وہ کم عقل تلاشِ ذات کےسفر پرتھی۔۔۔اس نےکشت اُٹھائےجوگ لیا،دردرسوالی بنی۔روح کا رستہ دکھائی نہ دیتا تھا شاید اس کائنات سے پرے کوئی اوردُنیا تھی جہاں اُس کا سکون تھا۔وہ بےچین تھی،فراق یارمیں پل پل جیتی تھی پل پل مرتی تھی۔ کہاں جائے؟کس سے ملے؟ پھر یوں ہوا کہ جب درد حد سے سوا ہو گیا تو مالک نے کہا کہ اب میری تو سُن ! اپنے اندر تو جھانک شاید تجھےتیرا گوہرِمراد مل جائے۔
وجود کی چاہ حق ہے پر چاہ کو کبھی وجود میں تلاش نہ کرنا۔اگر وجود مِل گیا تو چاہ نہیں ملے گی۔جب وجود مل جائےتوانسان چاہ کو بھول جاتا ہے۔ وجود کی کشش کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ طوافِ وجود میں انسان بےخود سا ہو جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ طواف کرو تو وجود کو نہ دیکھو، چاہ کو دیکھو،اُس میں گُم ہو جاؤ۔ اگر وجود کو دیکھا تو چاہ نہیں رہے گی ۔ یہ بھی نہیں کہ وجود کو بھول جاؤ- جب طواف کر چُکو تو پھر جتنا چاہے آنکھوں میں تصویراُتارلو۔ دیکھتے جاؤ، دیکھتےجاؤ۔۔۔ یہ وہ لذّت ہےجس سےسَیری نہیں ہوتی، وہ پیاس ہے جو کبھی نہیں بُجھتی۔۔۔ لیکن اس لذت میں بھی ،اس پیاس میں بھی وہ ٹھنڈک ہے جو روح کی تِشنگی مٹا دیتی ہے۔
ذات تو ہروقت تمہارے پاس ہے۔۔۔ جب دل چاہےبات کرو۔۔۔لاڈ کرو۔۔۔ لڑوجھگڑو۔۔۔خفا ہو جاؤ۔۔۔بھول جاؤ لیکن 'وہ' ذات اپنے بندے کو کبھی نہیں بھولتی ۔ وہ تو ہرنازوادا میں اُس کے پاس ہے۔ مسکراتی ہے۔۔ دیکھتی ہے۔۔۔ اور کہتی ہے کہ تو نے جو کرنا ہے کرلے۔۔۔جو چاہنا ہے چاہ۔۔۔جہاں بھاگنا ہے بھاگ جا۔۔۔ جس کو اپنانا ہے اپنا لے۔ ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا اورتجھے کیا معلُوم تیرے حق میں کیا بہتر ہے؟تُو کس راستےکا مسافر ہے؟ تو ان چھوٹی موٹی پگڈنڈیوں کو ہی نشانِ ِمنزل جان رہا ہے۔۔۔تو نے کہاں جانا ہے یہ صرف میں جانتا ہوں۔اُس وقت بات ہو گی جب تو پلٹ کر آئے گا پھر کس منہ سے کہے گا۔(آیتِ کریمہ سورہ الانبیاء(21) آیت 87۔ترجمہ)اللہ کے سِوا کوئی معبُود نہیں سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔بےشک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔
حق اللہ ہو۔۔کائنات حق کےسوا کچھ بھی نہیں۔ہرشے ہرجذبہ،ہرخواہش ہرقانون،ہررابطہ،ہرتعلق،ہررشتہ ایک اورصرف ایک چیز کا عکس ہے۔
یہی کاروبار ِحیات ہےتویہی وصالِ دنیا ہے۔۔۔یہی ہجرِذات ہے اوریہی رضائے رب ہے۔
یہی فنا کا پیغام ہے یہی بقا کا سلام ہے۔۔۔ یہی نقش برآب ہےتو یہی حقیقت ِگلاب ہے۔
یہی صبح کا نور ہےیہی شب کا غرور ہے۔
یہی رہبرِکامل ہے تو یہی نشانِ منزل بھی۔
اخلاق ِآدمیت ہے توخلق کی جامعیت بھی یہی۔
روح کی پکار ہے تو جسم کی طلب بھی ہے۔
یہی راستہ ہے فلاح کا۔۔۔ پرکیا کریں۔۔۔
"یہی وجود کی چاہ بھی ہے اوریہی آنکھ کا آنسو بھی ہے"
وجود کی چاہ حق ہے۔وجود نہ ہو تو ذات نہیں ملتی۔ ثبوت نہ مانگنا۔ثبوت مل گیا تو یقین کرنا پڑے گا پھر واپسی کا راستہ نہیں ملے گاکہ سفر پر چل پڑو تو کشتیاں پہلے ہی جلانا پڑتی ہیں اگر اب بھی ثبوت چاہیے تو سُن لو" وجود خانہ ء کعبہ ہے اور ذات خالقِ کائنات ہے"۔خانہءکعبہ جسے خالق نے صرف ہمارے عقلی معیار کے اطمینان کے لیے پیدا کیا ہے۔ ورنہ اُسے کسی کے سجدوں۔۔۔ کسی کے سفر۔۔۔ کسی کی مُشقّت کی کوئی ضرورت نہیں۔
یاد رکھو!تلاشِ ذات کے سفر پرنہ نکلنا،تکمیلِ ذات ہو گئی تووجود باقی نہیں رہے گا۔جب حضرت موسٰی تجلّی کی تاب نہ لاسکے تو تم تو کچھ بھی نہیں اس کائنات کے ایک ادنیٰ ذرّے سے بھی کمتر۔لیکن تمہارا وجود ہے۔۔۔تمہاری موجودگی ہے۔۔۔اس کو باقی رہنے دو۔ جو مل جائے رب کی رضا سے جھولی میں بھر لو۔دینے والا تو دیتا ہی چلا جاتا ہے یہ نہ ہو پھر تنگیءداماں کا شکوہ کرنے لگو۔
جسم کی روح کو جانے بغیر'روح' کی معراج کا سفرلاحاصل ٹھہرتا ہے۔مجاز کے پردے سے حقیقت کا عکس صرف زمین سے سفر کرنے والوں کا نصیب ہے۔مجاذ اور حقیقت ایک ہی دائرے میں باہم جڑے ہیں ۔ ہمیں بس مجاذ میں سے حقیقت تلاش کرنی ہے اور حقیقت کو مجاذ کے پردے میں سمجھنے کی کوشش کرنا ہے یہی مقصدِحیات ہے۔
یکم اکتوبر ، 2010
وجود کی چاہ حق ہے پر چاہ کو کبھی وجود میں تلاش نہ کرنا۔اگر وجود مِل گیا تو چاہ نہیں ملے گی۔جب وجود مل جائےتوانسان چاہ کو بھول جاتا ہے۔ وجود کی کشش کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ طوافِ وجود میں انسان بےخود سا ہو جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ طواف کرو تو وجود کو نہ دیکھو، چاہ کو دیکھو،اُس میں گُم ہو جاؤ۔ اگر وجود کو دیکھا تو چاہ نہیں رہے گی ۔ یہ بھی نہیں کہ وجود کو بھول جاؤ- جب طواف کر چُکو تو پھر جتنا چاہے آنکھوں میں تصویراُتارلو۔ دیکھتے جاؤ، دیکھتےجاؤ۔۔۔ یہ وہ لذّت ہےجس سےسَیری نہیں ہوتی، وہ پیاس ہے جو کبھی نہیں بُجھتی۔۔۔ لیکن اس لذت میں بھی ،اس پیاس میں بھی وہ ٹھنڈک ہے جو روح کی تِشنگی مٹا دیتی ہے۔
ذات تو ہروقت تمہارے پاس ہے۔۔۔ جب دل چاہےبات کرو۔۔۔لاڈ کرو۔۔۔ لڑوجھگڑو۔۔۔خفا ہو جاؤ۔۔۔بھول جاؤ لیکن 'وہ' ذات اپنے بندے کو کبھی نہیں بھولتی ۔ وہ تو ہرنازوادا میں اُس کے پاس ہے۔ مسکراتی ہے۔۔ دیکھتی ہے۔۔۔ اور کہتی ہے کہ تو نے جو کرنا ہے کرلے۔۔۔جو چاہنا ہے چاہ۔۔۔جہاں بھاگنا ہے بھاگ جا۔۔۔ جس کو اپنانا ہے اپنا لے۔ ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا اورتجھے کیا معلُوم تیرے حق میں کیا بہتر ہے؟تُو کس راستےکا مسافر ہے؟ تو ان چھوٹی موٹی پگڈنڈیوں کو ہی نشانِ ِمنزل جان رہا ہے۔۔۔تو نے کہاں جانا ہے یہ صرف میں جانتا ہوں۔اُس وقت بات ہو گی جب تو پلٹ کر آئے گا پھر کس منہ سے کہے گا۔(آیتِ کریمہ سورہ الانبیاء(21) آیت 87۔ترجمہ)اللہ کے سِوا کوئی معبُود نہیں سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔بےشک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔
حق اللہ ہو۔۔کائنات حق کےسوا کچھ بھی نہیں۔ہرشے ہرجذبہ،ہرخواہش ہرقانون،ہررابطہ،ہرتعلق،ہررشتہ ایک اورصرف ایک چیز کا عکس ہے۔
یہی کاروبار ِحیات ہےتویہی وصالِ دنیا ہے۔۔۔یہی ہجرِذات ہے اوریہی رضائے رب ہے۔
یہی فنا کا پیغام ہے یہی بقا کا سلام ہے۔۔۔ یہی نقش برآب ہےتو یہی حقیقت ِگلاب ہے۔
یہی صبح کا نور ہےیہی شب کا غرور ہے۔
یہی رہبرِکامل ہے تو یہی نشانِ منزل بھی۔
اخلاق ِآدمیت ہے توخلق کی جامعیت بھی یہی۔
روح کی پکار ہے تو جسم کی طلب بھی ہے۔
یہی راستہ ہے فلاح کا۔۔۔ پرکیا کریں۔۔۔
"یہی وجود کی چاہ بھی ہے اوریہی آنکھ کا آنسو بھی ہے"
وجود کی چاہ حق ہے۔وجود نہ ہو تو ذات نہیں ملتی۔ ثبوت نہ مانگنا۔ثبوت مل گیا تو یقین کرنا پڑے گا پھر واپسی کا راستہ نہیں ملے گاکہ سفر پر چل پڑو تو کشتیاں پہلے ہی جلانا پڑتی ہیں اگر اب بھی ثبوت چاہیے تو سُن لو" وجود خانہ ء کعبہ ہے اور ذات خالقِ کائنات ہے"۔خانہءکعبہ جسے خالق نے صرف ہمارے عقلی معیار کے اطمینان کے لیے پیدا کیا ہے۔ ورنہ اُسے کسی کے سجدوں۔۔۔ کسی کے سفر۔۔۔ کسی کی مُشقّت کی کوئی ضرورت نہیں۔
یاد رکھو!تلاشِ ذات کے سفر پرنہ نکلنا،تکمیلِ ذات ہو گئی تووجود باقی نہیں رہے گا۔جب حضرت موسٰی تجلّی کی تاب نہ لاسکے تو تم تو کچھ بھی نہیں اس کائنات کے ایک ادنیٰ ذرّے سے بھی کمتر۔لیکن تمہارا وجود ہے۔۔۔تمہاری موجودگی ہے۔۔۔اس کو باقی رہنے دو۔ جو مل جائے رب کی رضا سے جھولی میں بھر لو۔دینے والا تو دیتا ہی چلا جاتا ہے یہ نہ ہو پھر تنگیءداماں کا شکوہ کرنے لگو۔
جسم کی روح کو جانے بغیر'روح' کی معراج کا سفرلاحاصل ٹھہرتا ہے۔مجاز کے پردے سے حقیقت کا عکس صرف زمین سے سفر کرنے والوں کا نصیب ہے۔مجاذ اور حقیقت ایک ہی دائرے میں باہم جڑے ہیں ۔ ہمیں بس مجاذ میں سے حقیقت تلاش کرنی ہے اور حقیقت کو مجاذ کے پردے میں سمجھنے کی کوشش کرنا ہے یہی مقصدِحیات ہے۔
یکم اکتوبر ، 2010
عارف بلدے وانگ دیے۔
جواب دیںحذف کریںتلاش ذات کے سفر پر نہیں لکلنا تو کیا چاہ کی تلاش میں نکلنا ہے؟جب تصور ذات نہیں تو چاہ کیسی؟ عجیب گورکھ دھندا ہے۔عشق کی گتھیاں تو عقل سے سلجھائی جارہی ہیں اور اور جہاں عشق ہے وہاں عقل کی قدر بس برائے نام۔
جواب دیںحذف کریں"لاوں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں"
حذف کریںایک آیت قرآنی کا مفہوم ہے"جس نے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا" اُس کے تناضر میں سوچ کے کسی سفر پر پوسٹ کے یہ لفظ لکھے
یہ اس پوسٹ کا نچوڑ ہے
تلاشِ ذات کے سفر پرنہ نکلنا -تکمیلِ ذات ہو گئی تو وجود باقی نہیں رہے گا-جب حضرت موسٰی تجلّی کی تاب نہ لاسکے تو تم تو کچھـ بھی نہیں اس کائنات کے ایک ادنٰی ذرّے سے بھی کمتر لیکن تمہارا وجود ہے، تمہاری موجودگی ہے اسکو باقی رہنے دو-جو مل جائے رب کی رضا سے جھولی میں بھر لو- دینے والا تو دیتا ہی چلا جاتا ہے یہ نہ ہو پھر تنگیءداماں کا شکوہ کرنے لگو شکریہ جناب غلام عباس مرزا- آپ کے احساس کا