سورۂ البقرہ (2) ۔۔آیت۔ 216
ترجمہ!
"مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اورعجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے اورتم نہیں جانتے"
انسان کو کیا ملتا ہے؟ اوروہ کیا حاصل کرتا ہے؟بظاہریہ ایک ہی سوال ہے پر اس کے جوابات مختلف ہیں۔انسان کی کم عقلی کہہ لیں یا غوروفکر کا فقدان کہ وہ اس سوال کے پہلے جُزو کو ہی کُل جان کر ساری زندگی کسمپُرسی کی حالت میں گُزار دیتا ہے۔انسان ساری عمر یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ اسے دُنیا سے کیا ملا ؟ رشتوں نے اسے کتنی تقویت بخشی ؟ زندگی نے اُسے کس کس محاذ پر پسپا کیا ؟ وہ آخری سانس تک حالتِ جنگ میں رہتا ہے۔
" زندگی کا اہم سوال جس پر غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا حاصل کیا "
اس کی مثال ایسےکہ خوراک انسان بھی کھاتا ہے اور جانور بھی لیکن انسان جانتا ہے کہ خوراک نہ صرف ہماری بھوک مٹاتی ہے بلکہ اس کے صحت بخش اجزاء ہمارے لیےمفید ہیں اور یہی پہلو اس کی اصل ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ خصوصیت یا خاصیت کی بجائے مقدار پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اسی لیے خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہماری زندگی کے بد سے بد ترین تجربے میں بھی ایک مثبت سبق پوشیدہ ہے ۔"اللہ کے ہر کام میں حِکمت ہے"۔
اس سبق کا ادراک ہماری آکسیجن ہے ورنہ نفرتوں ،محرومیوں اور بےبسی کی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمارے وجود کو کُمہلا کر زندہ لاش بنا دیتی ہے۔
ترجمہ!
"مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اورعجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے اورتم نہیں جانتے"
انسان کو کیا ملتا ہے؟ اوروہ کیا حاصل کرتا ہے؟بظاہریہ ایک ہی سوال ہے پر اس کے جوابات مختلف ہیں۔انسان کی کم عقلی کہہ لیں یا غوروفکر کا فقدان کہ وہ اس سوال کے پہلے جُزو کو ہی کُل جان کر ساری زندگی کسمپُرسی کی حالت میں گُزار دیتا ہے۔انسان ساری عمر یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ اسے دُنیا سے کیا ملا ؟ رشتوں نے اسے کتنی تقویت بخشی ؟ زندگی نے اُسے کس کس محاذ پر پسپا کیا ؟ وہ آخری سانس تک حالتِ جنگ میں رہتا ہے۔
" زندگی کا اہم سوال جس پر غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا حاصل کیا "
اس کی مثال ایسےکہ خوراک انسان بھی کھاتا ہے اور جانور بھی لیکن انسان جانتا ہے کہ خوراک نہ صرف ہماری بھوک مٹاتی ہے بلکہ اس کے صحت بخش اجزاء ہمارے لیےمفید ہیں اور یہی پہلو اس کی اصل ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ خصوصیت یا خاصیت کی بجائے مقدار پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اسی لیے خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہماری زندگی کے بد سے بد ترین تجربے میں بھی ایک مثبت سبق پوشیدہ ہے ۔"اللہ کے ہر کام میں حِکمت ہے"۔
اس سبق کا ادراک ہماری آکسیجن ہے ورنہ نفرتوں ،محرومیوں اور بےبسی کی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمارے وجود کو کُمہلا کر زندہ لاش بنا دیتی ہے۔
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ آپ کو استقامت دے