جمعرات, اکتوبر 25, 2012

"شکوہ "

" تم میرے کچھ بھی نہیں "
" جو ہمارے نہیں ہوتے وہ ہمیں کیوں ملتے ہیں ''
دُنیا میں دو طرح کے لوگ ہمارے قریب ہوتے ہیں۔ایک وہ جو ہمیں چاہتے ہیں یا ہم اُنہیں چاہتے ہیں۔ ہمارے اُن سے تعلُقات ہوسکتے ہیں ۔۔۔ رشتے ہوتے ہیں۔۔۔ ہم اپنی ضروریات اپنی آسائشوں کے لیے اُن کے قریب جاتے ہیں۔۔۔ دُنیا میں زندہ رہنے کے لیے ہمیں اُن کا سہارا قدم قدم پردرکار ہوتا ہے۔نہ چاہتےہوئے بھی کسی نہ کسی انسان سے واسطہ رکھنا پڑتا ہے۔ نہ صرف ہمارے دوست بلکہ ہمارے دُشمن یا ہمیں ناپسند کرنے والے اور ہمیں برداشت کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔
یہ تو سیدھا سادھا زندگی گُزارنے کا فارمولہ ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایک اور طرح کے لوگ بھی ہیں جو ہمارے کوئی بھی نہیں ہوتے۔۔۔ کوئی تعلق،کوئی واسطہ کوئی رشتہ، کوئی جذبہ، کوئی خواہش نہ ہونے کے باوجود وہ کسی نہ کسی موڑ پر دوبارہ اس طرح مل جاتے ہیں کہ اجنبیت کی دبیز چادر کی تاریکی میں جُگنو کی چمک جیسے۔ اور زندگی ایک نئے ڈھنگ سے اپنی چَھب دِکھلاتی ہے۔ زندگی کے نصاب کے وہ اوراق جو پڑھنے کے بعد پُرانے ہو جاتے ہیں اور نئے اسباق کے دوران جب یک دم سامنے آجاتے ہیں تو صرف ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ زندگی رُکتی نہیں ۔۔۔ آگے بڑھتی رہتی ہے لیکن وہ اپنے سارے اثاثے،ساری کمائی لے کرسفر جاری رکھتی ہے۔عُمرو عیّار کی زنبیل کی طرح کشکول بظاہر خالی نظر آتا ہے۔۔۔ ہم اپنی سہولت کے مطابق وزن ڈال کر سفر طے کرتے جاتے ہیں اوراپنی دانست میں غیرضروری سامان ِسفر کم بھی کرتے ہیں در حقیقت اُس میں کمی نہیں ہوتی ۔ زندگی میں کس موڑ پر اور کس مقام پر ہمیں کس چیزکی ضرورت پڑ جائے ہم کبھی نہیں جان سکتے۔
"یہ ہمارے رب کا ہم پر فضل ہے کہ ضرورت ابھی خواہش کی سیڑھی پربھی نہیں آتی اور ہم مالا مال ہو جاتے ہیں"
فروری 5 ،2012

2 تبصرے:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...