جمعہ, فروری 20, 2015

"سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں "

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
 تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
 سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
 سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعروشاعری سے شغف
 تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
 یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
 ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
 سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌ اس کی غزال سی آنکھیں
 سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌ کاکلیں اس کی
 سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
 سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
 مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
 کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
 سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
 جو سادہ دل ہیں‌ اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
 پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
 کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
 سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
 مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
 کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
 چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
 اگریہ  خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
 فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌

5 تبصرے:

  1. ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
    فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
    جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
    کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
    رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
    سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
    تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
    یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
    یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
    جو لالچوں سے تجھے، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
    یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
    ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
    نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
    سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
    یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے
    سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں
    ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
    ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
    بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر
    چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. چلو کہ کوچۂ دلدار چل کے دیکھتے ہیں
    کسے کسے ہے یہ آزار چل کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے ایسا مسیحا کہیں سے آیا ہے
    کہ اس کو شہر کے بیمار چل کے دیکھتے ہیں
    ہم اپنے بت کو، زلیخا لیے ہے یوسف کو
    ہے کون رونق بازار چل کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے دیر و حرم میں تو وہ نہیں‌ملتا
    سو اب کے اس کو سرِ دار چل کے دیکھتے ہیں
    اس ایک شخص کو دیکھو تو آنکھ بھرتی نہیں
    اس ایک شخص کو ہر بار چل کے دیکھتے ہیں
    وہ میرے گھر کا کرے قصد جب تو سائے سے
    کئی قدم در و دیوار چل کے دیکھتے ہیں
    فراز اسیر ہے اس کا کہ وہ فراز کا ہے
    ہے کون کس کا گرفتار؟ چل کے دیکھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
    عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں
    نہ پوچھ جب وہ گزرتا ہے بے نیازی سے
    تو کس ملال سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں
    تیرے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے
    یہ سیر چشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیں
    عجب فسونِ خریدار کا اثر ہے کہ ہم
    اسی کی آنکھ سے اپنے ہنر کو دیکھتے ہیں
    کوئی مکاں کوئی زنداں سمجھ کے رہتا ہے
    طلسم خانۂ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
    فراز در خورِ سجدہ ہر آستانہ نہیں
    ہم اپنے دل کے حوالے سے در کو دیکھتے ہیں
    وہ بے خبر میری آنکھوں کا صبر بھی دیکھیں
    جو طنز سے میرے دامانِ تر کو دیکھتے ہیں
    یہ جاں کنی کی گھڑی کیا ٹھہر گئی ہے کہ ہم
    کبھی قضا کو کبھی چارہ گر کو دیکھتے ہیں
    ہماری دربدری کا یہ ماجرا ہے کہ ہم
    مسافروں کی طرح اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
    فراز ہم سے سخن دوست، فال کے لئے بھی
    کلامِ غالب آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. مسافرت میں بھی تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
    کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں
    وطن سے دُور بھی آزادیاں نصیب کسے
    قدم کہیں بھی ہوں زنجیر گھر کی دیکھتے ہیں
    اگرچہ جسم کی دیوار گرنے والی ہے
    یہ سادہ لوح کی تعمیر گھر کی دیکھتے ہیں
    کوئی تو زخم اسے بھولنے نہیں دیتا
    کوئی تو یاد عناں گیر، گھر کی دیکھتے ہیں
    ہم ایسے خانہ بر انداز، کنج غربت میں
    جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں
    بنائے دل ہے کسی خوابگاہ زلزلہ پر
    سو اپنی آنکھوں سے تقدیر گھر کی دیکھتے ہیں
    فراز جب کوئی نامہ وطن سے آتا ہے
    تو حرف حرف میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...