سال کے تین سوپینسٹھ دنوں میں ایک دن ایسا ہے جو ہر انسان کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔۔۔اُس کا جنم دن۔۔۔
میرے بیٹے سال کے اس خاص دن کے خاص مرحلے میں جب تم پچیس کے ہندسے کو عبور کرنے والے ہو تو تمہاری کہانی تمہارے لیے۔۔۔کچھ وہ جو تم نہیں جانتے۔۔۔۔کچھ وہ جو تم جانتے ہو اور کچھ وہ جو میں بھی نہیں جانتی لیکن ! پھر بھی کہہ دیتی ہوں۔
اگر آج اس لمحے ایک لفظ میں تمہیں بیان کرنا چاہوں تو وہ ہے "قناعت"۔
یہ مئی 1989 کی بات ہے جب تم اتنی خاموشی سے میرے وجود کا حصہ بنے کہ مجھے ذرا سا بھی گمان نہ ہوا۔ تمہارا بڑا بھائی اس وقت صرف چار ماہ کا ہی تو تھا ۔تم نے اُس کے حصےسے کچھ بھی نہ مانگا۔۔۔محبت۔۔۔توجہ اور نہ ہی ضرورت۔ وہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا اپنی چیزوں پر اپنا حق جتانے والا۔ خیر بڑی مشکل سے رو دھو کر کچھ بیمار رہ کر چند ماہ بعد اس نے تمہیں مان ہی لیا۔محبتوں کی خوشبو ماں کے وجود کی مانوس مہک پر غالب آ گئی اور وہ بہت جلد اپنی دُنیا میں بڑا ہو گیا۔یہ بھی عجیب قانون قدرت ہے کہ جیسے ہی دوسرا بہن یا بھائی آتا ہے پہلا بچہ فوراً بڑا اور سمجھ دار ہو جاتا ہے لیکن اُس کے اندر سے اپنی جگہ چھن جانے کا لاشعوری احساس زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اسی دوران چھ جنوری کواُس کی پہلی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔۔۔ تمہاری خوشبو سے مہکتا میرا عکس عجیب بہار دے رہا تھا۔ اتوارگیارہ فروری 1990 کو شام کے سات بجے تم بنا کسی کو مشکل میں ڈالے یوں دُنیا میں آئے کہ ماں کو نہ سوئی چُبھنے جتنی تکلیف ہوئی اور نہ ہی کسی رفوگری کی ضرورت پڑی۔ ایک سال بڑے گول مٹول سے بھائی کی نسبت تم چھوٹے سے تھے بہت نازک۔ وہ اگر سب کی محبتوں کا مرکز تھا تو تمہیں صرف میری آنکھ ہی محسوس کرتی تھی۔ شاید اسی لیے وہ اس وقت سے ہی مجھ سے دور ہوتا چلا گیا اور میں اپنی تنہائی میں تمہارے ساتھ خوش اور مطمئن۔ زندگی کے یہ دن ایک خوبصورت خواب کی طرح گزر گئے۔ تم جب دو سال کے ہوئے تو بہن آ گئی اور تم نےپھر بھی کوئی شکایت نہ کی۔ اسی سال جب ہم پوسٹنگ پر کوئٹہ گئے تو وہ میری زندگی کے چند یادگاردن تھے۔پی ٹی وی اسٹیشن کے ساتھ منسلک ملازمین کی کالونی میں تم دونوں رات گئے تک کھیلتے رہتے۔تم ہمیشہ سے ہی مؤدب اور فرماں بردار تھے،ایک بار تو حد ہو گئی تم بڑے بھائی کے سلیپر اٹھائے گھر آئے کہ اس نے جوگرز منگوائےہیں۔ یاد رہے تم اس وقت ڈھائی سال کے تھے اور بڑا بھائی ساڑھے تین سال کا۔ اس جگہ کی ایک خاص یاد وہ منظر ابھی تک ذہن میں ٹھہرا ہوا ہے۔تم دروازے کو اندر سے بند کر کے "چیری "کی پلیٹ سامنے رکھے۔۔۔ ہمیں انجان نظروں سے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔خوب کھائے جا رہے تھے۔۔۔ ہم کھڑکی سےجھانک کر کہتے تھے۔۔۔ بیٹا دروازہ کھولو۔ کافی دیر ہو گئی اور پریشانی ہونے لگی تو ہم نے چوکیدار کو بلوا لیا۔اب یاد نہیں کہ تم نے دروازہ کھولا یا ہم نے کسی طرح کھولا۔ وہاں ہمارا ایک کمرے کا چھوٹا سا فلیٹ تھا۔کام کے وقت میں تم تینوں بچوں کو کمرے میں بند کردیتی ۔ تم دونوں بھائی اپنی سات آٹھ ماہ کی بہن کی ٹانگیں پکڑ کر مزے سے اسے کمرے کے چکر دلاتے تھے۔ اگلے سال ہم واپس لوٹ آئے۔ بھائی کو اسکول داخل کرایا گیا۔ کمال یہ ہوا کہ اسےتوسب کچھ سکھایا جاتا لیکن تم خود بخود ہی سیکھ جاتے۔ مجھےآج تک یاد ہےکہ تم نے اردو کی گنتی پتہ نہیں کیسے سیکھ لی حالانکہ یہ تو نصاب میں بھی نہ تھی۔ تم اسکول بھی اتنے ہی آرام سے چلے گئے کوئی رونا نہیں ڈالا۔ جب تم پانچ سال کے ہوئے اس روز دن کےبارہ بجے ایک دم موسم کی خرابی کی وجہ سے اندھیرا ہو گیا اور تم اچانک اکیلے اسکول سے گھر آگئے۔میں نے اگلے روز کا اخبار سنبھال کر رکھ لیا کہ یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا کہ تم بخیریت گھر پہنچ گئے۔اب تم سے پوچھا توتمہاری یاد میں بھی وہ منظر کچھ کچھ محفوظ تھا۔
اگر آج اس لمحے ایک لفظ میں تمہیں بیان کرنا چاہوں تو وہ ہے "قناعت"۔
یہ مئی 1989 کی بات ہے جب تم اتنی خاموشی سے میرے وجود کا حصہ بنے کہ مجھے ذرا سا بھی گمان نہ ہوا۔ تمہارا بڑا بھائی اس وقت صرف چار ماہ کا ہی تو تھا ۔تم نے اُس کے حصےسے کچھ بھی نہ مانگا۔۔۔محبت۔۔۔توجہ اور نہ ہی ضرورت۔ وہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا اپنی چیزوں پر اپنا حق جتانے والا۔ خیر بڑی مشکل سے رو دھو کر کچھ بیمار رہ کر چند ماہ بعد اس نے تمہیں مان ہی لیا۔محبتوں کی خوشبو ماں کے وجود کی مانوس مہک پر غالب آ گئی اور وہ بہت جلد اپنی دُنیا میں بڑا ہو گیا۔یہ بھی عجیب قانون قدرت ہے کہ جیسے ہی دوسرا بہن یا بھائی آتا ہے پہلا بچہ فوراً بڑا اور سمجھ دار ہو جاتا ہے لیکن اُس کے اندر سے اپنی جگہ چھن جانے کا لاشعوری احساس زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اسی دوران چھ جنوری کواُس کی پہلی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔۔۔ تمہاری خوشبو سے مہکتا میرا عکس عجیب بہار دے رہا تھا۔ اتوارگیارہ فروری 1990 کو شام کے سات بجے تم بنا کسی کو مشکل میں ڈالے یوں دُنیا میں آئے کہ ماں کو نہ سوئی چُبھنے جتنی تکلیف ہوئی اور نہ ہی کسی رفوگری کی ضرورت پڑی۔ ایک سال بڑے گول مٹول سے بھائی کی نسبت تم چھوٹے سے تھے بہت نازک۔ وہ اگر سب کی محبتوں کا مرکز تھا تو تمہیں صرف میری آنکھ ہی محسوس کرتی تھی۔ شاید اسی لیے وہ اس وقت سے ہی مجھ سے دور ہوتا چلا گیا اور میں اپنی تنہائی میں تمہارے ساتھ خوش اور مطمئن۔ زندگی کے یہ دن ایک خوبصورت خواب کی طرح گزر گئے۔ تم جب دو سال کے ہوئے تو بہن آ گئی اور تم نےپھر بھی کوئی شکایت نہ کی۔ اسی سال جب ہم پوسٹنگ پر کوئٹہ گئے تو وہ میری زندگی کے چند یادگاردن تھے۔پی ٹی وی اسٹیشن کے ساتھ منسلک ملازمین کی کالونی میں تم دونوں رات گئے تک کھیلتے رہتے۔تم ہمیشہ سے ہی مؤدب اور فرماں بردار تھے،ایک بار تو حد ہو گئی تم بڑے بھائی کے سلیپر اٹھائے گھر آئے کہ اس نے جوگرز منگوائےہیں۔ یاد رہے تم اس وقت ڈھائی سال کے تھے اور بڑا بھائی ساڑھے تین سال کا۔ اس جگہ کی ایک خاص یاد وہ منظر ابھی تک ذہن میں ٹھہرا ہوا ہے۔تم دروازے کو اندر سے بند کر کے "چیری "کی پلیٹ سامنے رکھے۔۔۔ ہمیں انجان نظروں سے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔خوب کھائے جا رہے تھے۔۔۔ ہم کھڑکی سےجھانک کر کہتے تھے۔۔۔ بیٹا دروازہ کھولو۔ کافی دیر ہو گئی اور پریشانی ہونے لگی تو ہم نے چوکیدار کو بلوا لیا۔اب یاد نہیں کہ تم نے دروازہ کھولا یا ہم نے کسی طرح کھولا۔ وہاں ہمارا ایک کمرے کا چھوٹا سا فلیٹ تھا۔کام کے وقت میں تم تینوں بچوں کو کمرے میں بند کردیتی ۔ تم دونوں بھائی اپنی سات آٹھ ماہ کی بہن کی ٹانگیں پکڑ کر مزے سے اسے کمرے کے چکر دلاتے تھے۔ اگلے سال ہم واپس لوٹ آئے۔ بھائی کو اسکول داخل کرایا گیا۔ کمال یہ ہوا کہ اسےتوسب کچھ سکھایا جاتا لیکن تم خود بخود ہی سیکھ جاتے۔ مجھےآج تک یاد ہےکہ تم نے اردو کی گنتی پتہ نہیں کیسے سیکھ لی حالانکہ یہ تو نصاب میں بھی نہ تھی۔ تم اسکول بھی اتنے ہی آرام سے چلے گئے کوئی رونا نہیں ڈالا۔ جب تم پانچ سال کے ہوئے اس روز دن کےبارہ بجے ایک دم موسم کی خرابی کی وجہ سے اندھیرا ہو گیا اور تم اچانک اکیلے اسکول سے گھر آگئے۔میں نے اگلے روز کا اخبار سنبھال کر رکھ لیا کہ یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا کہ تم بخیریت گھر پہنچ گئے۔اب تم سے پوچھا توتمہاری یاد میں بھی وہ منظر کچھ کچھ محفوظ تھا۔
گیارہ فروری 1995 کے اخبار کا عکس۔۔۔
اسکول میں ٹیچرز سے کبھی کوئی شکایت نہیں ملی۔ لیکن تم اکثر ضدیں کرتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ جب ڈانٹ پڑتی تھی تو کہتے تھے "ممی پیار سے"۔ یہ لفظ میری زندگی میں آج یوں گردش کرتے ہیں کہ مجھ سے بھی کسی کی اونچی آواز برداشت نہیں ہوتی لیکن میں تو بہت بڑی ہوں نا۔ میں کبھی نہیں کہتی کہ پیار سے کہیں اور تم ابھی تک اتنے ہی چھوٹے ہو۔ کہتے تو کچھ نہیں بس خوفناک حد تک خاموش ہوجاتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارا بڑا بھائی اور چھوٹی بہن بہت اچھے ہیں کہ اُنہیں جتنا مرضی ڈانٹ لو وہ بہت جلد نارمل ہو جاتے ہیں۔ "ڈھیٹ "ہونا بھی ایک بہت بڑی خوبی ہےبس انسان کو "بےحس"نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ میرے تینوں بچے بہت اعلیٰ تعلیم وتربیت اور آداب واخلاق کے شاہکار تو نہیں لیکن ان کے اندر کہیں نہ کہیں ذرا سی انسانیت کی رمق باقی ہے۔ روشنی کی یہ کرن بےشک مجھے فیض نہ پہنچائے لیکن خود اُن کے اپنے لیے اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے میری ذات اورمیری سوچ کا مجھ پر اعتماد بحال رکھتی ہے۔ اور! چمک کے لیے بس تھوڑی سی چنگاری ہی کافی ہوتی ہے۔ وقت اور حالات انسان کو خود ہی روشنی کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔
تمہارے حوالے سے زندگی کا ایک ڈراؤنا خواب وہ بھی ہے جسے یاد نہ بھی کرنا چاہوں لیکن وہ بیت چکا ہےاس لیے بھلایا نہیں جا سکتا۔ وہ وقت ۔۔۔جب تم نو ماہ کی عمر میں شدید قسم کے نمونیا کا شکار ہو گئے۔ ٹھیک ہونے کے بعد 6 سال کی عمر تک بخار اکثر بہت تیز ہوجاتا۔ ہمیشہ کی طرح اینٹی بایوٹک ادویہ مسئلے کا حل تھیں۔
(باقی پھر کبھی ۔۔۔بشرط ِزندگی)
ایک کمزور سی معذرت۔۔۔
میں گذشتہ چند برسوں سےبہت زیادہ خیال رکھنے والی ماں کا کردار بھولتی جا رہی ہوں اور پیارومحبت کے "اظہار" میں سرتاپا غرق روایتی ماں توشاید کبھی نہ بن سکی۔ لیکن اس بات پر مجھے افسوس بالکل نہیں۔ پہلی بات تو یہ اب تم سب بڑے ہوچکے ہو اور دوسری بات یہ کہ ماؤں کی بھی ایک شخصیت اور اپنی زندگی ہوتی ہے۔ اس شخصیت میں ہر رشتےاور ہر احساس کی اپنی جگہ اور اپنا مقام ہوتا ہے۔لیکن شاید ہم میں سے بہت کم اس رمز کو جان پاتے ہیں،اورجو پہچان بھی جائیں وہ اپنے اندر سے اُٹھنے والی آواز سے خوفزدہ ہو کر خودفراموشی کی دھند میں پناہ لے لیتے ہیں لیکن میری اس "بغاوت" کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میرے بچے میرے سامنے ہی خودمختار ہو گئے۔یہی میری کامیابی ہے۔کوئی شک نہیں کہ تم تینوں اور تمہارے بابا کو مجھ سے بہت سی شکایتیں ہیں ۔ میرے مروجہ دستور سے ہٹ کر اس طرزِعمل میں بھی تمہارے لیے ایک مثبت سبق ہے۔۔۔ انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں وہ اگر چاہے تواپنے سارے فرائض ادا کر کے بھی اپنی ذات کے لیے کچھ وقت نکال سکتا ہے۔ اور اور۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے کہا نا کہ "ڈھیٹ" ہونا بھی ایک خوبی ہے تو اس خوبی کا مجھے بہت دیر سے پتہ چلا۔
آج کی بات ۔۔۔۔
صبح نمازفجر کے بعد جب قران پاک کھولا تو دل میں خیال آیا کہ اس میں سے کیا تحفہ دوں۔ یقین کرو اپنا معمول کا 24واں
سپارہ پڑھتے وقت اس لمحےسورہ المومن کی یہ آیات میر ے سامنے تھیں۔ اور نہ صرف تمہارے لیے۔۔۔ بلکہ میرے لیے بھی ۔۔۔ یہ لفظ لکھنے اور کسی انسان کے پڑھنے سمجھنے سے بھی پہلےقبول کیے جانےکی مزدوری سمجھو۔۔۔۔۔
المومن(40)۔۔۔۔ پارہ(24)۔
آیات۔ 61 تا 70۔۔۔۔
ترجمہ۔۔۔
۔61۔۔۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا۔بےشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے.۔
۔۔ 62۔۔۔۔یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو۔
۔63۔۔۔اس طرح وہ لوگ بھٹک رہے تھے جو اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے۔
۔۔64۔۔۔۔اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور صورتیں بھی خوب بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں ،یہی تمہارا پروردگار ہے پس خدائے پروردگاِرعالم بہت بابرکت ہے۔
۔۔۔۔۔655۔۔۔وہ زندہ ہے جسے موت نہیں اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو اُس کی عبادت کو خالص کر کر اُسی کو پکارو۔ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
۔66۔۔ ۔(اے محمد) ان سے کہہ دو کہ مجھے اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اُن کی پرستش کروں (میں اُن کی کیونکر پرستش کروں) جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی دلیلیں آچکی ہیں اور مجھ کویہ حکم ہوا ہے کہ پروردگارِ عالم کا ہی تابع فرمان رہوں۔
۔۔67۔۔۔۔ وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ بنا کر پھر لوتھڑا بنا کر پھر تم کو باہر نکالتا ہے کہ تم بچے(ہوتےہو) پھر تم اپنی جوانی کو پہنچتے ہو پھر بوڑھے ہو جاتے ہو اور کوئی تو تم میں سے پہلے ہی مر جاتا ہے اور تم (موت) کے وقتِ مقرر تک پہنچ جاتے ہو اور تاکہ تم سمجھو۔
۔۔688۔۔۔ وہی تو ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے پھر جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اُس سے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔
۔۔699۔۔کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔یہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔
۔۔70۔۔ جن لوگوں نے کتاب (اللہ) کو اور جو کچھ ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا اُس کو جھٹلایا ،وہ عنقریب معلوم کر لیں گے۔
ایک دعا ۔۔۔۔
عمر کے اس سنگ میل پر پہنچتے ہوئے درازیءعمر کی دعا نہیں۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ نےجتنی بھی عمر تمہارے مقدر میں لکھی ہے وہ دلی سکون اور ایمان کی سلامتی سے ہر مشکل وقت کو عزم وحوصلے کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے گزرے۔ اللہ تمہیں کسی انسان کا جسمانی، جذباتی،اور مالی طور پر محتاج نہ بنائے۔ ہمیشہ دینے والا ہاتھ عطا کرے اور عاجزی کی دولت سے مالامال کرے۔ ذہنی اور جسمانی صحت والی "زندگی" نصیب کرے۔ آمین
ایک ماں کی دعا جو چند روز پہلے ایک بلاگ پر پڑھی ۔آج تمہارے نام۔۔۔
اے میرے پروردگار، تو گواہ ہوجا،میرے بیٹے نے آج میری عزت کی لاج رکھی ہے،میری آنکھیں ٹھنڈی ہیں اس کی وجہ سے،میں آج اسکو صرف دعا ہی دے سکتی ہوں....آج کے بعد اسکی عزت کا تو ہی محافظ ہے، میں زندہ رہوں یا نہ رہوں، تو نے اس کا خیال رکھنا ہے،اپنی مخلوق کے سامنے اسکو کبھی رسوا نہ کرنا بس میری اس دعا کو تو آج شرف قبولیت بخش دے۔آمین
ایک دعا محترم اشفاق احمد کی طرف سے۔۔۔۔
اللہ تمہیں زندگی میں آسانی عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں اللہ کی بارگاہ میں نہایت عاجزی سےعرض کرتی ہوں کہ اس نےاولاد کی صورت میں جوذمہ داری میرےسپرد کی،اسے میں نے ممکن حد تک دیانت داری سےنبھانے کی کوشش کی۔اللہ اس میں میری کمیوں،کوتاہیوں کو معاف کرے۔اور اپنے خاص فضل سے اس نعمت کوبہترین تحفے میں بدل دے۔ان کے دلوں کو نورِایمان سےمنور کرےاور ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔آمین یارب العالمین۔
میرا یہ احساس پڑھنےوالوں کو اللہ پاک اپنے گھروں کا سکون عطا فرمائے اور دین ودنیا کی نعمتوں سےسرفراز کرےآمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭اس سے منسلک بلاگ ۔۔۔فروری 11۔۔2015۔۔۔ماں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ میرے تینوں بچے بہت اعلیٰ تعلیم وتربیت اور آداب واخلاق کے شاہکار تو نہیں لیکن ان کے اندر کہیں نہ کہیں ذرا سی انسانیت کی رمق باقی ہے۔ روشنی کی یہ کرن بےشک مجھے فیض نہ پہنچائے لیکن خود اُن کے اپنے لیے اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے میری ذات اورمیری سوچ کا مجھ پر اعتماد بحال رکھتی ہے۔ اور! چمک کے لیے بس تھوڑی سی چنگاری ہی کافی ہوتی ہے۔ وقت اور حالات انسان کو خود ہی روشنی کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔
تمہارے حوالے سے زندگی کا ایک ڈراؤنا خواب وہ بھی ہے جسے یاد نہ بھی کرنا چاہوں لیکن وہ بیت چکا ہےاس لیے بھلایا نہیں جا سکتا۔ وہ وقت ۔۔۔جب تم نو ماہ کی عمر میں شدید قسم کے نمونیا کا شکار ہو گئے۔ ٹھیک ہونے کے بعد 6 سال کی عمر تک بخار اکثر بہت تیز ہوجاتا۔ ہمیشہ کی طرح اینٹی بایوٹک ادویہ مسئلے کا حل تھیں۔
(باقی پھر کبھی ۔۔۔بشرط ِزندگی)
ایک کمزور سی معذرت۔۔۔
میں گذشتہ چند برسوں سےبہت زیادہ خیال رکھنے والی ماں کا کردار بھولتی جا رہی ہوں اور پیارومحبت کے "اظہار" میں سرتاپا غرق روایتی ماں توشاید کبھی نہ بن سکی۔ لیکن اس بات پر مجھے افسوس بالکل نہیں۔ پہلی بات تو یہ اب تم سب بڑے ہوچکے ہو اور دوسری بات یہ کہ ماؤں کی بھی ایک شخصیت اور اپنی زندگی ہوتی ہے۔ اس شخصیت میں ہر رشتےاور ہر احساس کی اپنی جگہ اور اپنا مقام ہوتا ہے۔لیکن شاید ہم میں سے بہت کم اس رمز کو جان پاتے ہیں،اورجو پہچان بھی جائیں وہ اپنے اندر سے اُٹھنے والی آواز سے خوفزدہ ہو کر خودفراموشی کی دھند میں پناہ لے لیتے ہیں لیکن میری اس "بغاوت" کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میرے بچے میرے سامنے ہی خودمختار ہو گئے۔یہی میری کامیابی ہے۔کوئی شک نہیں کہ تم تینوں اور تمہارے بابا کو مجھ سے بہت سی شکایتیں ہیں ۔ میرے مروجہ دستور سے ہٹ کر اس طرزِعمل میں بھی تمہارے لیے ایک مثبت سبق ہے۔۔۔ انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں وہ اگر چاہے تواپنے سارے فرائض ادا کر کے بھی اپنی ذات کے لیے کچھ وقت نکال سکتا ہے۔ اور اور۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے کہا نا کہ "ڈھیٹ" ہونا بھی ایک خوبی ہے تو اس خوبی کا مجھے بہت دیر سے پتہ چلا۔
آج کی بات ۔۔۔۔
صبح نمازفجر کے بعد جب قران پاک کھولا تو دل میں خیال آیا کہ اس میں سے کیا تحفہ دوں۔ یقین کرو اپنا معمول کا 24واں
سپارہ پڑھتے وقت اس لمحےسورہ المومن کی یہ آیات میر ے سامنے تھیں۔ اور نہ صرف تمہارے لیے۔۔۔ بلکہ میرے لیے بھی ۔۔۔ یہ لفظ لکھنے اور کسی انسان کے پڑھنے سمجھنے سے بھی پہلےقبول کیے جانےکی مزدوری سمجھو۔۔۔۔۔
المومن(40)۔۔۔۔ پارہ(24)۔
آیات۔ 61 تا 70۔۔۔۔
ترجمہ۔۔۔
۔61۔۔۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا۔بےشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے.۔
۔۔ 62۔۔۔۔یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو۔
۔63۔۔۔اس طرح وہ لوگ بھٹک رہے تھے جو اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے۔
۔۔64۔۔۔۔اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور صورتیں بھی خوب بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں ،یہی تمہارا پروردگار ہے پس خدائے پروردگاِرعالم بہت بابرکت ہے۔
۔۔۔۔۔655۔۔۔وہ زندہ ہے جسے موت نہیں اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو اُس کی عبادت کو خالص کر کر اُسی کو پکارو۔ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
۔66۔۔ ۔(اے محمد) ان سے کہہ دو کہ مجھے اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اُن کی پرستش کروں (میں اُن کی کیونکر پرستش کروں) جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی دلیلیں آچکی ہیں اور مجھ کویہ حکم ہوا ہے کہ پروردگارِ عالم کا ہی تابع فرمان رہوں۔
۔۔67۔۔۔۔ وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ بنا کر پھر لوتھڑا بنا کر پھر تم کو باہر نکالتا ہے کہ تم بچے(ہوتےہو) پھر تم اپنی جوانی کو پہنچتے ہو پھر بوڑھے ہو جاتے ہو اور کوئی تو تم میں سے پہلے ہی مر جاتا ہے اور تم (موت) کے وقتِ مقرر تک پہنچ جاتے ہو اور تاکہ تم سمجھو۔
۔۔688۔۔۔ وہی تو ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے پھر جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اُس سے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔
۔۔699۔۔کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔یہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔
۔۔70۔۔ جن لوگوں نے کتاب (اللہ) کو اور جو کچھ ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا اُس کو جھٹلایا ،وہ عنقریب معلوم کر لیں گے۔
ایک دعا ۔۔۔۔
عمر کے اس سنگ میل پر پہنچتے ہوئے درازیءعمر کی دعا نہیں۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ نےجتنی بھی عمر تمہارے مقدر میں لکھی ہے وہ دلی سکون اور ایمان کی سلامتی سے ہر مشکل وقت کو عزم وحوصلے کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے گزرے۔ اللہ تمہیں کسی انسان کا جسمانی، جذباتی،اور مالی طور پر محتاج نہ بنائے۔ ہمیشہ دینے والا ہاتھ عطا کرے اور عاجزی کی دولت سے مالامال کرے۔ ذہنی اور جسمانی صحت والی "زندگی" نصیب کرے۔ آمین
ایک ماں کی دعا جو چند روز پہلے ایک بلاگ پر پڑھی ۔آج تمہارے نام۔۔۔
اے میرے پروردگار، تو گواہ ہوجا،میرے بیٹے نے آج میری عزت کی لاج رکھی ہے،میری آنکھیں ٹھنڈی ہیں اس کی وجہ سے،میں آج اسکو صرف دعا ہی دے سکتی ہوں....آج کے بعد اسکی عزت کا تو ہی محافظ ہے، میں زندہ رہوں یا نہ رہوں، تو نے اس کا خیال رکھنا ہے،اپنی مخلوق کے سامنے اسکو کبھی رسوا نہ کرنا بس میری اس دعا کو تو آج شرف قبولیت بخش دے۔آمین
ایک دعا محترم اشفاق احمد کی طرف سے۔۔۔۔
اللہ تمہیں زندگی میں آسانی عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں اللہ کی بارگاہ میں نہایت عاجزی سےعرض کرتی ہوں کہ اس نےاولاد کی صورت میں جوذمہ داری میرےسپرد کی،اسے میں نے ممکن حد تک دیانت داری سےنبھانے کی کوشش کی۔اللہ اس میں میری کمیوں،کوتاہیوں کو معاف کرے۔اور اپنے خاص فضل سے اس نعمت کوبہترین تحفے میں بدل دے۔ان کے دلوں کو نورِایمان سےمنور کرےاور ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔آمین یارب العالمین۔
میرا یہ احساس پڑھنےوالوں کو اللہ پاک اپنے گھروں کا سکون عطا فرمائے اور دین ودنیا کی نعمتوں سےسرفراز کرےآمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭اس سے منسلک بلاگ ۔۔۔فروری 11۔۔2015۔۔۔ماں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔
٭میری کچھ پسندیدہ تصاویر
فروری 1990
1991 ۔۔15فروریفروری 1990
زیارت۔۔۔ بلوچستان
1992 جولائیمیری سب سے پیاری تصویر۔۔۔۔
دریائے کنہار۔۔۔۔بالا کوٹ
1996
چھتر پلین۔۔شنکیاری1999
۔
2006۔۔۔۔1996۔۔۔۔
... کامسٹس2012
مری۔۔2014
محبت کی خوشبو۔۔۔
May Allah bless you always a glorious life full of Love , peace of mind, happiness forever, balance in every relation ,success in all aspects of life.
I love you.
We are so proud of the man you have become and the road you travel
~ When it comes to Sons
2014 پنج پیر راکس
فروری 11، 2014
Happy birth day my dear
Many many happy returns of the day
From the core of my Heart
..... Wishing U the height of physical and mental strength to survive in the hurdles of life........
.... Praying for Peace and Stability of mind that leads to the path of Eternal success......
.... Demanding U to become more confident and polish your self- esteem.
.... Complaining U to be more Efficient, more Productive , more vigilant not only for yourself but for others too, that is the need of the hour.
B blessed always
NOOR...Mummy.
Feb 11, 2014
گیارہ فروری 2015،
TODAY
A Silver Lining of my Cloudy Life
گیارہ فروری 2015
پانچ بجے شام
میں آپ کی یہ تحریر پڑھ رہا تھا اور میری آنکھوں کے سامنے دھند سی چھاگئی کیونکہ میری سالگرہ کا بھی یہی سال ہے لیکن میری کوئی ایسی یادیں نہیں ہیں جس کو میں یاد کرسکوں بچپن میں کھیل کود سے میرا تعلق بہت کم تھا۔ کتابوں میں بھی کوئی خاص دل نہیں لگتا تھا لیکن جب میری عمر جب اس اسٹیج پر پہونچی جہاں انسان کو اپنے اچھے اور برے کا فرق معلوم ہونا شرع ہوتا ہے تو دل میں ایک خواہش رہی بلکہ میری زندگی کا ایک مقصد تھا کا میں ایک عالم بنوں گا لیکن کچھ مجبوریوں کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ خیر
جواب دیںحذف کریںمیں آج بھی کبھی یہی سوچتا ہوں کہ میرے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے لیکن آپ کی تحریر پڑھ کر ایسا لگتا ہے کیا یہ بات واقعی صحیح مائیں اپنے بیٹوں کی حرکتوں اس طریقے سے بھی یاد رکھتی ہیں۔ میں اللہ سے یہی دعا کروں گا کہ اللہ آپ کی دعاؤں کو قبول فرمائے اور میری والدیں کا سایہ تادیر میرے اوپر قائم و دائم رکھے ۔ آمین ثم آمین
زاہد بھائی، انسانی ارادے سے پختہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اگر آپ ابھی بھی ارادہ کریں تو سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ میری امی 6 سال کی تھیں جب نانا کا قتل ہو گیا۔ ایک روایتی جاگیردار گھرانے سے تعلق کے سبب، سب کچھ ہی دنوں میں عیاشیوں، لڑائیوں اور عدالتوں کی نظر ہو گیا۔ 13 سال کی عمر میں امی شادی ہو گئی۔ امی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ، ان سے پڑھا اور گریجویشن کی۔
حذف کریںمیں فرسٹ ائر میں ہی تھا جب والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ گریجویشن کے بعد حالات کچھ ایسے تھے کہ پڑھائی جاری رکھنا ممکن نہ تھا، اس لیے نوکری کر لی۔ کچھ سالوں کے بعد جو پڑھا تھا وہ پرانا ہو گیا۔ کمپیوٹر سائنس فیلڈ ہی ایسی ہے۔ یونیورسٹی میں داخلے کے پیسے نہیں تھے، لائبریری کی ممبر شپ لی۔ وہاں سے کتابیں اٹھاتا اور یو ٹیوب سے لیکچر لے کر ان کو سمجھتا۔ سال کا عرصہ لگتا ان چیزوں کو یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے، مجھے ڈیڑھ سال لگ گیا۔ اس پڑھائی کی بدولت مسلسل تین سال تک میں آفس میں ایمپلائی آف دا ائر رہا۔
ارادہ پختہ کریں، انشاءاللہ سب ہو جائے گا۔ زندگی، سب کو، سب کچھ نہیں دیتی میرے بھائی۔ ہر ہنستے چہرے کے پیچھے ایک دیوار گریہ ہوتی ہے۔ رہی ماں، باپ کے پیار کی بات، تو ان کا پیار سمجھنے والی نہیں محسوس کرنے والی چیز ہے۔ ماں کی جھڑکی سے لے کر باپ کے طعنے تک سب پیار ہی پیار ہے۔ اللہ آپ پر اپنی نعمتوں کو سلامت رکھے کو اس نے ماں، باپ کی شکل میں آپ کو دی ہے۔ آمین۔
اولاد کس نعمت کا نام ہے یہ اولاد ملنے کے بعد ہی انسان جان سکتا ہے اس سے پہلے نہیں۔ شادی سے پہلے جب کسی بچے کا پیدائش سے پہلے خالق حقیقی سے ملنے کا پتہ چلتا تھا اور ماں، باپ کو روتا دیکھتا تھا تو سوچتا تھا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں اس روح کے لیے جس نے ان کے ساتھ وقت ہی نہیں گزارا۔ لیکن جب نو مہینے باپ بننے کے عمل سے گزرا تو اس درد کا احساس ہوا، اس کرب کا پتہ چلا۔ باپ بننے کے بعد دو چیزیں بہت شدت سے پتہ چلیں۔ ایک ذمہ داری کا احساس اور دوسرا اس بات کا کہ ہمارے والدین نے ہمارے لیے کیا، کیا کیا ہو گا؟ ان کی قربانیاں سمجھ میں آئیں۔
جواب دیںحذف کریںدوسسرا بچہ ہوا تو دو فکریں دامن گیر تھیں۔ اول، بڑے والے کو احساس نہ ہو کہ اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے اور دوئم یہ کہ نئے آنے والے بچے کو اپنی اہمیت پتہ ہو۔ بہت مشکل امر تھا اور اس میں کتنا کامیاب ہوا ہوں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہاں، دوسرا بچہ خود پیار لینے کے لیے آگے آتا ہے اور ہر ایک سے ایسے ہی بی ہیو کرتا ہے جبکہ بڑا والا پیار کو اپنا حق سمجھتا ہے اور حق کی طرحوصول کرتا ہے۔ وہ حکم بھی ایسے ہی چلاتا ہے جیسے باپ ہو بڑا بھائی نہیں۔
لیکن بچوں کے ساتھ گزرے پل انسان کو مسرور کر دیتے ہیں۔ وہ وقت بھی آتا ہے جب انسان کے پاس یہی پل ہوتے ہیں بچے دور اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔ یہی دنیا کا دستور ہے اور یہی روایت۔
ہر بچے کی اپنی عادت ہوتی ہے۔ بچوں کو صرف یہ احساس دلانا ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے اہم ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں۔ اور مائیں ناکام نہیں ہوتی۔ وہ اپنی بساط سے زیادہ ہی قربانی دیتی ہیں اپنی اولاد، اپنے میاں اور اپنے رشتوں کے لیے۔
اللہ آپ کی اولاد کو سکون اور شانتی والی زندگی عطا کرے۔ آمین۔
میں بہت چھوٹا تھا جب میری ماں اس دنیا سے منہ موڑ گئیں ان کی محبتوں کی کمی کا شدـت سے احساس ہوتا ہے ، آپ کی تحریر پڑھتے ہوئے میری آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالٰی اس نوجوان بلکہ ان سب بہن بھائیوں کو آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
"Only Mothers have the Gift..
جواب دیںحذف کریںTo Fill the Empty hands,
With Manna of love.."
......kiya shandaar tohfa-e-tehseen hai, kiya khoobsoorat lafz hein, kiya umda mubaarikbaad hai, kiya bai-misl duayein hein......aur kiya ki acha beta hai.......
Maan to Maan hi hai, Shayd isi liye Allah ne bhi apni Mohabbat ki tashbeeh / Ista'aaray kay tor pe Maan ko hi ma'yaar banaaya.....
Allah iss bachay kay liye duniya-o-aakhirat aasaan banaye........
http://slide.ly/gallery/view/7b1eed2090266991e0f82bb728f1bf06
جواب دیںحذف کریں