ایک دوست دوسرے دوست کو سب سے بہترین تُحفہ دینا چاہے یا ایک چاہنے والا اپنی عزیز ترین ہستی کو دینا چاہے تو وہ کیا ایسا دے کہ جو نہ صرف دوست کو بلکہ اُسے بھی شانت کر دے۔ ہمارے پاس فقط دو ہی چیزیں ہیں ایک مال دوسری جان ۔ پہلے آتے ہیں مال کی جانب -اس میں زیادہ سے زیادہ ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں چاند تارے بھی توڑ کر لا دوں گا ۔ اب تو یہ بھی ممکن ہے کہ انسان خلا تک جا چُکا ہے تاروں کا مشاہدہ اُن کے قریب جا کر کرتا ہے یعنی انسانی استطاعت کے مطابق یہ آخری حد ہے۔اس سے زیادہ اپنے محبوب کو وہ اور کیا دے سکتا ہے۔سچے عاشق اب یہ کہیں کہ میں جان بھی قُربان کر سکتا ہوں تو ذرا ایک منٹ ٹھہرجائیں کہ کون سی جان؟جان! جسے ہم اپنی سب سے قیمتی شے سمجھتے ہیں۔۔۔ اُسے بچانے کی خاطر دوسروں سےٹکراجاتے ہیں۔ وہ تو ہماری ملکیت ہی نہیں۔ جان تو ایسی بےوفا ساتھی ہے کہ جانے لگتی ہے تو پلٹ کردیکھتی ہی نہیں کہ اُس کے ساتھی کوکتنی اذیت ہو رہی ہے وہ توایک پل بھی مہلت نہیں دیتی۔
ایک اور شے جس کے بارے میں اہلِ نظر کا کہنا ہے کہ سب سے قیمتی تُحفہ ہے جو ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔۔۔
وہ ہے۔۔۔" ہمارا وقت "
مگر درحقیقت وقت بھی ہمارا اپنا نہیں ہوتا۔ہم جس سسٹم میں رہتے ہیں اُس میں وقت پر بھی ہمارا اختیارنہیں۔ ہم بڑی مشکل سے اپنا وقت چوری کرکے اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔جیسے آتے ہیں ویسے خالی دُنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اپنے دوست کوجان،مال اور وقت دینے کے لیے بھی ہمیں دوسروں کا سہارا چاہیے تو پھر ہم اپنے دوست کوکیا ایسا دے سکتے ہیں جو کہ خالص ہمارا ہو۔جب اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے تو پھر ہم کون ہیں اپنی کم مائیگی کا گلہ کرنے والے۔اللہ سے اِس سوال کا جواب یوں ملا کہ ہم اپنی سوچ،اپنے خیالات جو دوست سے شیئر کرتے ہیں اُن کی گہرائی اور معنویت جب اس کی سوچ سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو یہ وہ بہترین تُحفہ ہے جو ہم اپنے دوست کو دیتے ہیں اور ہمیں اپنے دوست کی طرف سے ملتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ دینے والا بھی مالامال ہو جاتا ہےاور لینے والا تو ظاہر ہے بُلند مقام پر ہوتا ہے۔۔۔ جیسے کسی درگاہ کا گدی نشیں جس کے مُرید اندھی عقیدت میں ڈوب کر اپنی جان،مال اورعزت اُس کے قدموں میں ڈھیر کرتے جاتےہیں۔
لیکن یہ رشتہ،یہ تعلّق ایسی کسی بھی مثال سے بُلند ہے۔بڑائی چھوٹائی انسان صرف اپنی ذات کے حوالے سے محسوس کر سکتا ہےلیکن اسے کسی اور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
مایوسی کے اندھے کنوئیں میں یہ روشنی کی وہ خفیف سی جھلک ہے جو ڈوبتے ہوئےانسان کو زندگی کی نوید دیتی ہے۔قابلِِ ذکر بات یہ ہے کہ ہرشخص اس راز کو جان سکتا ہے صرف اس کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔
مارچ 25، 2011
وہ ہے۔۔۔" ہمارا وقت "
مگر درحقیقت وقت بھی ہمارا اپنا نہیں ہوتا۔ہم جس سسٹم میں رہتے ہیں اُس میں وقت پر بھی ہمارا اختیارنہیں۔ ہم بڑی مشکل سے اپنا وقت چوری کرکے اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔جیسے آتے ہیں ویسے خالی دُنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اپنے دوست کوجان،مال اور وقت دینے کے لیے بھی ہمیں دوسروں کا سہارا چاہیے تو پھر ہم اپنے دوست کوکیا ایسا دے سکتے ہیں جو کہ خالص ہمارا ہو۔جب اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے تو پھر ہم کون ہیں اپنی کم مائیگی کا گلہ کرنے والے۔اللہ سے اِس سوال کا جواب یوں ملا کہ ہم اپنی سوچ،اپنے خیالات جو دوست سے شیئر کرتے ہیں اُن کی گہرائی اور معنویت جب اس کی سوچ سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو یہ وہ بہترین تُحفہ ہے جو ہم اپنے دوست کو دیتے ہیں اور ہمیں اپنے دوست کی طرف سے ملتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ دینے والا بھی مالامال ہو جاتا ہےاور لینے والا تو ظاہر ہے بُلند مقام پر ہوتا ہے۔۔۔ جیسے کسی درگاہ کا گدی نشیں جس کے مُرید اندھی عقیدت میں ڈوب کر اپنی جان،مال اورعزت اُس کے قدموں میں ڈھیر کرتے جاتےہیں۔
لیکن یہ رشتہ،یہ تعلّق ایسی کسی بھی مثال سے بُلند ہے۔بڑائی چھوٹائی انسان صرف اپنی ذات کے حوالے سے محسوس کر سکتا ہےلیکن اسے کسی اور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
مایوسی کے اندھے کنوئیں میں یہ روشنی کی وہ خفیف سی جھلک ہے جو ڈوبتے ہوئےانسان کو زندگی کی نوید دیتی ہے۔قابلِِ ذکر بات یہ ہے کہ ہرشخص اس راز کو جان سکتا ہے صرف اس کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔
مارچ 25، 2011
حسن یاسر نے کہا ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںتحفے کا تعلق احساس سے ہوتا ہے۔۔۔ اپنائیت سے ۔۔خلوص سے ہوتا ہے۔ تارے توڑنا جان دینا یہ کیسے تحفے ہیں کہ دینے والا جان سے جائے اور لینے والے میں احساس کی کچھ رمق ہو تو وہ اپنے آپ سے ہی نظریں چراتا رہے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو پیارے وطن کے لیے جان سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا۔ دین کے لیے وقت ہی تو مانگا جاتا ہے۔ اب اگر ہم تحفے کو صرف لوگوں سے مشروط کر دیں گے پھر تو تارے توڑنا جان دینا احمقانہ افعال محسوس ہوں گے۔ دوستی پیار وقت عمر اور حالات کے تابع نہیں ہوتی۔ میرے دوستوں میں تین اور چار سال کے بچے بھی شامل ہیں انہیں نہ میرے تاروں سے غرض ہوتی ہے نہ وہ میری جان کے طلبگار ہیں۔ تواچھی سوچ اور اچھی بات کا تحفہ تین سالہ بچے کے دل کو کیسے خوشی سے بھرے گا ؟ اہل علم لوگ ہی بات کی گہرائی تک جانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ میری سوچ یہ کہتی ہے کہ چاہے تحفہ کوئی ہو ایک مسکراہٹ سے لے کر آسمان کے ستاروں تک تحفہ دینے والے کا پیار اور حقیقی خوشی اس میں شامل ہو اور سب سے بہترین لمحہ وہ ہوتا ہے جب آپ کا دیا ہوا تحفہ وصول کرنے والے کی آنکھوں کو مسرت سے بھر دے اور وہ جگنو بن جائیں ۔