سورہ الحدید۔۔۔57سورہ۔۔ مدنی۔۔۔29 آیاتترجمہ آیت۔20
۔"جان رکھو کہ دُنیا کی زندگی محض کھیل اورتماشا اور زینت اور تمہارے آپس میں فخر اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (خواہش) ہے"۔
دنیا کی زندگی محض دھوکا فریب اور کھیل تماشا ہے۔ یہ ایک آیت ِقرانی کا مفہوم ہے۔اس کو دیکھیں۔۔۔پڑھیں اور اس پر ایمان لائیں۔۔۔ تو بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ دُنیا ایک ناپسندیدہ جگہ ہے۔۔۔ جہاں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا اور یہاں کسی چیز میں دل نہیں لگانا چاہیے۔ بات جب قران کی ہو۔۔۔ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان بھی سمجھتے ہوں۔۔۔ اس کے ایک اک حرف پریقین ہو۔۔۔تو پھر اس سے آگے کچھ نہیں سوچتے۔ جو قران نے کہہ دیا وہ حرفِ آخر ہے۔
اگر ہمارا دل دُنیا کی کسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے۔۔۔ ہم دُنیاوی لذت کی خاطر کوئی کام کرتے ہیں۔۔۔ تو اندر ہی اندر اپنے آپ سے شرمندہ رہتے ہیں۔۔۔کہ جو پڑھا تھا اُس پرعمل نہیں کر پا رہے۔۔۔ پھر شیطان کو دوش دیتے ہیں۔ رنگینی اور چمک دمک پر بے اختیار نگاہ پڑ جائے تو نظر ہٹانے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔ کہ یہ سب وقتی اور بےکار ہے۔۔۔ اصل زندگی بعد کی ہے۔
ایسی زندگی گزارنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔۔۔اپنی راہ لیتے ہیں۔ کبھی چپکے چپکے تھوڑا وقت ان کے ساتھ گزارتے ہیں۔۔۔ بعد میں توبہ استغفار کا سہارا لے کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی سعی کرتے ہیں۔غرض اسی طرح ڈر ڈر کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔
آگے کی کہانی تو ہمارا رب جانتا ہے کہ کیا ہو گا اور معاملات کس طرح سے پیش آئیں گے۔اگرچہ ہمیں ہرہرمرحلے کے بارے میں بہت اچھی طرح سے بتا دیا گیا ہے۔ سوال جواب ہمیں معلوم ہیں۔۔۔ پھر بھی بہت سی چیزوں پرہماری نظر کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کم ازکم ایک لفظ پڑھ کر خود سےنفسِ مضمون نہیں بھانپ لینا چاہیے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ اگر صرف ایک لفظ کا علم حاصل ہو جائے تو سارا مضمون سمجھ آنے لگتا ہے۔ پڑھنا اہم ضرور ہے لیکن سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔قرآن پاک کے الفاظ جب ہمارے اندر جذب ہونے لگ جائیں تو پھر معنی خودبخود دل میں اُترجاتے ہیں۔
اس آیتِ قرانی میں دُنیا کی زندگی کے بارے میں جو کہا گیا ہے اگر اس پر غور کریں۔۔۔ ذرا تصور میں لائیں۔۔۔ جیسے ہم کسی میلے میں جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں۔۔۔ ہراسٹال پر ایک نظر ڈال لیں۔۔۔دلچسبی پیدا ہو جائے توتھوڑی دیر رُکتے ہیں ورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں یوں سفر جاری رہتا ہے۔ کسی چیز میں اگرگہرائی ہو تو پلٹ کر ضرور آتے ہیں۔ کچھ نادان ایک ہی اسٹال کی رنگا رنگی دیکھ کر وہیں رک جاتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ آگے اس سے بڑھ کر اُن کی تسکین کا سامان موجود ہے۔۔۔ یہ تو محض پہلا پڑاؤ تھا۔ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو میلے میں آ کر چُپ چاپ درمیان میں بنچوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ آنے جانے والوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔۔۔ کیسا تماشۂ رفتہ کا پنڈال سجا ہے۔۔۔انجان کن چکروں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایک مخصوص وقت کے بعد واپسی لازمی ہے۔
ہر شخص اپنی جگہ پر ٹھیک سوچتا ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی راہ درست جان کر دوسرے کو اس پر چلنے کو مجبور کرتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ سب ہمارے لیے ہے۔۔۔ ہمیں داخلے کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ہر اسٹال پر جانے کی آزادی بھی ہے۔ ہماری عقل ہماری دوست ہے جو کہ ہمیں ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی چیز کو جانے بغیر یکسر مسترد کردینا بےوقوفی اور کم علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ صرف اپنی کمزوری کی نشانی ہے۔ دھیان صرف اس بات کا رکھنا ہے کہ وقت کم ہے۔۔۔ جتنا جلد اپنے اصل مقصد کی طرف رہنمائی ہو جائے اُتنی تیزی سے مقصدِحیات حاصل ہوتا جائے گا۔
۔"جان رکھو کہ دُنیا کی زندگی محض کھیل اورتماشا اور زینت اور تمہارے آپس میں فخر اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (خواہش) ہے"۔
دنیا کی زندگی محض دھوکا فریب اور کھیل تماشا ہے۔ یہ ایک آیت ِقرانی کا مفہوم ہے۔اس کو دیکھیں۔۔۔پڑھیں اور اس پر ایمان لائیں۔۔۔ تو بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ دُنیا ایک ناپسندیدہ جگہ ہے۔۔۔ جہاں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا اور یہاں کسی چیز میں دل نہیں لگانا چاہیے۔ بات جب قران کی ہو۔۔۔ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان بھی سمجھتے ہوں۔۔۔ اس کے ایک اک حرف پریقین ہو۔۔۔تو پھر اس سے آگے کچھ نہیں سوچتے۔ جو قران نے کہہ دیا وہ حرفِ آخر ہے۔
اگر ہمارا دل دُنیا کی کسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے۔۔۔ ہم دُنیاوی لذت کی خاطر کوئی کام کرتے ہیں۔۔۔ تو اندر ہی اندر اپنے آپ سے شرمندہ رہتے ہیں۔۔۔کہ جو پڑھا تھا اُس پرعمل نہیں کر پا رہے۔۔۔ پھر شیطان کو دوش دیتے ہیں۔ رنگینی اور چمک دمک پر بے اختیار نگاہ پڑ جائے تو نظر ہٹانے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔ کہ یہ سب وقتی اور بےکار ہے۔۔۔ اصل زندگی بعد کی ہے۔
ایسی زندگی گزارنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔۔۔اپنی راہ لیتے ہیں۔ کبھی چپکے چپکے تھوڑا وقت ان کے ساتھ گزارتے ہیں۔۔۔ بعد میں توبہ استغفار کا سہارا لے کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی سعی کرتے ہیں۔غرض اسی طرح ڈر ڈر کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔
آگے کی کہانی تو ہمارا رب جانتا ہے کہ کیا ہو گا اور معاملات کس طرح سے پیش آئیں گے۔اگرچہ ہمیں ہرہرمرحلے کے بارے میں بہت اچھی طرح سے بتا دیا گیا ہے۔ سوال جواب ہمیں معلوم ہیں۔۔۔ پھر بھی بہت سی چیزوں پرہماری نظر کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کم ازکم ایک لفظ پڑھ کر خود سےنفسِ مضمون نہیں بھانپ لینا چاہیے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ اگر صرف ایک لفظ کا علم حاصل ہو جائے تو سارا مضمون سمجھ آنے لگتا ہے۔ پڑھنا اہم ضرور ہے لیکن سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔قرآن پاک کے الفاظ جب ہمارے اندر جذب ہونے لگ جائیں تو پھر معنی خودبخود دل میں اُترجاتے ہیں۔
اس آیتِ قرانی میں دُنیا کی زندگی کے بارے میں جو کہا گیا ہے اگر اس پر غور کریں۔۔۔ ذرا تصور میں لائیں۔۔۔ جیسے ہم کسی میلے میں جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں۔۔۔ ہراسٹال پر ایک نظر ڈال لیں۔۔۔دلچسبی پیدا ہو جائے توتھوڑی دیر رُکتے ہیں ورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں یوں سفر جاری رہتا ہے۔ کسی چیز میں اگرگہرائی ہو تو پلٹ کر ضرور آتے ہیں۔ کچھ نادان ایک ہی اسٹال کی رنگا رنگی دیکھ کر وہیں رک جاتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ آگے اس سے بڑھ کر اُن کی تسکین کا سامان موجود ہے۔۔۔ یہ تو محض پہلا پڑاؤ تھا۔ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو میلے میں آ کر چُپ چاپ درمیان میں بنچوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ آنے جانے والوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔۔۔ کیسا تماشۂ رفتہ کا پنڈال سجا ہے۔۔۔انجان کن چکروں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایک مخصوص وقت کے بعد واپسی لازمی ہے۔
ہر شخص اپنی جگہ پر ٹھیک سوچتا ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی راہ درست جان کر دوسرے کو اس پر چلنے کو مجبور کرتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ سب ہمارے لیے ہے۔۔۔ ہمیں داخلے کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ہر اسٹال پر جانے کی آزادی بھی ہے۔ ہماری عقل ہماری دوست ہے جو کہ ہمیں ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی چیز کو جانے بغیر یکسر مسترد کردینا بےوقوفی اور کم علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ صرف اپنی کمزوری کی نشانی ہے۔ دھیان صرف اس بات کا رکھنا ہے کہ وقت کم ہے۔۔۔ جتنا جلد اپنے اصل مقصد کی طرف رہنمائی ہو جائے اُتنی تیزی سے مقصدِحیات حاصل ہوتا جائے گا۔
جواب دیںحذف کریںجو کوئی چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی زینت ، ہم ان کے لئے ان کے عمل اس (دنیا) میں پورے کر دیں گے ۔اور اس میں ان کی کمی نہ کی جائے گی۔ ۱۵ یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آْگ کے سوا کچھ نہیں ، اور اکارت گیا جو اس (دنیا) میں انہوں نے کیا اور جو وہ کرتے تھے نابود ہوئے ۔
سورۃ ھود ۱۶
جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور ایک دوسرے پر آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں زیادتی چاہنا ہے جیسے بارش کی حالت کہ اس کی سبزی نے کسانوں کو خوش کر دیا پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تُو اسے زرد شدہ دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور الله کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے اور دنیاکی زندگی سوائے دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے
سورۃ الحدید۲۰