اتوار, اکتوبر 14, 2012

" لبْیک اللھم لبّیک "

لبیّک اللھم لبّیک ! 
خانۂ کعبہ کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو وہ "حرکت " ہے۔
وہاں وقت تھم جاتا ہے۔۔۔ گھڑی کی سوئیاں رُک جاتی ہیں۔۔۔ منٹوں سیکنڈوں کےدن رات ختم ہوجاتےہیں۔۔۔ وقت اور اُجالے کی ہر تعریف بےمعنی نظر آتی ہے۔بس زندگی اپنے دھیان میں چلتی رہتی ہے۔ہر چہرہ کسی نہ کسی گمان میں ہوتا ہے۔۔۔ ساکت نہیں ہوتا۔ صرف نماز باجماعت کے اوقات میں کائنات کی ہر شے رُک جاتی ہے پھر سب اپنے مدار میں 
جاری وساری رہتا ہے۔
حرم کعبہ کے "پھیروں"میں پاؤں تھک جاتے ہیں  اور دل نہیں تھکتا۔جسم باغی ہوجاتا ہے اور روح  اُس کےسامنےمجبور وبےبس ۔جبکہ سفرِزندگی کے "اُلٹ پھیر "میں پاؤں کبھی نہیں تھکتے۔جسم ہے کہ آخری سانس تک خواہشوں اور حسرتوں کے منہ زور گھوڑے   کی پیٹھ سے بندھا  گھسٹتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ دل تھک جاتا ہے۔
۔۔۔
 ٭  انسان دُنیاوی آسائشوں اور مادی لذتوں کا اتنا  رسیا ہو چُکا ہے کہ  اللہ کا مہمان بننے کے اعزاز کی سچی خوشی  اور  سرزمین ِ مقدس میں  ہر سُو ملنے والا "وی آئی پی پروٹوکول" محسوس ہی نہیں  کر سکتا۔  نفس کی ہوس  اورزبان کےچٹخارے     روح کی طمانیت پر حاوی آ جاتے ہیں۔
٭ چہروں کے بھی عجب کھیل ہیں ۔کچھ چہروں کے ساتھ عمر گزار دو لیکن اجنبیت کا  غازہ کبھی نہیں اُترتا اور کبھی انسانوں کے  ہجوم میں  زندگی میں پہلی اور آخری بار لمحہ بھر کو ملنے والے  اپنائیت کی ایسی مٹھاس دے جاتے ہیں کہ  دل  روزِ  قیامت بھی اُن کے ساتھ کی آرزو   کرتا ہے۔
٭ ایک کمرے میں صرف میاں بیوی ہی  رہ سکتے ہیں  جو ہر تنگی ترشی میں  بہرحال گزارہ کر ہی لیتے ہیں جبکہ  سفر میں  مختصر مدت   کا  ساتھ  انسانوں کی خصلت اور اوقات بتا دیتا ہے۔
٭ کاٖغذی رشتے کاغذ کے پھول کی طرح ہوتے ہیں۔جتنا  چاہے خلوص کی خوشبو سے سنوارنے کی کوشش کرو ،احساس کی مہک سے خالی رہتے ہیں۔
٭نیکی صرف اتنی کرنا چاہیے جو دوسرے کو ہضم ہو سکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...