جمعہ, جنوری 23, 2015

ایمانِ زندگی"

ڈاکٹرصاحب
تاریخ پیدائش.....15 دسمبر 1938
بمقام.... ضلع سہارن پور... ہندوستان
تاریخِ وفات...... 4 جنوری 2015۔۔۔بمطابق 12 ربیع الاول۔1436 ہجری
بمقام.... اسلام آباد.... پاکستان
جائے مدفن....۔ایچ الیون قبرستان۔۔۔اسلام آباد
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ِترتیب
موت کیا ہے اِنہی اجزاء کا پریشاں ہونا
اُمید زندگی جو 28 دسمبر2014 اور 4 جنوری کے درمیانی عرصے تک آنکھ مچولی کھیلتی رہی بالاآخر 4 جنوری 2015 کی شام"ایمانِ زندگی" میں بدل گئی۔ 
ایمان۔۔۔۔ اس زندگی پر ایمان۔۔۔ جس کی حقیقت صرف رب جانتا ہے۔انسان کے عزم اور حوصلے پر ایمان۔۔۔ جس کی نیت رب جانتا ہے اور وہی اس کا اجر دیتا ہے۔ انسان کے تضاد پر ایمان۔۔۔ کہ اس میں فطرت کے سارے رنگ یوں باہم ملے جُلےہیں کہ کسی ایک رنگ کی جھلک سے کبھی بھی اس کا مجموعی تاثر جانا نہیں جا سکتا۔ انسان کے ظاہروباطن کے بھرپور اور مکمل ہونے پر ایمان۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے رب پر ایمان کہ وہ دلوں کا حال جانتا ہے اور ہر شے پر قادر ہے۔
لفظ سوچ کا رزق ہوتے ہیں۔ ہمیں نہ صرف اپنے کہے کا ادراک ہونا چاہیے بلکہ اسے سمجھنا بھی چاہیے۔ "اُمید زندگی " بلاگ کی تحریک جس احساس سے ملی اور جس عنوان سے آغاز کرنا چاہا ،بلاگ پوسٹ کرتے وقت وہ عنوان اور الفاظ حذف کر دئیے کہ شاید پڑھنے والے کا احساس میرے احساس کو تسلیم نہ کرے لیکن آج اس لمحے اپنے احساس کی سچائی اور لفظ پر یقین نے حوصلہ دیا کہ وہ حذف شدہ لفظ بھی سامنے لے آؤں۔
" وعلیکم السلام"
آج کی رات اس نامہربان لمس کی رات نہیں تھی۔ لیکن آج کی رات تو میری رات بھی نہ تھی ۔کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جو مجھے بےچین کرتا تھا اور میں بلاوجہ خاموشی اور بےاعتنائی کی چادر اوڑھ کر اپنے ہمسفر کے سامنے سوتی بنتی تھی۔ اپنے آغاز سے وہ رات ایک معمول کی رات تھی لیکن محض گھنٹے دو گھنٹے کے بعد آنکھ بند ہونے سے پہلے اس طور کھل گئی کہ میں مشینوں کی قید میں جکڑے جسم کے سینے پر سر رکھے وہ سرگوشیاں سن رہی تھی جو لاشعور سے نکل کر شعور کی بےخودی میں بند آنکھوں اور لرزتے لبوں سے ادا ہو رہی تھیں۔ وہ جسم جو میری اولین شناخت تھا آج اپنے جسم کے سب سے اہم اور شاید آخری لمس سے آشنائی کے مرحلے میں تھا اور میں اس لمحے اس کی ہمسفر ہونے کی کوشش کرتی تھی۔ " کانٹے دار جھاڑی پر سے کپڑے کے لباس کی طرح لیر لیر ہوتے" اس عمل کا یہ مرحلہ میری روح کو عجیب سکون دے رہا تھا۔ دل ہی دل میں اپنے لیے بھی ایسے نقارۂ کوچ کی خواہش کرتی تھی۔ سینے میں  اٹھنے والے شدیددرد کے بعد دوا کے زیرِاثر اب ان کےہلتے لب مسلسل کلمۂ طیبہ ،درودشریف اور استغفار پڑھتے تھے تو کبھی ہونٹوں کی ایک تسلسل سے جُنبش سے سورۂ یٰسین کی تلاوت محسوس ہوتی۔ انسانی آنکھ اور اس کےسوچنے سمجھنے کی محدود عقل کی صلاحیت کے تحت میرے خیال میں پردہ گرنے کو ہی تھا۔ ۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت ہوتے ہوئے بھی مکمل حقیقت نہیں۔ کچھ دیر بعد ابو کی آنکھ کھلی تو کسی اور دُنیا کا منظر ان کے سامنے تھا۔ وہ ہمیں دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھتے تھے اور ہمیں سنتے ہوئے بھی کسی اور کو بڑی محویت سے سن رہے تھے۔ چہرے کے تاثرات سے کبھی مسکراتے کبھی تاسف کا اظہار کرتے اور سیدھا ہاتھ بار بار وعلیکم السلام کہتے ہوئے ملانا چاہتے پھر مایوس ہو کر ہاتھ نیچے کر لیتے یا ہم ان کے بڑھے ہاتھ کو تھام لیتے۔ کچھ دیر بعد وہ ہماری دنیا میں لوٹ آئے۔ متلی کی کیفیت کے بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو پہلے الفاظ یہ ادا کیے کہ وہ مجھے لینے آئے تھےمیں ہاتھ بڑھا رہا تھا لیکن انہوں نے ہاتھ نہیں ملایا کہ ابھی تمہارا وقت باقی ہے۔ اور میری اماں اور ابا بھی ساتھ ہی تھے۔جو مجھ سے ملنے کو بےچین تھےاماں باہیں کھول کر میرا بچہ کہہ کر بلاتی تھیں۔یہ کہتے ہوئے میرے ابو چھوٹے بچوں کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے ایک لمحے کو رونے لگے۔ پھر ہمیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔میں ابھی نہیں مروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شفا انٹرنیشنل سے آنے کے بعد اگلے روز کی صبح وہی معمول کی صبح تھی۔ چوبیس گھنٹے پہلے کی حقیقت ایک بھیانک خواب کے سوا کچھ معلوم نہ ہوتی تھی۔ ابو کےاگلے چند روز بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے گزرے۔ اور پورے 6 روز بعد عین اسی ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات دوبارہ سانس کی ناہمواری شروع ہوئی تو اب درد بالکل بھی نہیں تھا بس ماتھے پر پسینہ آ رہا تھا بہت زیادہ اور اب اُن کے کہے کے مطابق "شفا "کی بجائے "پمز" لے کر گئے اور راستے میں انہیں یقین دلاتے رہے کہ دیکھیں ہم پمز ہی جا رہے ہیں ۔ سوچتی ہوں کہ انسان پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب زمین پر پہلا قدم رکھنا سکھانے والا۔۔۔ راستہ دکھانے والا اتنا بےبس ہو جاتا ہے کہ اپنے سارے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیتا ہے۔ لیکن اس بےاختیاری میں مایوسی شرط نہیں۔ جو اس سفر کے لیے تیار رہتے ہیں وہ اس سفر کی جزئیات کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے اُن کے سامنے ان کی یہ باتیں " دیوانے کی بڑ" یا "خود پرستی" کے زمرے میں گنی جائیں۔ دنیا سے جانے کے بعد کی جزاوسزا ہمارا اور رب کا معاملہ ہے۔۔۔ یہ "ون ٹوون ریلیشن شپ" ہے۔ جبکہ دُنیاوی معاملات کا تعلق ہماری ہوش وحواس کی صحت مند زندگی تک ہی محدود ہے۔ دُنیا کے بکھیڑے جو ہم سے متعلق ہوں انہیں جتنا ہو سکے شعور کی آخری سانس تک سلجھانے کی سعی کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ کیا جائے تو ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کوئی انسان جاتے جاتے بھی اپنے لواحقین کے لیے زندگی دشوار بنا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مرنے کے بعد کی رسومات۔۔۔جن سے جانے والے کو رتی برابر بھی فیض نہیں پہنچتا۔ خیر ابو نے ممکن حد تک ہم لوگوں کو ان مشکلات سے بچانے کی کوشش کی۔انہوں نے  اپنی بیٹیوں کو نہ صرف کسی سہارے کی توقع کے بغیر زندگی جینا سکھایا بلکہ موت کی اٹل حقیقت کو سمجھنے اور اپنے ہوش وحواس قائم رکھنے کی آخری وقت تک تلقین کرتے رہے۔ 4 جنوری کی شام مغرب سے ذرا پہلےان کی اکھڑتی سانسیں دھیرے دھیرے خاموش ہو گئیں۔


موت برحق ہے۔اس 'حق 'کوجانے والا جانے سے پہلے جتنا جلد تسلیم کر لےاُس کے لیے واپسی کے سفر میں آسانی ہو جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے مرنا موت ہے۔ لیکن مرنے سے پہلے مرنے کے لیے تیار رہنا ہی اصل زندگی ہے ۔جب تک ہم مرنے سے پہلے مریں گے نہیں تو اس زندگی کی چکاچوند آخری سانس تک حسرت بن کر ہماری آنکھ کے پردے پر جھلملاتی رہے گی۔ دُنیا کی زندگی کی محبت میں سرتاپا غرق رہنے والے آخری لمحات میں بھی اس خانہ خراب کی اُلفت سے
دامن بچا کر گزر ہی نہیں سکتے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو  دُنیا کی زندگی کی خوشیوں کو بھرپور طور پر محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مسئلوں اور غموں کو سمجھتے ہوئے ممکن حد تک سنوارنے کی کوشش کریں اور پھر سب کچھ منجانب اللہ کا ایمان رکھتے ہوئے "راضی بارضا" ہو جائیں۔عمر کے بڑھتے سالوں میں موت کے سناٹوں کی چاپ سنائی دینے لگے تو اپنی زندگی کے اس سب سے اہم سفر ۔۔۔آخری لمس کے لیے نہ صرف زادراہ تیار رکھیں بلکہ اپنے آپ کو اسے برداشت کرنے کا حوصلہ دیتے رہیں ۔۔۔ پیغمبر سے لے کر اولیاءاللہ تک سب نے اس سفر پر اسی راستے سے گزرنا ہے ۔ سب سے اہم بات کہ انسان کو یہ پہچان ہو جانی چاہیے کہ دُنیا کے ہر رشتے ہر تعلق اور ہر مادی شے کی چاہ صرف اس کی سانس کی ڈور سے بندھی ہے اُس کے بعد وہ فنا تو سب فنا۔ اس لیے اگر نفرتوں سے جان چُھٹنا دُنیا کے عذابوں سے نجات پا جانا نعمت ہے تو سب لذتوں سے محرومی بھی محض سراب جدائی ہی ہے۔
دوست کی بات۔۔۔۔
ابو کی تدفین سے اگلے روز "المعرفت" کے روح رواں بہت محترم پروفیسر ڈاکٹر صوفی عبدالطیف صاحب ہمارے گھر تشریف لائے۔ آپ کو وفات کی بروقت اطلاع مل چکی تھی لیکن اسی روز آنکھ کے آپریشن کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت نہ فرما سکے۔آپ ابو کے دیرینہ ساتھی اور ابو کے لیےایک محترم مرشد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم جانتے تو تھے لیکن دونوں جانب اس احساس کی شدت سے بےخبر تھے۔ ان کے مطابق کافی عرصے سےتفصیلی ملاقات یا ابو نے ان کےدرس میں شرکت بھی نہ کی تھی۔ لیکن ان کے جذبات اتنے بےساختہ اور قربت کا احساس ایسا گہرا تھا کہ جیسے ابھی کوئی پیارا اچانک پاس سے ہمیشہ کے لیے اٹھ کر چلا گیا ہو۔ آپ نےہمارے اس گھر میں صبح عید اور گھر میں بہنوں کی تقریب نکاح کے حوالے سے اپنی یادیں شئیر کیں ۔۔۔جب جناب سےخصوصی دعا کی درخواست کی جاتی تھی۔ آپ کہہ رہے تھے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں نماز عید کے بعد ایک لمبا دسترخوان سجا ہوتا تھا ۔ مسجد میں سب احباب کو دعوتِ عام کے بعد لوگ جوق درجوق آتے اور پھر طعام کے بعد مجھ سے دعا کی درخواست کی جاتی۔ فرمایا کہ آج میں رسمی طور پر تعزیت یا دعا کے لیے نہیں آیا بلکہ میرے دل میں شدت سے یہ خواہش اُبھری کہ اُس جگہ بیٹھ کر جانے والے کی مغفرت کی دعا کروں جہاں بیٹھ کر میں اس کی زندگی ،روزی رزق اور سب کی بھلائی اور سلامتی کی دعا کیا کرتا تھا۔ اُن کی پُراثر اور پرمغز دعا میں سے چند لفظ ذہن میں ٹھہر سے گئے ۔ فرمایا:: جب انسان دنیا سے جاتا ہے تو وہ انتقال کر جاتا ہے۔انتقال یعنی منتقل ہونا۔ یہ انتقال پانچ چیزوں کا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے لباس بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔پھر مقام بدل دیا جاتا ہے۔۔۔پھر ساتھی بدل جاتے ہیں ۔۔۔اس کی زبان بدل جاتی ہے دنیا میں جو بھی زبان بولتا ہے قبر میں عربی زبان میں ہی سوال جواب ہوتے ہیں ۔آخری بات جو جانتے تو تھے لیکن سمجھ اب آئی ۔۔۔۔۔فرمایا کہ ُاُس کی آنکھ بدل دی جاتی ہے۔ دُنیا کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور دوسری آنکھ کھل جاتی ہے جس سے وہ کسی اور کائنات کسی اور جہان کے منظر دیکھتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جناب پروفیسر عبدالطیف صاحب نے ابو کے انتقال 4 جنوری کے بعد آنے والے پہلے درس قران ہفتہ 10 جنوری ابو کے لیے خصوصی دعا بھی کرائی۔ آن لائن نشر ہونے والی اس دعا میں جانے کہاں کہاں سے آمین کی سدا بلند ہوئی۔۔۔کاش!!! ابو آپ یہ جان سکتے۔۔۔۔ ورنہ چار بیٹیوں اور واحد ذہنی معذور بیٹے کا ساتھ آپ کو ہمیشہ ناقدری اور نصیب کا گلہ دیتا رہا۔ بےثمر بےفیض موسم کا خود ساختہ احساس آپ کی آنکھ میں ٹھہر گیا تھا۔ جس نے نہ صرف زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی لذت چھین لی بلکہ بےاعتباری کی شدید دھند میں فراغت والی روشن صحت مند زندگی کہیں کھو کر رہ گئی۔اللہ آپ کے لیے اگلے جہان میں ابدی خوشیوں اور راحت کا سامان مہیا کرے۔آمین یارب العالمین۔
اہم بات
ہم ساری زندگی اس انسان کی اصل قدروقیمت سے لاعلم رہتے ہیں جو ہمارا ہوتا ہے ہمارے ساتھ سانس لیتا ہے اور ہماری زندگی کے چین کے لیے اپنی زندگی کی دھوپ چھاؤں میں فرق روا نہیں رکھتا، لیکن اس کے جانے کے بعد اس کا وہ چہرہ نظر آتا ہے جس سے ہم زندگی بھر ناآشنا رہے۔یہ وقت انتہائی افسوس اور گہرے تاسف کا ہوتا ہے۔ ایسا چہرہ جو اس کے دوستوں کے سامنے وا تھا اور وہ ہم سے اس بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھتا رہا۔یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ ہمارے اہل خانہ ہمارے دکھ سکھ کے سانجھے دار کبھی ان لوگوں کی قربت تسلیم نہیں کرتے جن سے ہمارا ذہنی رشتہ ہوتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی رشتوں کے مابین یہ دوریاں بسااوقات ایک وسیع خلیج میں بھی بدل جایا کرتی ہیں۔ اللہ پاک ہمیں وقت سے پہلے اپنوں کی پہچان نصیب فرمائے کہ وہ ہمارے ہیں اور ہم اُن سے ہیں ۔۔۔ اُن کی شخصیت کے مثبت اور منفی پہلو سب ہمارے ہیں اور ہم انہیں ان کی خامیوں خوبیوں سمیت دل سے جتنا جلد قبول کر لیں اچھا ہے۔ اس طرح نہ صرف انہیں سکون کی چند گھڑیاں دے سکیں گے بلکہ خود بھی ان کے جانے کے بعد اپنے حصے کا کام کر نے کے احساس سے پرسکون اور صابر رہیں گے۔ اللہ ہم سب کے لیے دُنیا وآخرت میں آسانیاں عطا فرمائے ۔ آمین۔
جنوری 23 ،2015
پانچ بجے شام
اسلام آباد
پاکستان

6 تبصرے:

  1. الله مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. میرے خیال میں جو ہمارے اپنے ہوتے ہیں انکی اچِھائیاں تو ہماری ملکیت ہوتی ہیں اس لئے انکی قدر کئے بغیر ہم سارا وقت تمام تر توانائیوں کے ساتھ انکی برائیاں ڈھونڈنے میں لگا دیتے ہیں۔
    اور بد بختی یہیں سے شروع ہو جاتی ہے اور ہم ایک ایسے انسان کو کھو دیتے ہیں جو ہماری روح تک ہم سے جڑا ہو ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. "ذرا انتظار کرو۔۔۔ تم بھی چپ ہو جاؤ گے‘‘
    مستنصر حسین تارڑ
    09-12-2015
    http://www.urducolumnsonline.com/mustansar-hussain-tarar-columns/217969/zra-intizaar-karo-tum-bhi-chop-ho-jao-gay
    آج شائع ہونے والے اس کالم نے مجھے گنگ کر دیا۔۔۔زندگی صرف حیرت درحیرت ہے اور کچھ بھی نہیں آخری سانس تک ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔نہیں جانتی کہ یہ نامعلوم نثرنگار کون ہے جس نے قربتِ مرگ کی ایسی تصویر کھینچی جس کے لفظ لفظ کی بنت کی میری انکھ گواہ ہے۔۔۔۔۔ 27 اور28 دسمبر 2015 کی رات۔۔۔۔اسلام آباد کے شفا انٹرنیشل کے آئی سی یو میں ۔ہر منظر ویسا ہی تھا جیسا اس نظم میں دکھتا ہے حد تو یہ ہے کہ اوپر گردش کرتی روشنیاں بھی ایسی ہی تھیں۔۔
    مستنصر حسین تارڑ کے آج کے کالم سے اقتباس۔۔۔۔
    09-12-2015
    ایک نامعلوم نثری نظم نگار نے قربت مرگ کو کچھ یوں بیان کیا ہے
    ’’سفید اوور کوٹوں میں کفنائے ہوئے ہسپتال کے اہلکار۔۔۔ سٹریچرپر دھکیلتے ہوئے مجھے آپریشن تھیٹر کی جانب لئے جاتے ہیں۔۔۔ نور جہاں کا ایک گیت گنگناتے۔۔۔
    کی بھروسا دم دا، دم آوے نہ آوے، گنگناتے
    اسی سٹریچر پر وہ مجھے واپس لائیں گے
    کسی بھی حالت میں۔۔۔ زندہ یا مُردہ
    میرے سر پر چھت میں نصب تیز روشنیاں
    میری آنکھوں پر سے گزرتی جاتی ہیں
    میں جانتا ہوں۔۔۔ میں نہیں جانتا
    میری واپسی ہو گی تو کس صورت ہوگی۔۔۔
    چھت میں نصب یہی روشنیاں میری آنکھوں پر سے گزریں گی۔۔۔
    یا سب روشنیاں فیوز ہو چکی ہوں گی۔۔۔
    میں وہاں ہوں گا جہاں کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔۔۔
    میں جانتا ہوں، میں نہیں جانتا
    تب ایک ویرانہ اُن آنکھوں میں ویران ہوتا ہے
    کوئی ویرانہ سا ویرانہ ہے۔۔۔
    کوئی خلاء ہے، کیا ہے۔۔۔
    میری ماں اُس ویرانے کے خلاء میں کھڑی ہے
    وہ نہ خوش ہے نہ ناخوش۔۔۔
    بہت چپ، بہت خاموش کھڑی ہے
    اُس کے دوپٹے میں سے وہی مہک چلی آرہی ہے۔۔۔
    جب وہ مجھے گلے سے لگاتی تھی تو آتی تھی۔۔۔
    میں اُس نیم مدہوشی میں پوچھتا ہوں۔۔۔
    امی، آپ یہاں کیا کر رہی ہیں،
    وہ اُسی خوشی اور ناخوشی میں لپٹی اپنے ترشے ہوئے لب کھولتی ہیں۔۔۔
    ’’میں تمہیں دیکھنے آئی ہوں، بس اتنا کہا۔۔۔
    میں آپریشن تھیٹر سے زندہ لوٹ آؤں گا، مجھے یقین ہوگیا
    امی نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔۔۔
    اگر مائیں لینے آجائیں تو کون انکارکر سکتا ہے،
    پر وہ مجھے دیکھنے آئی تھیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. 27 اور28 دسمبر 2015 کی رات۔۔
      27 اور 28 دسمبر 2014 کی رات

      حذف کریں
  4. Noreen tabbassum .this is the first write up of yours which made me speechless. I not only have shared it on own page 'Urdu Khazeena' but have saved it on my personal page too .Amazing analysis and the experience you went through is the same which I have gone through after the sudden demise of both of my parents one after the other in the last year .
    May Allah SWT grant our parents the highest place in Jannat Ul Firdous Ameen

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ کی شئیرنگ میں نے اسی وقت دیکھ لی تھی اور کسی حد تک حیران بھی ہوئی کہ میرے ذاتی احساس سے کسی انجان بےغرض کو کیا انسیت۔
      خیرآج آپ نے وہ راز بھی فاش کر دیا۔ اللہ آپ کے والدین کے لیے اگلے جہاں میں رحمتیں نازل کرے اور آپ کو انکے لیے بہترین صدقۂ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
      رہی بات آپ کے ذاتی تجربات اور قیمتی احساس کی تو سب سے پہلےمیری طرف سے رب کا شکر کہ میرے لفظ کی سچائی کو قبولیت کی سند انسان کے ذریعے سے عطا کی۔اورآپ کی طرف سے شکر یوں کہ اس نے انسان کو وسیلہ بنایا کہ وہ ہمارے دل کی بات بیان کر سکے۔ایک اور مشکل سبق آپ کو اچھی طرح سمجھ آ گیا ہو گا کہ اپنے دل کی بات کہنے کے لیے کسی کےمتوجہ ہوئے بغیر صرف اس کے دل تک رسائی درکار ہوتی ہے۔ہم تو اسی مایوسی میں چلے جاتے ہیں کہ کوئی ہمیں سنتا ہی نہیں۔ درحقیقت ہمارے قریب رہنے والے ہماری زبان آشناتو ہوتے ہیں دل آشنا نہیں۔ اور دل آشنا ہونے کے لیے نہ تو حال کےزمینی فاصلے رکاوٹ ہیں اور نہ ہی گزر چکے ماضی کے اوراق۔

      حذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...