"سمجھ۔۔۔ناسمجھ"
لوگ ۔۔۔۔۔
کتا سمجھتے ہیں اور بھونکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔۔۔۔
زمین پر تھوک کر گزر جاتے ہیں اور چاٹنے کے لیے پلٹتے بھی ہیں۔۔۔۔
حرام کا تخم کہتے ہیں اور خوشبودار پھل کا آخری رس تک نچوڑنا چاہتے ہیں۔۔۔
آنکھ پر مصلحت کی پٹی باندھ دیتے ہیں اور نابینا کہہ کر مذاق اُڑاتے ہیں۔۔۔
گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالتے ہیں اور ساتھ اپنی خواہشوں کی فہرست بھی تھما دیتے ہیں۔۔۔
زندگی کے باکسنگ رنگ میں ناک آؤٹ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی فتح کے جشن پر تالیاں بھی پیٹی جائیں۔۔۔
بنجر زمین کا الزام لگاتے ہیں اور چھپے ہوئے خزانوں کی چمک سے نظریں چرا لیتے ہیں۔۔۔
زندگی کی خوشیاں جھولی بھر بھر سمیٹتے ہیں اور اسی جھولی میں چھید کیے جاتے ہیں۔۔۔
منہ پر زورسے ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہاتھ اور پاؤں سے چیخ کی آواز نہ سنائی دے۔۔۔
انسان کو روبوٹ جانتے ہیں اور لمس کی چاہ کی ہوس رکھتے ہیں۔۔۔
وجود کو قبرستان بنا کر زندگی کے قہقہوں کی تمنا پالتے ہیں۔۔۔
سر کے تاج کو زمانے کے حوالے کر کے چاہتے ہیں کہ اس پر خراش نہ آئے۔۔۔
بستر پر کانٹے بچھا کر کروٹ بدلنے پر اُن کی چُبھن کا الزام دھرتے ہیں۔۔۔
اپنے آپ کو عقلِ کُل جان کر فیصلے صادر کرتے ہیں اور کٹہرے سے جانے بھی نہیں دیتے۔۔۔
سانس نکلنے پر آہ بھرتے ہیں نہیں جانتے کہ جان تو آس کی ڈور ٹوٹنے پر ہی نکل جاتی ہے۔۔۔
مرنے کے بعد جنازے پر بین کرنے کو دل وجان سے راضی لیکن زندہ لاش کو کاندھے کی بھیک دینا گوارا نہیں۔۔۔
اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسرے کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔۔۔
جسم سے چادر نوچ لیتے ہیں پھر بےپردگی کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔
لفظ کے تیروں اور لہجے کے نشتروں سے سرِعام بےلباس کرتے ہیں اور منہ چھپانے کی بھی پناہ نہیں دیتے۔۔۔
انگلی پکڑ کر چلنا سیکھنے والے لاٹھی کو بےقیمت کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔۔۔
آج میں اُڑتے ہیں اور زمین کے کل سے بے خبر ہوتے ہیں۔۔۔
خود غرضی کی حد تک اپنی غرض سے غرض رکھتے ہیں لیکن اپنا بھلا کبھی نہیں کر سکتے۔۔۔
خودغرض ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کو صرف اپنی غرض کی پہچان ہو جائے تو نہ صرف اُس کی دُنیا بلکہ عاقبت بھی سنور جائے۔
!آخری بات
توقعات اور فتنوں کے لباس خود اُتار دو تاکہ تمہارے کورے بدن پر عزت کا لباس آسانی سے پہنایا جا سکے۔
لوگ ۔۔۔۔۔
کتا سمجھتے ہیں اور بھونکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔۔۔۔
زمین پر تھوک کر گزر جاتے ہیں اور چاٹنے کے لیے پلٹتے بھی ہیں۔۔۔۔
حرام کا تخم کہتے ہیں اور خوشبودار پھل کا آخری رس تک نچوڑنا چاہتے ہیں۔۔۔
آنکھ پر مصلحت کی پٹی باندھ دیتے ہیں اور نابینا کہہ کر مذاق اُڑاتے ہیں۔۔۔
گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالتے ہیں اور ساتھ اپنی خواہشوں کی فہرست بھی تھما دیتے ہیں۔۔۔
زندگی کے باکسنگ رنگ میں ناک آؤٹ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی فتح کے جشن پر تالیاں بھی پیٹی جائیں۔۔۔
بنجر زمین کا الزام لگاتے ہیں اور چھپے ہوئے خزانوں کی چمک سے نظریں چرا لیتے ہیں۔۔۔
زندگی کی خوشیاں جھولی بھر بھر سمیٹتے ہیں اور اسی جھولی میں چھید کیے جاتے ہیں۔۔۔
منہ پر زورسے ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہاتھ اور پاؤں سے چیخ کی آواز نہ سنائی دے۔۔۔
انسان کو روبوٹ جانتے ہیں اور لمس کی چاہ کی ہوس رکھتے ہیں۔۔۔
وجود کو قبرستان بنا کر زندگی کے قہقہوں کی تمنا پالتے ہیں۔۔۔
سر کے تاج کو زمانے کے حوالے کر کے چاہتے ہیں کہ اس پر خراش نہ آئے۔۔۔
بستر پر کانٹے بچھا کر کروٹ بدلنے پر اُن کی چُبھن کا الزام دھرتے ہیں۔۔۔
اپنے آپ کو عقلِ کُل جان کر فیصلے صادر کرتے ہیں اور کٹہرے سے جانے بھی نہیں دیتے۔۔۔
سانس نکلنے پر آہ بھرتے ہیں نہیں جانتے کہ جان تو آس کی ڈور ٹوٹنے پر ہی نکل جاتی ہے۔۔۔
مرنے کے بعد جنازے پر بین کرنے کو دل وجان سے راضی لیکن زندہ لاش کو کاندھے کی بھیک دینا گوارا نہیں۔۔۔
اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسرے کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔۔۔
جسم سے چادر نوچ لیتے ہیں پھر بےپردگی کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔
لفظ کے تیروں اور لہجے کے نشتروں سے سرِعام بےلباس کرتے ہیں اور منہ چھپانے کی بھی پناہ نہیں دیتے۔۔۔
انگلی پکڑ کر چلنا سیکھنے والے لاٹھی کو بےقیمت کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔۔۔
آج میں اُڑتے ہیں اور زمین کے کل سے بے خبر ہوتے ہیں۔۔۔
خود غرضی کی حد تک اپنی غرض سے غرض رکھتے ہیں لیکن اپنا بھلا کبھی نہیں کر سکتے۔۔۔
خودغرض ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کو صرف اپنی غرض کی پہچان ہو جائے تو نہ صرف اُس کی دُنیا بلکہ عاقبت بھی سنور جائے۔
!آخری بات
توقعات اور فتنوں کے لباس خود اُتار دو تاکہ تمہارے کورے بدن پر عزت کا لباس آسانی سے پہنایا جا سکے۔
ہر بات سمجھی نہیں جا سکتی۔۔۔سمجھائی نہیں جا سکتی۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کچھ چیزیں بلکہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی بھی محسوس کی جائے تو سمجھ آئی ہے ۔۔۔ ہمارا ایمان بنتی ہے۔ ہم خود اپنے آپ کو نہیں سمجھ سکے تو کوئی ہماری تحریر کیا سمجھے گا۔یہ صرف احساس کا کھیل ہے ہماری سوچ کے لمس کو کوئی ایک بھی چھو جائے، اپنی ذات پر اعتماد کے لیے بہت ہے ورنہ ہمارا خالق ہماری نیت جانتا ہے اور وہی اس کا اجر دینے والا ہے۔کیا کیا جائے۔۔۔ ہم انسان ہیں جب تک انسان سے دل کی بات نہ کہہ دیں چین نہیں آتا۔
اتنی تلخیاں .... کونسا زہر پیا ہے آپ نے جو آپ الفاظ کی صورت میں صفحہ قرطاس پر اگلتی ہیں تو پڑھنے والوں کو اپنی سانس گھٹتی محسوس ہوتی ہے- زمانہ اور زمانے والے تو ہمیشہ سے ایک اکیلی عورت کو تماشا سمجھتے آئے ہیں - لیکن بہت کم ایسی خواتین ہوتی ہیں جو جو اپنے پندار فقیرانہ کو بچا کر رکھتی ہیں - بہت سی دعائیں آپ کے لئے -
جواب دیںحذف کریں