پچیس برس کا سفرِزندگی مکمل ہونے پر۔۔۔ماں کا احساس بیٹے کے نام۔۔۔۔
کچھ باتیں یاد رکھنے کے لیے۔۔۔۔ضرورت۔۔۔۔۔
پیسہ ہر ضرورت پوری کر سکتا ہے لیکن پیسے کو کبھی ضرورت نہ بننے دو۔ پیسہ اگر ضرورت بن جائے تو یہ وہ ضرورت ہے جو کبھی بھی پوری نہیں پڑتی۔ پیسے کی عزت کرو اس سے محبت نہ کرو۔
کتاب۔۔۔۔۔
انسان کی زندگی ایک کتاب کی مانند ہےکسی بھی ادھوری کتاب کے مطالعے سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش اُلجھا کر رکھ دیتی ہے۔ہمارے آس پاس بسنے والے انسان اور مقدر کے رشتے ہمیں ہر گھڑی کوئی نہ کوئی نیا سبق دیتے ہیں۔ہر سبق پر دھیان دو اور اُس کی اہمیت کو تسلیم کرو۔ خاموشی سے ہر رنگ کو بس دیکھتے جاؤ محسوس کرو۔ مکمل تصویر اسی وقت سامنے آتی ہے جب کسی کی کتاب ِزندگی بند ہو جائے۔
ہمارے ماں باپ اپنی زندگی میں کبھی ہمارے رول ماڈل نہیں ہوتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم آج جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں۔۔۔اِن ہی کی بدولت ہیں۔۔۔ہمارے جذبات واحساسات کی بنیادوں میں اِن کا ہی رنگ ہوتا ہے۔بعد میں ماحول ۔وقت اور انسان کی اپنی انفرادی صلاحیت جو رب کی طرف سے ہر انسان کے لیے خاص ہے اس کے بل پر شخصیت کا اصل حسن اورکردار کی بلندی وپائیداری واضح ہوتی ہے۔ زندگی کے پہلے قدم پر جو رشتے ہمارے ہمراہ ہوتے ہیں اور ہمارا ہر بڑھتا قدم اِن کی آنکھوں میں جُگنو بن کر چمکتا ہے،جب وہ بچھڑ جاتے ہیں تو ہماری زندگی کی صبح سے اُن کی زندگی کی شام تک کی روشنی ہمارے لیے آنے والی زندگی کا سب سے اہم سبق ضرور ہوتی ہے۔ اُن کی بند کتاب زندگی ہمارے لیے اپنی زندگی سنوارنے سمجھنے کا بہترین موقع ضرور دیتی ہے۔ اُن کی حیات میں بےشک اس بات کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی اور دے بھی نہیں سکتے کہ ہمارے اور اُن کی سوچ کے بیچ ایک نسل کا فرق ہوتا ہے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد اگر ہم اُن کو یک لخت فراموش کر دیں ۔۔۔خواب سمجھ کر بھول جائیں تو آنے والی زندگی میں ہمارا وجود ترقی اور کامیابی کے آسمانوں کو تو چھو سکتا ہےلیکن اپنے اندر کا خالی پن ایک مکمل خاندان کے ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ کی تنہائی کا اسیر بنا دیتا ہے۔
انسان۔۔۔۔
انسان کے ساتھ اور اُس کی ہماری زندگی میں اہمیت سے انکار نہیں۔لیکن اپنے شرف اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر فیصلہ کرنا چاہیے۔ عزت ہر رشتے ہر احساس میں اولیت رکھتی ہے اور محبت جیسا قیمتی اور انمول تحفہ بھی اگر عزت کے غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو تو بہت جلد اپنی قدروقیمت کھو دیتا ہے۔
چراغ ۔۔۔۔
چراغ تلے ہمیشہ اندھیرا ہوتا ہے۔لیکن ! چراغ اُن ہاتھوں کو ضرور رستہ دکھاتا ہے جو اُسے تھامے رہتے ہیں۔۔۔ نہ صرف اس کی زندگی بلکہ اپنے لیے راہ کی روشنی کی خاطر۔ یاد رکھو زندگی میں "ناقدر شناسی" سے بڑی جہالت اور سوچا جائے تو اس سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں کہ یہ شکر سے دور کرتا ہے اور شکر سے دوری "شرک" ہے۔جس کو "گناہ عظیم" کہا گیا ہے۔
کرکٹ۔۔۔۔
زندگی ایک کھیل ہی تو ہے۔۔۔اسے ٹیسٹ کرکٹ کی طرح کھیلو لیکن ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی کی کے لیے بھی وقت ضرور نکالو۔لگی بندھی رفتاراور ناپ تول کر اپنے "شاٹ" کھیلنے سے شاید زندگی کی پچ پر ٹھہرنے کا بہت سا وقت تو مل جاتا ہے اور نام بھی ہوتا ہے۔پر اس طرح نہ صرف دیکھنے والی نظریں اُکتا جاتی ہیں بلکہ انسان کے اپنے اندر بھی تھکاوٹ گھر کر لیتی ہے۔ جب بھی موقع ملے کوئی چونکا دینے والا شاٹ ضرور کھیلو۔۔۔اس سے اپنے اندر کا جمود ٹوٹتا ہے۔یاد رکھو پہلا شاٹ کھیلنے میں کبھی جلدی نہ کرو ،دوسرے کو پہل کا موقع دینا بظاہر تو پسپائی دکھتا ہے لیکن آنے والا وقت بہتر فیصلہ کرتا ہے۔ جلدبازی کبھی بھی نہیں۔پہلے شاٹ کا جواب دے کر بھی دفاعی حکمتِ عملی سے پیچھے نہ ہٹنا۔ یہ نظر کا دھوکا بھی ہوسکتا ہے۔ بال ہمیشہ دوسرے کے کورٹ میں رہنے دینا بہت سے غلط فیصلوں اور بدگمانیوں سے بچا لیتا ہے۔
پطرس بخاری کا کہنا ہے۔۔۔ کام کے وقت ڈٹ کر کام کرو تا کہ کام کے بعد ڈٹ کر بےقاعدگی کر سکو۔
موت۔۔۔۔۔۔
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ یہ سامنے کا وہ منظر ہے جو کبھی دکھائی نہیں دیتا جب تک ہم پر وارد نہ ہو ۔۔۔ یا ہماراچاہنے والا اس سفر پر روانہ نہ ہو۔ ماں باپ انسان کو دُنیا کا ہر سبق پڑھانے سمجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن یہ سبق صرف وقت ہی سمجھاتا ہے۔ہم زندگی میں بےشک اپنی مرضی سے اپنے فہم کے مطابق ہر سوچ ہر عمل کا اختیار رکھتے ہیں۔لیکن اپنے ماں باپ کے آخری وقت اور ان کی جدائی کے لمحات میں اپنےبڑوں کے طرزِعمل کو رول ماڈل جان کر ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہمارے ماں باپ کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے بلکہ اس سے کہیں آگےاللہ سے ہمارے تعلق کی اصل کہانی کہ ہم رب کے فیصلے کو مانتے ہیں یا اپنی خواہش کو خدا مان کر رب سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔
زندگی۔۔۔۔۔
زندگی زندہ رہنے کی خواہش کا نام ہے۔۔۔ اس خواہش کو زندہ رکھنا چاہتے ہو تو "شُکر" کو اپنی زندگی کا اُوڑھنا بچھونا بنائے رکھنا۔"شرک" سے ایسے بچو کہ ہر سانس میں اس سے پناہ مانگو۔ اگر اس پلِ صراط پر چلنے میں ذراسی بھی کامیابی حاصل کر لی تو یاد رکھو صرف اپنی نظر میں دلی سکون والی " قابل ِ رشک" زندگی تمہارے سامنے ہو گی۔
۔۔۔۔۔
فروری 11۔۔۔2015
اس سے منسلک بلاگ۔۔۔۔پچیس برس کا قصہ
متاثر کن باتیں۔۔۔ہر تعریفی لفظ ہیچ ہے۔۔ کتنا نصیبوں والا بیٹا ہے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ ....برخوردار خوش قسمت ہیں جو انہیں ایسی تربیت گاہ میسر ہے. اعلی تعلیمی ادارے بیشک بڑی بڑی ڈگریاں بانٹ سکتے ہیں ... باعزت روزگار کے دروازے تک پہنچا سکتے ہیں لیکن زندگی کو برتنا نہیں سکھا سکتے. اس راہگزر کی اونچ نیچ سے آگاہ نہیں کر سکتے. یہ کام گھر میں ہی ہو سکتا ہے. اور یہی تربیت انسان کی شخصیت اور سوچ و فہم کو اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا کرتی ہے.
جواب دیںحذف کریںhttp://daleel.pk/2016/09/29/7671
جواب دیںحذف کریں