منگل, فروری 24, 2015

"کیمیا گر"


ناول: ایلکیمِسٹ
مصنف: پالو کولہو
زبان: 60 سے زائد تراجم
مضمون: محمد احسن ۔تحریر 27جنوری2015
صاحب ِ تحریر نےیہ کتاب پڑھی۔۔۔ 25جنوری 2015
الکیمسٹ مجھے تب پڑھنے کا اتفاق ہوا جب میں اپنی چاروں کتب پبلش کروا چکا تھا… اور کچھ کرنے کو نہ تھا۔ تب میں نے اِسے
 پڑھا۔ الکیمسٹ حالانکہ ایک ایسے غیرمسلم کا ناول ہے جو غیرمسلم ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ڈسکور کر گیا۔ اِس کتاب کو پڑھنے   کے لیے باقاعدہ اشارات ملتے ہیں… مَیں متاثر ضرور ہوتا ہوں مگر تب جب کائنات اشارات دینا شروع کر دے الله علم کی پیاس رکھنے والے کا ضرور مناسب انتظام کرتا ہے۔۔"
میں یہ مضمون فِیڈ بیک کے طور پر نہیں لکھ رہا کیونکہ نہ تو میں کیمیاگر ہوں، نہ ساحر ہوں… مگر کچھ کیمیاگروں کو جانتا ضرور ہوں۔ بس یوں سمجھیں کہ ہسٹریائی انداز میں اپنے آپ سے مخاطب ہوں، خودگویائی پر مجبور ہوں۔
یہ ایک ناول ہے جو لفظ کی جادوگری سے تعلق رکھتا ہے… اور مَیں ہیری پورٹر کی طرح لفظ کی جادونگری کا ایک طفلِ مکتب ہوں… بس اسی مناسبت سے کچھ نہ کچھ کہنے کی خواہش رکھتا ہوں۔
میری چوتھی کتاب ”آئزک نیوٹن“ پڑھ چکنے والے بخوبی جان چکے ہوں گے کہ نیوٹن کو دنیا ریاضی دان اور طبیعات دان کے طور پر جانتی ہے، وہ بنیادی طور پر ایک زبردست کیمیاگر تھا مگر اُس نے کبھی کسی کو بتایا نہیں ورنہ تختہ دار پر ٹانگ دیا جاتا، اُس زمانے کا یہی رواج تھا۔ نیوٹن نے کائنات کو سمجھنے کے لیے ریاضی کی ایک مخصوص قِسم ایجاد کی جسے دنیا ”کیلکولس“ کہتی ہے۔ سائنسی تاریخ کے مطابق کیلکولس نیوٹن نے نہیں، یورپ کے ایک اور ریاضی دان لیبنیز نے ایجاد کی تھی۔ نیوٹن نے اصل میں کیلکولس کی ہمشکل ریاضی ”فلکس ژیون“ ایجاد کی تھی۔ نیوٹن اور لیبنیز دونوں عرصہ دراز تک پریشان رہے کہ دونوں میں سے کسی نے ایک دوسرے کو نہ تو نقل کیا تھا اور نہ ہی ایک دوسرے سے ملے تھے، نہ ایک دوسرے کو جانتے تھے، پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ دو انجان افراد مختلف سرزمینوں میں رہتے ہوئے ایک ہی چیز ایجاد کر لیں۔ بہرحال، یہ عقدہ ابھی صدیوں بعد کھلنا تھا مگر کیلولس نیوٹن کے نام ہوئی جو فلک ژیون ہی تھی۔
اِسی طرح ریڈیو کی ایجاد کے پیچھے بھی اِسی طرز کی کہانی ہے کہ مغرب میں مارکونی نامی اٹالیئن طبیعات دان نے ریڈیو ایجاد کیا جبکہ اُس وقت ایک ہندوستانی باشندہ جگدیش چندرہ بوس ہندوستان میں رہ کر ریڈیو ایجاد کر چکا تھا۔ چونکہ وہ ہندوستانی تھا، اِس لیے ظاہر ہے ایجاد کا سہرہ مغرب کے سر ہی پہنایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ایک ہی ایجاد دو مختلف علاقوں میں کیسے ہو جاتی ہے؟ بہرحال، اِس کا جواب آسان نہیں، مگر موجود ضرور ہے۔
ایک ہی ایجاد دو مختلف غیرمتعلقہ جگہوں پر معرضِ وجود میں آ جاتی ہے، یہ کائناتی شعور کا چکر ہےجو ہرجانداروبےجان میں بیک وقت موجود ہے۔
کائنات بہت وسیع معنی رکھتی ہے. 96.7% عالمِ غیب ہے اور 3.3% ظاہر. لہذا جو کچھ بھی ہے.. جتنی بھی جہتیں ہیں.. سب کائنات ہے۔
ہر انسان نے لاشعوری طور پر کسی دوسرے انسان کی میگنیٹک فیلڈ میں کچھ وقت گزارنا ہوتا ہے تاکہ بلندیوں کی کچھ انرجیز یا تو لے سکے یا دے سکے… سب لاشعوری طور پر سرانجام پاتا ہے۔
……… علم کائنات ہر کسی پر اِسی لیے آشکار نہیں۔ بڑا بوجھ ہوتا ہے۔ الله اتنا مہربان ہے کہ بندوں پر علم کا بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہتا جب تک کسی کو اِس قابل نہ کرے۔ جب علم اور تخیل اپنی معراج پر پہنچ کر گھٹنے ٹیک دیں تو تب کائناتِ حیرت طاری ہوتی ھے.. تو پھر حیرت سے آگے اور کونسا مقام ہو گا؟ ہاں، مقامِ عشق اُس کے بعد آتا ہے اور پھر فنا. "اب کسی کا کسی سے ملنا... ایک کائناتی منصوبہ بندی ہے.. کیسے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔
میں نے پالو کا صرف الکیمسٹ ناول پڑھا ہے۔ میں الف لیلیٰ داستان بھی پڑھ چکا ہوں۔ عرب معاشرہ دکھانے کے لیے تھوڑی بہت مماثلت ضرور پیدا کی ہو گی… یہی ناول کی تعریف ہے کہ کسی علاقے کی تاریخ اور لوک داستانوں کو بموقع استعمال کیا جائے۔ سفرنامہ میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جہاں تاریخ یا لوک داستان کا تذکرہ کرنا ہو، سیدھا سیدھا بتانا ہوتا ہے کہ یہ بات فلاں کتاب میں درج ہے۔ تارڑ صاحب کا ناول ”خس و خاشاک زمانے“ حضرت فرید الدین عطار کے ناول ”منطق الطیر“ کے کچھ حصے رکھتا ہے۔
یہ اوپر کی گئی کچھ باتیں محض تمہید ہیں۔بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی کتاب کائنات (داستانِ کائنات، انگلستان میں سو رنگ) میں کچھ برس قبل انفرادی و کائناتی شعور پر بات کر چکا ہوں جو کہ ہوبہو الکیمِسٹ ناول میں ”روحِ کائنات“ اور ”زبانِ کائنات“ہے اور اِسی تناظر میں ایک فرد کی حیثیت پر کہانی تخلیق کی گئی ہے۔ ایسے لگا کہ میں اپنے ہی خیالات کو ذرا تخیلاتی انداز میں اپنے کسی معتبر معلم کی زبانی سُن رہا ہوں۔اور یہ معتبر معلم پالو کولہو برازیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ترجمہ کیے جانے والے مشہور ترین ناول نگار بننے سے پہلے آپ موسیقار بھی رہے، جہاں گرد بھی رہے اور کئی برِاعظمی مسافتوں کے گلزار و صحرا پیادہ پا سفر کیا… پھر ہِپی (بھٹکے ہوئے درویش کہہ لیجیے) بن کر لمبے لمبے بال بھی رکھے، نیپال اور دیگر غریب ممالک کی سڑکوں پر سوتے، اور خوب خوب سُوٹے لگاتے۔ بعد میں اِنہوں نے کئی ناولز لکھے جن میں الکیمِسٹ کو دوام حاصل ہوا۔
مجھے امید ہے کہ احباب کو یہ ناول ضرور پسند آئے گا… اِسی وجہ سے میرا سفرنامہ ”انگلستان میں سو رنگ“ بھی سمجھ آ جائے گا۔ وہ سوال کہ ایک ہی ایجاد دو مختلف علاقوں میں کیسے ہو جاتی ہے؟ اِس کا جواب ”کائنات“ اور ”ایلکیمِسٹ“ دونوں میں موجود ہے… اور دونوں کی یہی کہانی ہے… اور یہ صِرف چند مثالیں ہیں، یہ کائنات مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اگر آپ اِس ناول کو پی ڈی ایف میں پڑھنا چاہیں تو لنک مندرجہ ذیل ہے۔
https://drive.google.com/file/d/0B5nw1ai4SYYSa3Fhbll5dUlnU1E/view?usp=sharing‎
۔"الکیمسٹ" اردو میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں ۔  ۔
http://aiourdubooks.net/alchemist-novel-paulo-coelho-urdu-pdf/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  جناب محمد احسن کی اس پوسٹ پر میرا احساس ۔۔۔۔اور جناب محمد احسن کے جواب
فروری 15 ۔۔2015
کیمیاگر۔۔۔۔ پڑھنے کے بعد میرا بےساختہ اظہار۔۔۔
وہ سوال کہ "ایک ہی ایجاد دو مختلف علاقوں میں کیسے ہو جاتی ہے؟ اِس کا جواب ”کائنات“ اور ”ایلکیمِسٹ“ دونوں میں موجود ہے… اور دونوں کی یہی کہانی ہے… اور یہ صِرف چند مثالیں ہیں، یہ کائنات مثالوں سے بھری پڑی ہے"۔۔۔۔۔ 
سوال جواب کی یہ کہانی ہزار مثالوں سے بھی سمجھا دی جائے لیکن صرف "صاحب حال " ہی اس کا اصل مفہوم جان سکتا
ہے۔یہاں میں صرف جناب پروفیسراحمد رفیق اختر کا ایک جملہ لکھنا چاہوں گی کہ اُس پانچ حرفی جملے میں ہر سوال کا جواب اور ہرالجھن کی تشفی موجود ہے۔۔۔۔۔ " علم کی انتہا حیرت نہیں"۔۔۔
علم کی انتہا حیرت نہیں۔ لیکن اپنی ذات کا علم ضرور ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
محمد احسن۔۔۔
حیرت.. جب علم اور تخیل اپنی معراج پر پہنچ کر گھٹنے ٹیک دیں تو تب کائناتِ حیرت طاری ہوتی ھے.. تو پھر حیرت سے آگے اور کونسا مقام ہو گا؟ ہاں، مقامِ عشق اُس کے بعد آتا ہے اور پھر فنا. آپ کے خیال میں علم کی انتہا کس کیفیت پر ختم ہوتی ہے؟
میں ۔۔۔۔
میرا خیال!!! صرف میری خودکلامی یا سرگوشی کہہ لیں جو صرف میرے کان ہی سن سکتے ہیں یا محسوس کر سکتے ہیں ۔ پھر بھی آپ نے پوچھا تو کہے دیتی ہوں ۔میرے نزدیک علم کی انتہا ۔۔۔۔ حق الیقین کی وہ کیفیت ہے جو دنیا میں آنکھ بند ہونے کے آخری لمحے آنکھ پر وارد ہوتی ہے۔ کہ اس لمحے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس کیفیت کا بیان پاک کتاب اور احادیث رسول ﷺ سے تو ثابت ہے لیکن فانی انسان۔۔۔۔ جو اس کیفیت کا امین ہے۔ وہ اظہار کی قدرت کھو دیتا ہے۔
محمد احسن۔۔۔
حق الیقین تو فنا کی کیفیت ہے... زبردست
میں ۔۔۔
ہمارا اپنا دل اور دماغ اس کو کس حد تک تسلیم کرتا ہے۔ ہماری مقدس کتاب کا موضوع انسان ہے اور انسان کے پڑھنے کے لیے اس میں صرف ایک پیغام ہے ۔۔۔ "غور کرو"۔
اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا کرے اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ انسانیت کے لیے بھی علم کے حوالے سے ایسے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں جن کا جاننا ہمارے لیے باعث نجات اور ہمارا مقصد تخلیق بھی ہے۔

1 تبصرہ:

  1. Muhammad Ahsan
    2/27, 11:17am
    الکیمسٹ مجھے تب پڑھنے کا اتفاق ہوا جب میں اپنی چاروں کتب پبلش کروا چکا تھا… اور کچھ کرنے کو نہ تھا۔ تب میں نے اِسے پڑھا۔ الکیمسٹ حالانکہ ایک ایسے غیرمسلم کا ناول ہے جو غیرمسلم ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ڈسکور کر گیا۔ اِس کتاب کو پڑھنے کے لیے باقاعدہ اشارات ملتے ہیں… مَیں متاثر ضرور ہوتا ہوں مگر تب جب کائنات اشارات دینا شروع کر دے الله علم کی پیاس رکھنے والے کا ضرور مناسب انتظام کرتا ہے۔
    ایک ہی ایجاد دو مختلف غیرمتعلقہ جگہوں پر معرضِ وجود میں آ جاتی ہے، یہ کائناتی شعور کا چکر ہےجو ہر جانداروبےجان میں بیک وقت موجود ہے..
    کائنات بہت وسیع معنی رکھتی ہے. 96.7% عالمِ غیب ہے اور 3.3% ظاہر. لہذا جو کچھ بھی ہے.. جتنی بھی جہتیں ہیں.. سب کائنات ہے.
    ہر انسان نے لاشعوری طور پر کسی دوسرے انسان کی میگنیٹک فیلڈ میں کچھ وقت گزارنا ہوتا ہے تاکہ بلندیوں کی کچھ انرجیز یا تو لے سکے یا دے سکے… سب لاشعوری طور پر سرانجام پاتا ہے۔
    ……… علم کائنات ہر کسی پر اِسی لیے آشکار نہیں۔ بڑا بوجھ ہوتا ہے۔ الله اتنا مہربان ہے کہ بندوں پر علم کا بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہتا جب تک کسی کو اِس قابل نہ کرے۔
    "اب کسی کا کسی سے ملنا... ایک کائناتی منصوبہ بندی ہے.. کیسے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔"

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...