"دُلہن ایک رات کی"
زندگی ۔۔۔۔اے دُنیا کی زندگی۔۔۔ تو ایک رات کی دُلہن ہی تو ہے۔۔۔ہوش اُڑا دینے والے فریب کی خوشبو سے مہکتی۔۔۔دسترس میں یوں کہ جیسے اب کوئی درمیاں دوسرانہیں۔۔۔ہر پل نئے رنگ اور نئی چھب سے اپنی ذات کے بھید کھولتی۔۔۔زندگی تو وہ مئے اسرار ہے جس کا نشہ بن پئیے ہی سرچڑھ کر بولتا ہے۔۔۔کیا زاہدِ خشک کیا بادہ خوار سب ترے در کے بھکاری۔۔۔تِری اِک نگاہِ کرم کی آس میں۔۔۔قربت کے خمار میں مسحور ومخمور۔ اتراتی ہے یوں کہ جہاں میں کوئی تجھ سا نہیں۔۔۔ہاتھ تھامتی ہے کہ کبھی ساتھ نہ چھوڑے گی۔۔۔ساتھ ہےتو اتنا قریب کہ سانس میں سانس مل جائے۔اور جب آس کا فاصلہ رہ جائےتو اتنی چالبازی سے دور پھینکتی ہے کہ ٹھوکر کھانے والا اسے اپنی ہی کمزوری سمجھتا ہے۔ ایسی بےوفا محبوبہ جو خود بلاتی ہے۔۔۔ دور جانے نہیں دیتی اور پاس آتی بھی نہیں۔ رنگوں کی پچکاریاں بکھیر کر شرابور کردیتی ہے اور خود دور کھڑی تماشا دیکھتی ہے۔ ایسی خوش گلو کہ اپنی آواز کے مدہم سروں سے کل عالم کو بےخود کردے اور انسان۔۔۔ اپنا شرف جو اس کافر ادا کی جان نکالنے پر قادر ہے فراموش کر بیٹھے اور رینگنے والا بےضرر حیوان بن کر رہ جائے۔
یہی تو اس کا کمال ہے کہ لُٹنے والا سب لٹا کر بھی شانت۔۔۔ اور جب دو چار ہاتھ لب بام رہ جائے یقین کی منزل سب آشکار کر دیتی ہے۔ زندگی تو فریب نظر سہی لیکن تو حقیقت بھی تو ہے ایسی حقیقت کہ جس پر کھلی آنکھ سے چھو کر بھی یقین نہیں آتا۔جیسے ہی آنکھ بند ہونے لگے آنکھ کے نور کو چھو کر اس کے اندر اتر جاتی ہے۔ آنکھ کا یقین ۔۔۔عین الیقین علم الیقین کے پائیدان پر کھڑا انتظار کرتا رہا اور حق الیقین سب ارمان حسرت بھری آنکھ میں سمیٹ کر رُخصت ہوا۔ سب فتح کرنے کا جنون انسان کو یہ بھلا دیتا ہے کہ یہ سنہری خواب گاہ دراصل جادو نگری ہے۔۔۔ فریب نگاہ ہے۔ وہ نگاہ جس کے بارے میں کہا گیا۔۔۔۔۔۔سورۂ ق (50) آیت 22،ترجمہ ۔۔۔
بےشک تو اس سے غفلت میں تھا اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔
زندگی ۔۔۔۔اے دُنیا کی زندگی۔۔۔ تو ایک رات کی دُلہن ہی تو ہے۔۔۔ہوش اُڑا دینے والے فریب کی خوشبو سے مہکتی۔۔۔دسترس میں یوں کہ جیسے اب کوئی درمیاں دوسرانہیں۔۔۔ہر پل نئے رنگ اور نئی چھب سے اپنی ذات کے بھید کھولتی۔۔۔زندگی تو وہ مئے اسرار ہے جس کا نشہ بن پئیے ہی سرچڑھ کر بولتا ہے۔۔۔کیا زاہدِ خشک کیا بادہ خوار سب ترے در کے بھکاری۔۔۔تِری اِک نگاہِ کرم کی آس میں۔۔۔قربت کے خمار میں مسحور ومخمور۔ اتراتی ہے یوں کہ جہاں میں کوئی تجھ سا نہیں۔۔۔ہاتھ تھامتی ہے کہ کبھی ساتھ نہ چھوڑے گی۔۔۔ساتھ ہےتو اتنا قریب کہ سانس میں سانس مل جائے۔اور جب آس کا فاصلہ رہ جائےتو اتنی چالبازی سے دور پھینکتی ہے کہ ٹھوکر کھانے والا اسے اپنی ہی کمزوری سمجھتا ہے۔ ایسی بےوفا محبوبہ جو خود بلاتی ہے۔۔۔ دور جانے نہیں دیتی اور پاس آتی بھی نہیں۔ رنگوں کی پچکاریاں بکھیر کر شرابور کردیتی ہے اور خود دور کھڑی تماشا دیکھتی ہے۔ ایسی خوش گلو کہ اپنی آواز کے مدہم سروں سے کل عالم کو بےخود کردے اور انسان۔۔۔ اپنا شرف جو اس کافر ادا کی جان نکالنے پر قادر ہے فراموش کر بیٹھے اور رینگنے والا بےضرر حیوان بن کر رہ جائے۔
یہی تو اس کا کمال ہے کہ لُٹنے والا سب لٹا کر بھی شانت۔۔۔ اور جب دو چار ہاتھ لب بام رہ جائے یقین کی منزل سب آشکار کر دیتی ہے۔ زندگی تو فریب نظر سہی لیکن تو حقیقت بھی تو ہے ایسی حقیقت کہ جس پر کھلی آنکھ سے چھو کر بھی یقین نہیں آتا۔جیسے ہی آنکھ بند ہونے لگے آنکھ کے نور کو چھو کر اس کے اندر اتر جاتی ہے۔ آنکھ کا یقین ۔۔۔عین الیقین علم الیقین کے پائیدان پر کھڑا انتظار کرتا رہا اور حق الیقین سب ارمان حسرت بھری آنکھ میں سمیٹ کر رُخصت ہوا۔ سب فتح کرنے کا جنون انسان کو یہ بھلا دیتا ہے کہ یہ سنہری خواب گاہ دراصل جادو نگری ہے۔۔۔ فریب نگاہ ہے۔ وہ نگاہ جس کے بارے میں کہا گیا۔۔۔۔۔۔سورۂ ق (50) آیت 22،ترجمہ ۔۔۔
بےشک تو اس سے غفلت میں تھا اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔
https://daleel.pk/2016/12/31/22972
جواب دیںحذف کریں