سال2003 کے سفرِحج کی یہ یاداشتیں ایک چھوٹی سی جیبی ڈائری میں لکھی گئیں۔ میں نے چند ماہ قبل پہلی بار ان کو پڑھا اور اب لکھنے والی خاتون(میری امی) کےانتقال(مارچ 2012)کے ڈیڑھ برس بعد2013 میں حج کے موقع پراُن کو حرف بہ حرف بلاگ پرمنتقل کر رہی ہوں۔ زبان وبیان اوراشعارکی غلطیوں سے صرف ِنظرکرتے ہوئے پڑھیں کہ یہ ایک عام خاتون کے احساسات ہیں کسی مستند لکھاری کے نہیں۔ شکریہ ۔(نورین تبسم)۔
پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ میری امی "نورجہاں" کی مغفرت اوردرجات کی بلندی کے لیے دعا کریں۔
ــــــــــــــــــ
زندگی کی گردشوں نے بہت رُلایا
شکر ہے ربِ عظیم کا اُس نے اپنا گھر دکھایا
۔۔۔۔۔
اس قابل تو نہ تھی اپنی ذات
کہ غلافِ کعبہ سے کرتی رہی بات
۔۔۔۔۔۔
روضۂ رسولﷺ کی حاضری مدینے کی ہوائیں
سرمایۂ حیات رہیں گی معطر فضائیں
۔۔۔۔۔۔
"دعا"
وہ مقدس سرزمیں اللہ کے گھر کا سفر
اے اللہ رہنمائی کے لیے رہے میرا ہمسفر
میرے بچوں کو بھی ہو زیارت
وہ بھی یہاں آ کر کریں عبادت ۔۔۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔
نو جنوری 2003۔۔۔ جمعرات
"حجازِمقدس کا سفر "
شام چھ بجے پاکستان سے روانگی ۔۔۔
ایرپورٹ کا خوبصورت منظر۔۔۔ سب اللہ کی راہ پر جانے کے لیے تیار تھے۔
رات دس بجے جدہ ایرپورٹ آمد ۔۔۔
چار گھنٹے مشکل ترین مرحلہ چیکنگ کا ختم ہوا ۔۔۔
رات بارہ بجے جدہ پاکستان ہاؤس میں فرشی دری پر مختصر قیام ۔۔۔
تھوڑا سا آرام اور پھر سفر کی تیاری ہر طرف تھکے ماندے لوگوں کا ہجوم ۔۔۔
انٹرنیشنل فلائیٹ کا بےہنگم شور۔۔۔
گیارہ جنوری مدینہ روانگی بعد نمازِ مغرب وعشاء رات گیارہ بجے۔۔۔
صبح فجر سے پہلے مسجدِ نبوی میں داخلہ ۔۔۔
دلفریب اور خوشنما منظر جاگتی آنکھوں کا خواب۔۔۔
بیس جنوری مکہ واپسی ۔۔۔
اکیس جنوری سے یکم فروری ۔۔۔۔
انسانوں کا بےپناہ سمندر۔۔۔ راستے بند ہو گئے ہیں ۔۔۔ پیدل چلنا مشکل ترین مرحلہ ۔۔۔ ہوٹلوں پر لائن بندی ۔۔۔
فلو، کھانسی ، بخار کا زور۔۔۔
ستائیس جنوری ۔۔۔
ابو( جیون ساتھی) پانی سے سلپ ہو گئے۔۔۔ شکر ہے ہڈی بچ گئی ۔۔۔ خون جم گیا ۔۔۔ ہاتھ سوج گیا۔۔۔ ایمرجنسی میں علاج ہوا ۔۔۔
آٹھ فروری منیٰ کو روانگی ۔۔۔
رات تین بجے سے تیاری ۔۔۔ خیموں کا شہر لاکھوں کا مسکن بن گیا ۔۔۔
نو ذی الحج عرفات کو روانگی ہو رہی ہے۔۔۔ صبح دو بجے کا وقت مقرر ہے۔۔۔ صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے۔۔۔ حدِنظر گاڑیاں۔۔۔ جام ہو گئی ہیں ۔۔۔ بارہ کلومیٹر فاصلہ پانچ گھنٹے میں طے ہوا ۔۔۔ بہت گرم اور تھکا دینے والا سفر لیکن حج کی سعادت کا یہ سفر مبارک سفر تھا ۔۔۔ اللہ نے خیریت سے عرفات یعنی میدانِ حشر پہنچایا ۔۔۔ بھوکے پیاسے اٹھارہ گھنٹے گزارے۔
دس ذی الحج کی رات۔۔۔
مزدلفہ میں گزاری ۔۔۔ رات بھر سفر کرتے رہے ۔۔۔ تین بجے عرفات سے مزدلفہ پہنچے۔۔۔ مغرب ،عشاء،تہجد ،اکھٹی پڑھیں ۔۔۔ صبح پانچ بجے کنکریاں شیطان کو مارنے کے لیے چنیں اورفجرکے لیے روآنہ ہوئے۔۔۔ کوئی بھی بس خالی نہ تھی ۔۔۔ پرائیویٹ گاڑیوں کے خوب مزے ۔۔۔ زیادہ پیسے مانگ کر بھی سواریوں کے لیے جگہ تنگ تھی ۔۔۔ کل دن رات کی شدید مشقت کے بعد یہ کام بھی آسان نہ تھا۔ بہرحال کھلا اوپن ٹرالا ملا۔۔۔ غنیمت جان کر سوار ہوئے۔۔۔ چار گھنٹے رینگتےرینگتے منیٰ نیچے اپنے خیمے پرآئے۔ سامان رکھا اوروضو کرتے ہی شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے روانہ ہوئے۔۔۔
بےپناہ ہجوم کے ساتھ وہاں پہنچے،شکر ہے کہ اُس کی خوب آسانی سے مرمت ہو گئی ابھی کل اور اُس کے بعد کے دن بھی یہ ہی عمل کرنا ہے۔۔۔اللہ آسانی فرمائےِ۔
گیارہ ذی الحج ۔۔۔۔
طوافِ زیارت ۔۔۔
تمام دنوں سے زیادہ ہجوم اور بہت بہت مشکل ۔۔۔اللہ کی مہربانی سے آسانی اورخیریت سے ہو گیا۔۔۔ سعی اورجمرات کو رات دس بجے تک کنکریاں مار کر واپس آئے۔۔۔ کافی لوگ چلے گئے۔۔۔ ہم دونوں اکیلے رہ گئے کیونکہ رش کی وجہ سے آخری روز کنکریاں نہ مار سکے۔۔۔ دوبارہ طویل مسافت شروع کی ۔۔۔ راستے میں موسلادھار بارش آگئی لیکن سفر جاری رکھا اور بالاآخر جمرہ پر پہنچ کر کام پورا ہو گیا ۔۔۔ اُس کے بعد مکہ واپسی کے لیے خیمے میں آئے ۔۔۔ گروپ کے سب لوگ چلے گئے۔۔۔ بس میں صرف چھ مسافر۔۔۔ پانچ گھنٹے بعد رات بارہ بجے مکہ آئے۔۔۔ رش عروج پر تھا ۔۔۔ تھکن سے براحال ۔۔۔ بخار نے بھی زورجاری رکھا ۔۔۔
چودہ فروری ۔۔۔
بہرحال اطمینان ہوا کہ پانچ دن کی بھاگ دوڑ کے بعد حج کی سعادت مکمل ہو گئی ۔۔۔ پھر عام معاملات جاری ہو گئے۔۔۔
حرم شریف میں حاضری ۔۔۔ کھانے پینے کی تلاش۔۔۔ اور تھکاوٹ والا جسم ۔۔۔
پندرہ فروری ۔۔۔
لوگوں کی واپسی کے بورڈ بلڈنگ پر لگنے لگے۔۔۔ جس طرح آئے تھے اُسی ترتیب سے واپسی شروع ۔۔۔ سامان پیک ہونے لگے۔۔۔ اور اب وداعی طواف شروع ہوا ۔۔۔ بڑے کرم کی بات کہ سارے کام ہو رہے ہیں۔
سترہ فروری ۔۔۔
ہمارا نوٹس لگ گیا ۔۔۔ رات چار بجے جدہ کے لیے روانگی ۔۔۔ بروزمنگل اوررات کو اسلام آباد فلائیٹ ۔۔۔ رات کو کسی وقت بھی ہو گی۔
سترہ فروری ۔۔۔
آج حرم شریف میں الوداعی حاضری دی ۔۔۔ مغرب سےعشاء تک اللہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگتے رہے اورآئندہ زندگی
میں ملاقات کے شرف کی اُمید پر آنسوؤں سے حرم سے رُخصت ہوئے۔۔۔ اللہ میاں سب کام قبول۔۔ قبول کرے آمین۔
اٹھارہ فروری بروز منگل ۔۔۔
جدہ ائرپورٹ سے وطن واپسی کے لیے صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے دوپہر کو پہنچ گئے۔۔۔ اسلام آباد کا بورڈ ۔۔۔ پاکستان کے جھنڈے دیکھ کر کیمپ میں آکر بیٹھ گئے۔۔۔ جب آئے تھے تو رات تھی اب دن کا وقت ہے۔۔۔ چھتری نماچھت کے ایر پورٹ ٹرمینل ہیں ۔۔ تمام مسافر اپنی چادر چٹائی یا زمین پر سامان سمیت بیٹھ گئے۔۔۔ ہرعلاقے کے بورڈ نظر آرہے ہیں ۔۔۔ ظہر کی نماز قصر پڑھی ۔۔۔ سامان لوڈ والے آگئے ۔۔۔ ابو نے بیٹی سے بات کی اور روانگی کا وقت بتایا ۔۔۔ ابھی دو گھنٹے لاؤنج میں لے جائیں گے اور پاسپورٹ کاغذ وغیرہ چیک ہوں گے ۔ بےشمار فلائیٹ جا رہی ہیں ۔۔ ہر طرف مسافروں کا ہجوم ہے ۔۔۔ ہماری فلائیٹ چھ بجے شام روانہ ہو گی اور پاکستان انشاء اللہ تعالٰی رات ایک بجے تمام اہلِ خانہ سے ملاقات ہو گی۔
"حج ایک مشکل اور کٹھن کام ہے اس میں ہمت ،طاقت،ہوشیاری ،ہردم تازہ دم رہنے کی ضرورت ہے چالیس دن لگا تار"
(تحریر از نورجہاں)
پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ میری امی "نورجہاں" کی مغفرت اوردرجات کی بلندی کے لیے دعا کریں۔
ــــــــــــــــــ
زندگی کی گردشوں نے بہت رُلایا
شکر ہے ربِ عظیم کا اُس نے اپنا گھر دکھایا
۔۔۔۔۔
اس قابل تو نہ تھی اپنی ذات
کہ غلافِ کعبہ سے کرتی رہی بات
۔۔۔۔۔۔
روضۂ رسولﷺ کی حاضری مدینے کی ہوائیں
سرمایۂ حیات رہیں گی معطر فضائیں
۔۔۔۔۔۔
"دعا"
وہ مقدس سرزمیں اللہ کے گھر کا سفر
اے اللہ رہنمائی کے لیے رہے میرا ہمسفر
میرے بچوں کو بھی ہو زیارت
وہ بھی یہاں آ کر کریں عبادت ۔۔۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔
نو جنوری 2003۔۔۔ جمعرات
"حجازِمقدس کا سفر "
شام چھ بجے پاکستان سے روانگی ۔۔۔
ایرپورٹ کا خوبصورت منظر۔۔۔ سب اللہ کی راہ پر جانے کے لیے تیار تھے۔
رات دس بجے جدہ ایرپورٹ آمد ۔۔۔
چار گھنٹے مشکل ترین مرحلہ چیکنگ کا ختم ہوا ۔۔۔
رات بارہ بجے جدہ پاکستان ہاؤس میں فرشی دری پر مختصر قیام ۔۔۔
تھوڑا سا آرام اور پھر سفر کی تیاری ہر طرف تھکے ماندے لوگوں کا ہجوم ۔۔۔
انٹرنیشنل فلائیٹ کا بےہنگم شور۔۔۔
گیارہ جنوری مدینہ روانگی بعد نمازِ مغرب وعشاء رات گیارہ بجے۔۔۔
صبح فجر سے پہلے مسجدِ نبوی میں داخلہ ۔۔۔
دلفریب اور خوشنما منظر جاگتی آنکھوں کا خواب۔۔۔
بیس جنوری مکہ واپسی ۔۔۔
اکیس جنوری سے یکم فروری ۔۔۔۔
انسانوں کا بےپناہ سمندر۔۔۔ راستے بند ہو گئے ہیں ۔۔۔ پیدل چلنا مشکل ترین مرحلہ ۔۔۔ ہوٹلوں پر لائن بندی ۔۔۔
فلو، کھانسی ، بخار کا زور۔۔۔
ستائیس جنوری ۔۔۔
ابو( جیون ساتھی) پانی سے سلپ ہو گئے۔۔۔ شکر ہے ہڈی بچ گئی ۔۔۔ خون جم گیا ۔۔۔ ہاتھ سوج گیا۔۔۔ ایمرجنسی میں علاج ہوا ۔۔۔
آٹھ فروری منیٰ کو روانگی ۔۔۔
رات تین بجے سے تیاری ۔۔۔ خیموں کا شہر لاکھوں کا مسکن بن گیا ۔۔۔
نو ذی الحج عرفات کو روانگی ہو رہی ہے۔۔۔ صبح دو بجے کا وقت مقرر ہے۔۔۔ صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے۔۔۔ حدِنظر گاڑیاں۔۔۔ جام ہو گئی ہیں ۔۔۔ بارہ کلومیٹر فاصلہ پانچ گھنٹے میں طے ہوا ۔۔۔ بہت گرم اور تھکا دینے والا سفر لیکن حج کی سعادت کا یہ سفر مبارک سفر تھا ۔۔۔ اللہ نے خیریت سے عرفات یعنی میدانِ حشر پہنچایا ۔۔۔ بھوکے پیاسے اٹھارہ گھنٹے گزارے۔
دس ذی الحج کی رات۔۔۔
مزدلفہ میں گزاری ۔۔۔ رات بھر سفر کرتے رہے ۔۔۔ تین بجے عرفات سے مزدلفہ پہنچے۔۔۔ مغرب ،عشاء،تہجد ،اکھٹی پڑھیں ۔۔۔ صبح پانچ بجے کنکریاں شیطان کو مارنے کے لیے چنیں اورفجرکے لیے روآنہ ہوئے۔۔۔ کوئی بھی بس خالی نہ تھی ۔۔۔ پرائیویٹ گاڑیوں کے خوب مزے ۔۔۔ زیادہ پیسے مانگ کر بھی سواریوں کے لیے جگہ تنگ تھی ۔۔۔ کل دن رات کی شدید مشقت کے بعد یہ کام بھی آسان نہ تھا۔ بہرحال کھلا اوپن ٹرالا ملا۔۔۔ غنیمت جان کر سوار ہوئے۔۔۔ چار گھنٹے رینگتےرینگتے منیٰ نیچے اپنے خیمے پرآئے۔ سامان رکھا اوروضو کرتے ہی شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے روانہ ہوئے۔۔۔
بےپناہ ہجوم کے ساتھ وہاں پہنچے،شکر ہے کہ اُس کی خوب آسانی سے مرمت ہو گئی ابھی کل اور اُس کے بعد کے دن بھی یہ ہی عمل کرنا ہے۔۔۔اللہ آسانی فرمائےِ۔
گیارہ ذی الحج ۔۔۔۔
طوافِ زیارت ۔۔۔
تمام دنوں سے زیادہ ہجوم اور بہت بہت مشکل ۔۔۔اللہ کی مہربانی سے آسانی اورخیریت سے ہو گیا۔۔۔ سعی اورجمرات کو رات دس بجے تک کنکریاں مار کر واپس آئے۔۔۔ کافی لوگ چلے گئے۔۔۔ ہم دونوں اکیلے رہ گئے کیونکہ رش کی وجہ سے آخری روز کنکریاں نہ مار سکے۔۔۔ دوبارہ طویل مسافت شروع کی ۔۔۔ راستے میں موسلادھار بارش آگئی لیکن سفر جاری رکھا اور بالاآخر جمرہ پر پہنچ کر کام پورا ہو گیا ۔۔۔ اُس کے بعد مکہ واپسی کے لیے خیمے میں آئے ۔۔۔ گروپ کے سب لوگ چلے گئے۔۔۔ بس میں صرف چھ مسافر۔۔۔ پانچ گھنٹے بعد رات بارہ بجے مکہ آئے۔۔۔ رش عروج پر تھا ۔۔۔ تھکن سے براحال ۔۔۔ بخار نے بھی زورجاری رکھا ۔۔۔
چودہ فروری ۔۔۔
بہرحال اطمینان ہوا کہ پانچ دن کی بھاگ دوڑ کے بعد حج کی سعادت مکمل ہو گئی ۔۔۔ پھر عام معاملات جاری ہو گئے۔۔۔
حرم شریف میں حاضری ۔۔۔ کھانے پینے کی تلاش۔۔۔ اور تھکاوٹ والا جسم ۔۔۔
پندرہ فروری ۔۔۔
لوگوں کی واپسی کے بورڈ بلڈنگ پر لگنے لگے۔۔۔ جس طرح آئے تھے اُسی ترتیب سے واپسی شروع ۔۔۔ سامان پیک ہونے لگے۔۔۔ اور اب وداعی طواف شروع ہوا ۔۔۔ بڑے کرم کی بات کہ سارے کام ہو رہے ہیں۔
سترہ فروری ۔۔۔
ہمارا نوٹس لگ گیا ۔۔۔ رات چار بجے جدہ کے لیے روانگی ۔۔۔ بروزمنگل اوررات کو اسلام آباد فلائیٹ ۔۔۔ رات کو کسی وقت بھی ہو گی۔
سترہ فروری ۔۔۔
آج حرم شریف میں الوداعی حاضری دی ۔۔۔ مغرب سےعشاء تک اللہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگتے رہے اورآئندہ زندگی
میں ملاقات کے شرف کی اُمید پر آنسوؤں سے حرم سے رُخصت ہوئے۔۔۔ اللہ میاں سب کام قبول۔۔ قبول کرے آمین۔
اٹھارہ فروری بروز منگل ۔۔۔
جدہ ائرپورٹ سے وطن واپسی کے لیے صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے دوپہر کو پہنچ گئے۔۔۔ اسلام آباد کا بورڈ ۔۔۔ پاکستان کے جھنڈے دیکھ کر کیمپ میں آکر بیٹھ گئے۔۔۔ جب آئے تھے تو رات تھی اب دن کا وقت ہے۔۔۔ چھتری نماچھت کے ایر پورٹ ٹرمینل ہیں ۔۔ تمام مسافر اپنی چادر چٹائی یا زمین پر سامان سمیت بیٹھ گئے۔۔۔ ہرعلاقے کے بورڈ نظر آرہے ہیں ۔۔۔ ظہر کی نماز قصر پڑھی ۔۔۔ سامان لوڈ والے آگئے ۔۔۔ ابو نے بیٹی سے بات کی اور روانگی کا وقت بتایا ۔۔۔ ابھی دو گھنٹے لاؤنج میں لے جائیں گے اور پاسپورٹ کاغذ وغیرہ چیک ہوں گے ۔ بےشمار فلائیٹ جا رہی ہیں ۔۔ ہر طرف مسافروں کا ہجوم ہے ۔۔۔ ہماری فلائیٹ چھ بجے شام روانہ ہو گی اور پاکستان انشاء اللہ تعالٰی رات ایک بجے تمام اہلِ خانہ سے ملاقات ہو گی۔
"حج ایک مشکل اور کٹھن کام ہے اس میں ہمت ،طاقت،ہوشیاری ،ہردم تازہ دم رہنے کی ضرورت ہے چالیس دن لگا تار"
(تحریر از نورجہاں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں