پیر, فروری 02, 2015

"ظرف"

گلاس آدھا خالی ہے آدھا بھرا ہوا ہے۔۔۔جس کا جتنا ظرف ہے اتنی اُس کی نگاہ ہے۔ لفظ اگرنگاہ کے ترجمان ہیں تو انسان کے ظرف کےعکاس بھی۔جس کا جتنا ظرف ہو وہ اُتنا ہی دیتا ہےیا وہی دے سکتا ہے جو اُس کے پاس ہو۔ہم انسان ہیں۔۔۔ ہمارے دینے کی ایک حد ہے۔۔۔اتنا دو کہ دوسرے کا ظرف اس کو لینے کے قابل بھی ہو۔پانے والے کے ظرف کا پیمانہ اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ ناپسندیدہ "ٹھہرے" پانی پر گرے کنکر کی طرح ایک پل کو شور کرے اور پھرغائب ہو جائے نا کہ اُسے بے قابو کرکے کناروں سے باہر نکال دے۔کیکر کا کام زخم دینا اور پھول کا کام لمس کا احساس دینا ہے۔ظرف کی پہچان ہو جائے تو دکھ کا احساس کم ہو جاتا ہے۔زندگی آخری سانس تک عطا کرتی جاتی ہےلینے والے کا ظرف سلامت رہنا چاہیے۔
لب دریا "۔"
ہم سب اپنی اپنی حدودوقیود کے اندر اپنے اپنے ظرف کی چھلنیاں لے کر وقت کے بہتے دریا میں سے اُن سنہری ذروں کی تلاش میں ہیں جو ہمیں چھو کر مالا مال کر دیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ نہ جانے کب اور کیسے کتنے گوہر نایاب ہمارے ظرف کی چھلنی میں سے خاموشی سے گذر کرتہۂ خاک ہو گئے۔

2 تبصرے:

  1. بہت خوب

    کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
    جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ”کم ظرف“ یعنی ”چھوٹا پانڈا“ جس کی انگریزی ہے ”سمال کراکری“۔ اس کی سب سے بڑی مثال بقلم خود ہے ۔ میں لکھتا رہتا ہوں اور بولتا رہتا ہوں ۔ میرا ”پانڈا“ اتنا چھوٹا یعنی مائیکرو سائز کا ہے کی اس میں جھوٹ جیسی مہین باریک چیز بھی نہیں گھُستی
    میں نے بچپن میں سُنا تھا ”بھلا کرنے والے بھلائی کئے جا ۔ بُرائی کے بدلے دعائیں دیئے جا“۔ چنانچہ میں نے دوسروں کے پانڈے کا سائیز آج تک نہیں ناپا ا
    کیکر بڑی کارآمد چیز ہے ۔ بچپن میں کیکر کی ہری ٹہنی سے دانت صاف کیا کرتے تھے پھر جب میں نے یکم مئی 1963ء کو پی او ایف میں ملازمت شروع کی تو ہم دستاویزات کو کیکر کے کانٹوں سے نتھی کرتے تھے

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...