ نہ صرف کاغذوں پر لکھے ہوئے پچھلے احساسات کو بلاگ کی صورت قلمبند کرتی بلکہ اب تو زیادہ تر روز کا روز ہی کچھ نیا بلاگ میں لکھنا اچھا لگتا۔بلاگ کا نام "گلیکسی آف تھاٹس"ایک دم ہی ذہن میں آیا یہ تو بعد میں دیکھا کہ اس نام سے کئی ایک گروپ گوگل اور فیس بک پر موجود تھے۔ 
پانچ ماہ بعد جب میں نے اپنا انگریزی بلاگ الگ سے بنایا تو اُردو بلاگ کو "کائناتِ تخیل" کا جامہ پہنا دیا۔بس اب میں اپنی سلطنت کی شہزادی تھی جو سوچتی فوراً لکھ کرپوسٹ کر دیتی اوراسی لمحے کسی ایک کا کلک بھی اپنی ذات پرمیرا یقین بڑھا دیتا۔ سب سے یاد گار لمحہ وہ تھا جب ایک بلاگ"بیٹے کے نام " لکھ کر جیسے ہی پوسٹ کیا تو منٹوں میں جناب "اوریا مقبول جان" کا کلک آیا اورانہوں نے کمالِ مہربانی سے مجھے اپنے گوگل پلس سرکل میں نہ صرف شامل کیا بلکہ اسی وقت  گوگل چیٹ (بات) بھی کی۔ اسی طرح  چند ماہ پہلے میرے ایک خاصے مختلف بلاگ "دائرہ" کو پڑھ کرجناب "رضا علی عابدی" نے نہ صرف اپنے حلقے میں شامل کیا بلکہ لفظ کے دشت میں چلتے رہنے کا حوصلہ بھی دیا۔ سوچنے لکھنے اور پھر کہہ دینے کے اس سفر میں میرے ساتھ میرے ہی جیسے عام گمنام لوگ تھے۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو کسی فہرست کے قابل نہیں جانا۔سچی بات یہ ہے کہ نہ ہی میرے لفظ اس قابل تھے۔ پر مجھے پروا بھی نہیں تھی کہ میرے رنگ خالص میرے اپنے تھے، سچے تھے، یہی بہت تھا۔ میرا سب سے خوبصورت بلاگ وہ تھا جب لفظ موتیوں کی طرح میرے سامنے بکھرتےتھے اورمیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اُن کو اسی طور لفظوں میں پروئےجاتی تھی ۔ لکھنے کے حوالے سے یہ میری زندگی کے یادگار لمحات تھے۔ وقت کم پڑ گیا لفظ ختم نہیں ہوئے اور یوں تین حصوں میں میرا بلاگ " میکن ایک تاثر" مکمل پوسٹ ہو سکا ۔  اس کا دوسرا اور تیسرا حصہ بھی ایک مکمل کہانی سموئے ہوئے تھا ۔
لکھنے کاسفر جاری ہے۔ میرا بلاگ میری ڈائری کی طرح ہے۔ بےساختہ احساسات گزرتے ماہ وسال جو ہم صرف اپنے لیے لکھتے ہیں اپنی مرضی سے جب دل چاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں اب یہ ڈائری لکھ کرہوا میں بکھیر دیتی ہوں اورحیرانی کی بات یہ ہے نامعلوم چہرے اوراجنبی زبان بولتے لوگ بھی اسے پڑھ کر اپنی سوچ اپنی زندگی سے قریب محسوس کرتے ہیں۔
            

2 تبصرے:

  1. To commemorate this day I would also like to congratulate her on completing another year of her marvelous pen-ship. I hope we will continue getting benefit out of her learned acumen.

    جواب دیںحذف کریں
  2. great likhti raho....adab ki khidmat ka shukria

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...