اس گھرمیں ایسا منظراُس کی آنکھوں پر پہلے کبھی نہ اترا تھا ۔ وہ خواب لمحوں میں رہنے والی اور خوابوں کے ہر رنگ کو محسوس کرنے والی ایک بھٹکتے خواب کی مانند تھی ۔ اُس کے خیال کا کینوس بہت وسیع تھا جب چاہتی اپنی مرضی سے کہیں بھی سوچ کے رنگوں سے کھیل کر تصویرکشی شروع کر دیتی ۔ کبھی اداس،کبھی شوخ توکبھی تن من شرابور کرتے رنگ اُس کے دوست تھے،ساتھی تھے جو اپنی آغوش میں اُس کے آنسو اُس کی سرگوشیاں سب سمیٹ لیتے۔
یہ عید کے پانچوں روز کی خاموشی اور ملگجے اندھیرے میں ڈوبی ایک صبح تھی۔ رات ہی تووہ ایک ڈھولکی سے آئی تھی ۔ اگلے روز نکاح تھا اور اہلِ خانہ نے نیک شگون کے طور پر اللہ کے نام سے ابتدا کی تھی اب دلہن کی سکھیاں اُس کے مہندی لگا رہی تھیں ،خوب ہلہ گلہ تھا۔ وہ چہروں کو پڑھتی اُن سے باتیں کرتی تھی ۔ مہمان جو دور سے آئے تھے اُن کا حال احوال پوچھتی تھی ۔ کچھ قریبی عزیز دیرسے پہنچے پتہ چلا کہ گاؤں میں فوتیگی ہو گئی ہے۔ اُن کے اداس چہرے دیکھے تو تفصیل اداس کرگئی ۔ ایک جوان بچہ جس کی عید کے فوراً بعد شادی طے تھی عید سےمحض ایک روز قبل بسترپرپڑا اوربظاہر کالے یرقان یا ڈینگی کے ہاتھوں محض چارپانچ روزمیں ہی جان کی بازی ہار گیا۔ عید پرقربانی کی غرض سے فروخت کے لیے اس نے جانور پالے تھےاورشادی اور زیورات کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔ یہ بات اس نے خود کسی جاننے والے کو بکرا فروخت کرتے ہوئے بتائی تھی۔ اب اس کا بوڑھا باپ پلنگ کی پائینتی سے نہ اُٹھتا تھا کہ جانے کی عمر میری تھی یہ کیسے چلا گیا۔
اُس نے خاص طور پرماں کا پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں کا چند برس پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ پتہ نہیں یہ اُس کی کیسی عادت تھی کہ جب کسی ایسی ناگہانی موت کا سنتی تو پہلا خیال ماں کی طرف جاتا۔
جیسے عید کے روز پنڈی میں پیچھے کھڑا بیس سالہ لڑکا جانور بدکنے کے بعد ذبح کرنے والے کی چھری کی نوک لگنے سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ وہ بھی اُس کے عزیزوں کے محلے میں اوران کے جاننے والے تھے۔ یہ لڑکا جانور ذبح ہوتے نہ دیکھ سکتا تھا اوراس سے پہلے کبھی اتنا نزدیک گیا بھی نہیں تھا لیکن اس روز موت کا فرشتہ اسے اتنا قریب لے آیا کہ جانور کی شہ رگ سے پہلے چھری اسکی شہ رگ پر چل گئی ۔ اس وقت اُسے برائے نام چُبھن محسوس ہوئی غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ رکھا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا لیکن کچھ دیر بعد جب ہاتھ اُٹھایا پھرجو خون کا فوارہ اُبلا ہے تورُکنے میں نہ آیا۔
عید کے روز یہ منظر جب اُس کے کانوں نے سنا تویوں لگا جیسے وہ خود وہاں تھی ۔ اُس نے سر سے پیر تک اپنے ہی خون میں نہایا ہوا اُس کا وجود دیکھا اورپھراُسے کسی طرح موٹر سائیکل پر بٹھا کر ہسپتال کے لیے روانہ ہوئے تو اُس کی ٹانگوں نے وزن سہارنے سے انکار کردیا اورپتہ نہیں کس طرح سڑک کے ساتھ گھسٹتا اس کاخونی جسم ہسپتال پہنچا اورایمرجنسی میں موجود ڈاکٹروں نے جانے کس حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کو دیکھا ہو گا ۔ خون اتنا بہہ چکا تھا کہ وہ جاں برنہ ہوسکا۔ رات ہی اُس نے بہن سے کہا تھا کہ کل قربانی کے بعد میں نے لمبی نیند سونا ہے۔
اُس کا کہا حرف بہ حرف ثابت ہوا،پروہ بےخبر نہیں جانتا تھا کہ جانور کی قربانی سے پہلے کس کی قضا لکھی ہے۔
اُس کی ماں اُس سے پہلے دنیا سے جا چکی تھی "۔"
بڑی عید کے دنوں میں مہمانوں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے کا سب سے بڑا ذریعہ جہاں اپنی اپنی قربانیوں سے جڑے دلچسپ وعجیب واقعات ایک دوسرے کو بتانے کا ہوتا ہے وہیں اس طرح کے دل گرفتہ سانحات بھی عید کا خاصہ ہیں جو ایک پل کو دل کی دھڑکن روک لیتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی ۔ تو اُس رات وہ خوشیوں اور دکھوں کی پوٹلیاں پرول رہی تھی ۔ یہ خوشیاں جو اُس گھرکے آنگن میں پہلی بار اتری تھیں۔ رات گئے گھر آئے تو سب صبح کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھےاُس نےبھی تھوڑا بہت حصہ لیا پھرسو گئی ۔ صبح سویرے اُٹھنے کے بعد عید کے پانچویں روز کی خاموش صبح اب پرندوں کی چہچہاہٹ اور نکلتے سورج کی روشنی سبزہ زارکا منظر واضح کر رہی تھی جو اس وقت صرف اُس کی آنکھوں پر اپنی سچائی کے ساتھ عیاں تھا۔ وہ تقریبِ نکاح اُس کے اپنے گھر میں ہی تھی ۔ یہ اس بچی کی نانی کا گھر تھا اوروہ اللہ کی عنایتوں پر حیرت کے ساتھ شکر ادا کرتی تھی ۔
تیس برس پہلے اس گھر کے سبزہ زار میں گھر کی سب سے بڑی بیٹی کی بارات اتری تھی۔وہ شاید پرانا زمانہ تھا جب گھروں میں شادی کی تقاریب کرنے کا رواج تھا ۔ جن کے گھر چھوٹے ہوتے تھے وہ گلی محلے میں قنات لگا کر اپنی خوشی میں سب کو شریک کرتے تھے۔ شادی ہالوں یا ہوٹلوں تک رسائی عام آدمی کی پہنچ میں نہ تھی بلکہ عام لوگ اسے اچھا بھی نہ سمجھتے تھے۔ اب تیس برس کے عرصے میں اس گھر کے سب بچوں کی شادیاں ہوئیں لیکن گھر صرف مہندی کی رونق تک ہی محدود رہا۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ تیس برس پہلے پانچ اکتوبر 1983 کو اس گھر میں جس لڑکی کی بارات آئی تھی اب بیس اکتوبر 2013 کو دوسری بارات اُسی کی بیٹی کی تھی ۔
یہ عید کے پانچوں روز کی خاموشی اور ملگجے اندھیرے میں ڈوبی ایک صبح تھی۔ رات ہی تووہ ایک ڈھولکی سے آئی تھی ۔ اگلے روز نکاح تھا اور اہلِ خانہ نے نیک شگون کے طور پر اللہ کے نام سے ابتدا کی تھی اب دلہن کی سکھیاں اُس کے مہندی لگا رہی تھیں ،خوب ہلہ گلہ تھا۔ وہ چہروں کو پڑھتی اُن سے باتیں کرتی تھی ۔ مہمان جو دور سے آئے تھے اُن کا حال احوال پوچھتی تھی ۔ کچھ قریبی عزیز دیرسے پہنچے پتہ چلا کہ گاؤں میں فوتیگی ہو گئی ہے۔ اُن کے اداس چہرے دیکھے تو تفصیل اداس کرگئی ۔ ایک جوان بچہ جس کی عید کے فوراً بعد شادی طے تھی عید سےمحض ایک روز قبل بسترپرپڑا اوربظاہر کالے یرقان یا ڈینگی کے ہاتھوں محض چارپانچ روزمیں ہی جان کی بازی ہار گیا۔ عید پرقربانی کی غرض سے فروخت کے لیے اس نے جانور پالے تھےاورشادی اور زیورات کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔ یہ بات اس نے خود کسی جاننے والے کو بکرا فروخت کرتے ہوئے بتائی تھی۔ اب اس کا بوڑھا باپ پلنگ کی پائینتی سے نہ اُٹھتا تھا کہ جانے کی عمر میری تھی یہ کیسے چلا گیا۔
اُس نے خاص طور پرماں کا پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں کا چند برس پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ پتہ نہیں یہ اُس کی کیسی عادت تھی کہ جب کسی ایسی ناگہانی موت کا سنتی تو پہلا خیال ماں کی طرف جاتا۔
جیسے عید کے روز پنڈی میں پیچھے کھڑا بیس سالہ لڑکا جانور بدکنے کے بعد ذبح کرنے والے کی چھری کی نوک لگنے سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ وہ بھی اُس کے عزیزوں کے محلے میں اوران کے جاننے والے تھے۔ یہ لڑکا جانور ذبح ہوتے نہ دیکھ سکتا تھا اوراس سے پہلے کبھی اتنا نزدیک گیا بھی نہیں تھا لیکن اس روز موت کا فرشتہ اسے اتنا قریب لے آیا کہ جانور کی شہ رگ سے پہلے چھری اسکی شہ رگ پر چل گئی ۔ اس وقت اُسے برائے نام چُبھن محسوس ہوئی غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ رکھا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا لیکن کچھ دیر بعد جب ہاتھ اُٹھایا پھرجو خون کا فوارہ اُبلا ہے تورُکنے میں نہ آیا۔
عید کے روز یہ منظر جب اُس کے کانوں نے سنا تویوں لگا جیسے وہ خود وہاں تھی ۔ اُس نے سر سے پیر تک اپنے ہی خون میں نہایا ہوا اُس کا وجود دیکھا اورپھراُسے کسی طرح موٹر سائیکل پر بٹھا کر ہسپتال کے لیے روانہ ہوئے تو اُس کی ٹانگوں نے وزن سہارنے سے انکار کردیا اورپتہ نہیں کس طرح سڑک کے ساتھ گھسٹتا اس کاخونی جسم ہسپتال پہنچا اورایمرجنسی میں موجود ڈاکٹروں نے جانے کس حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کو دیکھا ہو گا ۔ خون اتنا بہہ چکا تھا کہ وہ جاں برنہ ہوسکا۔ رات ہی اُس نے بہن سے کہا تھا کہ کل قربانی کے بعد میں نے لمبی نیند سونا ہے۔
اُس کا کہا حرف بہ حرف ثابت ہوا،پروہ بےخبر نہیں جانتا تھا کہ جانور کی قربانی سے پہلے کس کی قضا لکھی ہے۔
اُس کی ماں اُس سے پہلے دنیا سے جا چکی تھی "۔"
بڑی عید کے دنوں میں مہمانوں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے کا سب سے بڑا ذریعہ جہاں اپنی اپنی قربانیوں سے جڑے دلچسپ وعجیب واقعات ایک دوسرے کو بتانے کا ہوتا ہے وہیں اس طرح کے دل گرفتہ سانحات بھی عید کا خاصہ ہیں جو ایک پل کو دل کی دھڑکن روک لیتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی ۔ تو اُس رات وہ خوشیوں اور دکھوں کی پوٹلیاں پرول رہی تھی ۔ یہ خوشیاں جو اُس گھرکے آنگن میں پہلی بار اتری تھیں۔ رات گئے گھر آئے تو سب صبح کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھےاُس نےبھی تھوڑا بہت حصہ لیا پھرسو گئی ۔ صبح سویرے اُٹھنے کے بعد عید کے پانچویں روز کی خاموش صبح اب پرندوں کی چہچہاہٹ اور نکلتے سورج کی روشنی سبزہ زارکا منظر واضح کر رہی تھی جو اس وقت صرف اُس کی آنکھوں پر اپنی سچائی کے ساتھ عیاں تھا۔ وہ تقریبِ نکاح اُس کے اپنے گھر میں ہی تھی ۔ یہ اس بچی کی نانی کا گھر تھا اوروہ اللہ کی عنایتوں پر حیرت کے ساتھ شکر ادا کرتی تھی ۔
تیس برس پہلے اس گھر کے سبزہ زار میں گھر کی سب سے بڑی بیٹی کی بارات اتری تھی۔وہ شاید پرانا زمانہ تھا جب گھروں میں شادی کی تقاریب کرنے کا رواج تھا ۔ جن کے گھر چھوٹے ہوتے تھے وہ گلی محلے میں قنات لگا کر اپنی خوشی میں سب کو شریک کرتے تھے۔ شادی ہالوں یا ہوٹلوں تک رسائی عام آدمی کی پہنچ میں نہ تھی بلکہ عام لوگ اسے اچھا بھی نہ سمجھتے تھے۔ اب تیس برس کے عرصے میں اس گھر کے سب بچوں کی شادیاں ہوئیں لیکن گھر صرف مہندی کی رونق تک ہی محدود رہا۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ تیس برس پہلے پانچ اکتوبر 1983 کو اس گھر میں جس لڑکی کی بارات آئی تھی اب بیس اکتوبر 2013 کو دوسری بارات اُسی کی بیٹی کی تھی ۔
یہ قصہ کہانی بیان کرنے والی کی اپنی ذات کے حوالے سے یہ منظر اس لیے بہت خاص تھا کہ برسوں قبل آخری بار اس گھرمیں نہایت شاندارمہندی کی تقریب جو ہوئی تھی وہ اُس کی اپنی شادی کی تھی۔وہ اُس لمحے یہاں نہیں تھی لیکن نہ ہوتے ہوئے بھی خاص مہمان تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ پچیس برس کے عرصے میں اُس کی آنکھوں نے اس گھر کے درودیوارمیں غم کی سسکیاں تک محسوس نہیں کیں,یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ وہ شخص جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی تھی اُس کے آنے سے پہلے چار سال قبل اپنے آخری ٹھکانے کو جا چکے تھے۔
گھر کی بنیاد کہانی بھی عجیب ہے۔ تقریباً پچاس سال پہلے پی او ایف فیکٹری نے اپنے ملازمین کو سہولت دی کہ وہ قسطوں پر پیسے جمع کرا کر اپنی مرضی سے گھر کی بکنگ کرا لیں تو اس گھر کے مالک نے اپنی جیب دیکھ کر ایک چھوٹے پلاٹ پر گھر کے لیے پیسے جمع کرائے تو اُن کے ایک مخلص ساتھی نے بنا پوچھے اپنے پاس سے پیسے پورے کر کے بڑے گھر کے لیے بکنگ کرا دی بعد میں کہہ دیا کہ یہ قرض ہے جب سہولت ہو دے دینا ۔۔۔اس بڑے گھر میں وہ اپنے آٹھ بچوں میں سے صرف دو کی خوشیاں ہی دیکھ سکے ۔
۔"یہ دنیا واقعی مٹی کی دنیا ہے جس میں خواہشوں کے بیج کوئی ڈالتا ہے اورخوشیوں کی فصل کوئی اورکاٹتا ہے۔ ہمیں صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے بیج ڈالتے رہنا ہے ورنہ بنجر زمینوں کے دکھ نسلوں کو کاٹنا پڑجاتے ہیں"۔
!آخری بات
دنیا محض ایک میلہ ہے اور میلہ خانہ بدوشوں کے قبیلے کی طرح ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کوچ کر سکتا ہے۔اللہ کے کرم،اس کی نوازشات اوراُس کے"شکر" کا ادراک جس لمحے ہو جائے،اُس لمحے کو اپنا لیں،مٹھی میں قید کر لیں تو بہت سی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ "لمحے تو تتلی کی طرح ہوتے ہیں یا تو گرفت میں آتے نہیں اور آجائیں توبےجان وجود کی صورت مٹھی سے پھسل پھسل جاتے ہیں"۔
اہم بات یہ ہے کہ پچیس برس کے عرصے میں اُس کی آنکھوں نے اس گھر کے درودیوارمیں غم کی سسکیاں تک محسوس نہیں کیں,یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ وہ شخص جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی تھی اُس کے آنے سے پہلے چار سال قبل اپنے آخری ٹھکانے کو جا چکے تھے۔
گھر کی بنیاد کہانی بھی عجیب ہے۔ تقریباً پچاس سال پہلے پی او ایف فیکٹری نے اپنے ملازمین کو سہولت دی کہ وہ قسطوں پر پیسے جمع کرا کر اپنی مرضی سے گھر کی بکنگ کرا لیں تو اس گھر کے مالک نے اپنی جیب دیکھ کر ایک چھوٹے پلاٹ پر گھر کے لیے پیسے جمع کرائے تو اُن کے ایک مخلص ساتھی نے بنا پوچھے اپنے پاس سے پیسے پورے کر کے بڑے گھر کے لیے بکنگ کرا دی بعد میں کہہ دیا کہ یہ قرض ہے جب سہولت ہو دے دینا ۔۔۔اس بڑے گھر میں وہ اپنے آٹھ بچوں میں سے صرف دو کی خوشیاں ہی دیکھ سکے ۔
۔"یہ دنیا واقعی مٹی کی دنیا ہے جس میں خواہشوں کے بیج کوئی ڈالتا ہے اورخوشیوں کی فصل کوئی اورکاٹتا ہے۔ ہمیں صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے بیج ڈالتے رہنا ہے ورنہ بنجر زمینوں کے دکھ نسلوں کو کاٹنا پڑجاتے ہیں"۔
!آخری بات
دنیا محض ایک میلہ ہے اور میلہ خانہ بدوشوں کے قبیلے کی طرح ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کوچ کر سکتا ہے۔اللہ کے کرم،اس کی نوازشات اوراُس کے"شکر" کا ادراک جس لمحے ہو جائے،اُس لمحے کو اپنا لیں،مٹھی میں قید کر لیں تو بہت سی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ "لمحے تو تتلی کی طرح ہوتے ہیں یا تو گرفت میں آتے نہیں اور آجائیں توبےجان وجود کی صورت مٹھی سے پھسل پھسل جاتے ہیں"۔
بہت خوب اور اچھا لکھا ہے۔
جواب دیںحذف کریںخاص کر ایک ہی پوسٹ میں غم و خوشی کی داستانیں جمع کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ مبارک کرے ،اس خوشحالی کو۔
bht khoobsooraut tahrreer hamesha ki trha thori udaas kerti hoi thori khushi dyti hoi :)
جواب دیںحذف کریںیہ زندگی بھی بہت عجیدب ہے
جواب دیںحذف کریںاس میں خوشیاں کم اور درد زیادہ ہیوں
لیکن 1 خوشی کے آتے ہی سب درد بھول جاتے ہیں
اور پھر نیا درد آتا ہے تو پرانے درد بھی لوٹ آتے ہیں
پھر خوشیاں تو جیسے یاد ہی نہیں ہتیں
بہت اچھی تحریر لکھی
یہ ہر گھر میں ایسے ہی احوال کو جمع کر دیا آپنے
شکریہ