ہم نہیں جانتے کہ دینے والا کون ہے اور مانگنے والا کون ۔۔۔ داتا کون ہے اور بھکاری کون۔۔۔ سب نیت کے کھیل ہیں۔۔۔ نیت کا پھل ہے۔ اپنی عقل کامل کے زیرِاثرکسی غریب مجبور کام کرنے والےسے کام کرا کر اور پیسے دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے رزق کا وسیلہ بنے ہیں۔
آج صبح کی بات ہے کہ گھر میں کام کرنے والی معمول کے وقت پر آئی .میں اتفاق سے باہر ہی تھی ۔اتوار سے پہلے اس کا پرس بس میں رہ گیا تھا۔ اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگی شکر ہے اللہ کا کہ بس والا گراں کا تھا اس لیے بٹوہ مل گیا۔ پیسے تو صرف ڈیڑھ سو تھے لیکن شناختی کارڈ بھی تھا جو پہلے ہی میاں کے مرنے کی وجہ سے بڑی مشکل سے بنا۔ میں کارڈ اس سے لے کر دیکھنے لگی۔ لفظ کہیں بھی مل جائے میرے لیے نعمت ہے۔ پہلے تو نام پر چونک گئی۔۔۔ "ارزم" کہنے لگی اصل نام "ازرم" ہے۔۔۔۔ کارڈ پر غلط درج ہو گیا ہے۔پھر پتہ دیکھا تو پہلی بار اس کے علاقے کا پتہ چلا۔ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی پڑھائی کی خاطر گھروں میں کام کرنے لگی ۔بچے گاؤں میں ہی ہیں۔ ہفتے کے بعد ان کے پاس جاتی ہے۔
کام کے دوران بار بار اس کا فون بجتا ،لگتا تھا کسی کو بہت جلدی ہے۔ اسی دوران گیٹ پر گئی واپس آئی تو سرسوں کا ساگ ہاتھ میں تھا۔کہنے لگی کہ ایک باجی کے لیے کسی گرائیں سے مہینہ پہلے ساگ کا کہا تھا۔ بارش نہیں ہوئی تو دیر ہو گئی ساگ ملنے میں۔ اب ضرورت بھی نہیں دینے کی اور وہ زبردستی دے کر چلا گیا ہے۔آپ رکھ لیں۔ میں ساگ کو دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ کس سے کہا اور کہاں سے ملا۔ ساگ بازار میں بہت ہے اور جیب میں اسے خریدنے کی استطاعت بھی رب کا شکر ہے اور کھاتے بھی رہتے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ چند روز پہلے اس کام والی کے قریبی علاقے سے کسی سے ساگ کی فرمائش کی اور ساگ پہنچانے کا ذریعہ نہیں تھا ۔ اور آج گھر پر کوئی خاموشی سے دے گیا۔
وہ کام والی ہمارے کم ازکم ایک وقت کے کھانے کا وسیلہ ضرور تھی۔
ہمارا رب کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کا محتاج کبھی نہیں بناناچاہتا ۔ انسان ہی تھڑدلا ہے کہ وہ بہت جلد رب کی رحمت سے مایوس ہو کر انسان کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔
کچھ دیر بعد باہر جا کر دیکھا تو ساس آدھے سے زیادہ کاٹ چکی تھیں ۔ باقی بچے ہوئے کے بارے میں پوچھنے لگیں ۔اسی وقت خیال آیا کہ دو گھر دور اپنی دوست سے پوچھ لوں۔بقول محترم اشفاق احمد " دتے میں سے ہی دینا تھا "۔ فون کیا تو اس نے کہا دے دو ۔ اسی حال میں چادر لے کر فوراً دینے نکلی۔ ابھی گیٹ کھول کر بمشکل دو قدم بھی نہیں اٹھائے تھے کہ اُس کی بیٹی یونیورسٹی سے آتے ہوئے ہمارےگھر کے آگے سے گزر کر جارہی تھی۔ اسے پیچھے سے آواز دے کر بلایا اور تھما کر لوٹ آئی ۔ ذہن میں اللہ کی پکار روم روم میں لرزہ طاری کرنے لگی کہ۔۔۔ "اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔“(صحیح بخاری شریف جلد 2 )۔ جی چاہا کہ ساری دنیا کو بتا دوں کہ دیکھ لو رب واقعی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے ۔۔ ماں باپ سے کئی گنا زیادہ خیال رکھتا ہے ۔۔ ہماری معمولی سی بھی خواہش پوری کرتا ہے ۔ وہ تو چند قدم کی مشقت سے بھی بچا لیتا ہے اور ہم ایک پل کی زندگی کے خود ساختہ دکھوں کوبرداشت نہیں کر پاتے۔ اور پھر یہ خیال بھی آیا کہ جو لوگ ماں باپ کے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے لیے دعاؤں والے ہاتھ نہیں رہے یا اب دنیا میں کوئی ہمارا خیال رکھنا والا نہیں رہا تو وہ انجانے میں شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ہمارا رب تو آخری سانس تک ہمارا ہے اور اس وقت بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا جب دُنیا کے سب رشتے سب محبتوں کو بس اپنی پڑی ہوگی ۔ اپنے خیال کی تصدیق کے لیے ایک اللہ کے بندے سے رابطہ کیا اور اس نے اپنے مصروف وقت میں سے کچھ وقت نکال کر یہ حدیث ہدیہ کی ۔ جزاک اللہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں ۔اگر وہ مجھے مجمع کے اندر یاد کرتا ہے تو میں بھی اس سے بہتر مجمع کے اندر اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہو تا ہے تو میں گز بھر اس سے قریب ہوجاتا ہوں ،اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلاﺅ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔“(صحیح بخاری شریف جلد 2 )۔
آخری بات
بلاشبہ جب کوئی اس کی طرف چل کے جاتا ہے تو وہ دوڑ کے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش کہ اس کی محبتیں اور عطائیں ہم خطاکروں کی آنکھیں کھول دیں
جواب دیںحذف کریںآپکی ویب سائٹ مجھے بہت اچھی لگی اسی طرح کام رہیں اللہ آپکو کامیاب کریں
جواب دیںحذف کریںآمین
Machli ke cutlus banane ka tariqa
Kitchen Recipes in urdu