بدھ, اکتوبر 30, 2013

"ماسٹر کی"


 "ماں کی ڈائری سے "
موسم بدل رہا ہے۔جسم کو مَس کرتی ہوا کے جھونکے بدلتے موسم کی آمد کی گواہی دیتے ہیں ۔ پُرانے لباس کتنے ہی پسندیدہ کیوں نہ ہوں نئے موسم کا سامنا نیا لباس ہی کر سکتا ہے۔ پرانے کپڑوں کو بھاری بکسوں میں رکھنا عجیب سا دُکھ بھرا لمحہ ہوتا ہےکہ نہ جانے اگلے برس انہیں پہننے کا موقع بھی مل سکے گا یا پھر اُن کو خیرات کر دیا جائے گا۔لباس چاہے کتنا پسندیدہ کیوں نہ ہو اگر اُس کا پہننے والا نہ رہے تو دوسروں کے لیے بےوقعت  ہوجاتا ہے۔ہم اپنے لباس سینت سینت کر رکھتے ہیں اور کبھی دوسروں کے لباس سنبھالتے ہیں ۔ لباس سدا وہیں رہتے ہیں جہاں رکھے جائیںلیکن کبھی اُن کو پہننے والا چلا جاتا ہے تو کبھی سنبھالنے والا۔اگلے برس جب نئے موسم میں لباس کی ضرورت پڑتی ہے تو اگر سنبھالنے والا نہ رہے تو بہت ٹٹولنا پڑٹا ہے یوں کہ جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنا ۔ کھوئے ہوئے انسان کی طرح کھویا ہوا لباس بھی کم ہی ملتا ہے۔ دُنیا کا کاروبار تو چلتا ہے لیکن ایک کمی ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔ لباس چاہے کپڑے کا ہو یا احساس کا اس کی خاصیت اور ضرورت ہمیشہ ایک سی ہوتی ہےکہ دونوں کا تعلق جسم سے ہوتاہے۔
ماں گھر کی "ماسٹر کی" ہے۔ اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا کوڈ گھر کے ہر فرد کو پتہ ہو تا کہ کوئی کسی وقت بھی گھر لوٹے تو دروازہ کھول سکے۔کوئی نہیں سوچتا کہ دروازہ بند بھی مل  سکتا ہے۔یہ صرف ماں سوچتی ہے۔اسی سوچ میں بچوں سے دور رہتی ہےکہ بچے اتنے بڑے ہو جائیں اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر ہر دروازہ خود کھول سکیں۔بچے لاشعوری طور پر ہمیشہ ماں کے شانوں کا سہارا چاہتے ہیں بظاہراپنی قوت ِپرواز پر نازاں ہوتے ہیں یوں کبھی جُھک کر نہیں دیکھتے۔بےخبر پرندے نہیں جانتے کہ قدموں تلے زمین نہ رہے تو قدم جمانا کتنا مشکل ہے اور ماں کی ردا کے بغیر تنکا تنکا آشیانہ بنانا کتنا کٹھن۔
مائیں بچوں سے محبت ضرور کریں لیکن اُنہیں اپنی عادت نہ ڈالیں کہ محبت یاد بن جاتی ہے اورعادت کمزوری۔
ماں کے لیے اگر اس کے بچے آنکھ کی روشنی ہیں تو بچوں کی آنکھ میں اترے جگنوعکس ماں کے دل میں نقش بن کر ابھرتے ہیں۔ اب ان نقوش کو ایک مجسم تصویر کی صورت میں ڈھالنے کا ہر ماں کا جدا انداز ہے۔ کچھ لمس کی گرمی سے تو کچھ لفظ کی نرمی سے اس احساس کو ساتھ رکھنے کی سعی کرتی ہیں اور کبھی کوئی اپنی نظر سے گھبرا کر بےخبری کی خودساختہ عینک میں سب چھپا جاتی ہیں اور صرف اُن کا دل ہی اس نقش کی سلامتی کی پکار سُنتا ہے۔
آخری بات
زندگی موسموں کےآنے جانے کا نام ہے اور موت انہی موسموں کے ٹھہر جانے سے وجود میں آتی ہے۔زندگی موت کی یہ آنکھ مچولی ہم اپنے آس پاس مظاہرِ فطرت میں ہر آن دیکھتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی اپنے جسم وجاں میں اِن کا لمس محسوس کرتے ہیں تو کبھی بنا چکھے بنا دیکھے یوں اِس کا حصہ بن جاتے ہیں کہ سب جان کر بھی کچھ نہیں جان پاتے اور بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی سرسری گزر جاتے ہیں کہ ہماری عقل کی حد ہماری آنکھ کے دائرے سے باہر پرواز کرنے کی استطاعت  ہی نہیں رکھتی۔خزاں ہو یا بہار آنکھ کی چمک باقی رہے تو  دیکھنے    والی آنکھ ہررنگ میں زندگی کےعکس تلاش کر لیتی ہے۔
#  Master key ماسٹر کی.۔۔  

2 تبصرے:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...